لارڈز ٹیسٹ؛ بھارت کی شکست کا سبب ناقص حکمت عملی

1 1,019

ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست بھارت اور انگلستان کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا بھر کے بیشتر شائقین ایک مرتبہ پھر کرکٹ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ انگلستان اور بھارت میں پہلے ٹیسٹ کا خصوصاً بہت زیادہ انتظار کیا گیا اور کیوں نہ کیا جاتا، آخر کو یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا دو ہزارواں اور بھارت-انگلستان معرکوں کا 100 واں مقابلہ جو تھا۔ پھر اس پر لوگوں کی توقعات کہ ہو سکتا ہے سچن ٹنڈولکر اپنی سویں سنچری یہاں مکمل کریں، ہو سکتا ہے کہ لارڈز پر عرصے سے فتح کا بھارتی خواب پورا ہو جائے؟ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھارتی بلے باز یہاں سنچری بنانے میں کامیاب ہوجائے اور راہول ڈریوڈ بھی ٹیسٹ کرکٹ کے دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن جائیں۔ دوسری جانب انگلستان کی بھی توقعات تھیں کہ وہ بھارت پر اپنی برتری حاصل کرے اور بعد ازاں کم از کم دو ٹیسٹ کے مارجن سے جیت کر عالمی درجہ بندی میں سرفہرست پوزیشن حاصل کر لے۔

ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں اگلا ٹیسٹ مہندر سنگھ دھونی کا سخت امتحان ہوگا

توقعات کے اس دباؤ میں میچ کا آغاز ہوا تو بھارت کی حکمت عملی ابتداء ہی سے غلط رہی۔ ظہیر خان جو ہمسٹرنگ کی انجری کے باعث کچھ عرصہ ٹیم سے باہر رہنے کے بعد واپس آئے، کی انجری کا مکمل اندازہ نہ طبی عملے کو ہو سکا اور نہ ہی ظہیر خان اس انجری کی سنجیدگی سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میچ کی پہلی ہی اننگز میں اپنے مین اسٹرائیک باؤلر سے محروم ہوگیا۔ ظہیر خان پہلی اننگز میں اپنے 14 ویں اوور کو درمیان میں چھوڑ کر جو پویلین لوٹے تو آخری دن تک دوبارہ باؤلنگ کراتے ہوئے نظر نہ آ سکے۔ یہ بھارت کے لیے ایسا دھچکا تھا جو میچ کو اس کی گرفت سے نکالنے کے لیے کافی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ظہیر کے بغیر بھارتی باؤلنگ اٹیک ایک اچھی پوزیشن پر آنے کے باوجود انگلش بیٹنگ لائن اپ کو زیر نہ کر سکا اور کیون پیٹرسن ڈبل سنچری داغنے میں کامیاب ہو گئے۔ انگلستان پہلی اننگ میں 474 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر اپنی اننگز ڈکلیئر کر دی۔

ایک طرف جہاں ظہیر خان کی مکمل صحت یابی کا ادراک نہ کرنا بھارت کی غلطی تھا تو اس کا ناقص منصوبہ بندی کا اظہار بلے بازی میں بھی ہوا جہاں معلوم ہوا کہ سچن ٹنڈولکر بخار کے باوجود میچ میں شامل کیے گئے اور پہلی اننگز میں محض 32 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے بلکہ پویلین کیا لوٹے بلکہ وہاں سے سیدھا ہوٹل گئے اور ادویات لے کر آرام کیا۔ پھر بھارت کی فیلڈنگ کے دوران بھی وہ پورا دن میدان میں کھیل کے لیے نہ آ سکے۔ دوسری اننگز میں بھی وہ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے اور 68 گیندوں پر محض 12 رنز بنا سکے۔ یہ بھارت کی بدترین حکمت عملی تھی کہ اس کا اہم ترین باؤلر اور اہم ترین بلے باز، جو میچ کا پانسہ پلٹنے کا صلاحیت رکھتے ہیں، دونوں مکمل طور پر فٹ نہیں تھے اور وہ نیم فٹ ٹیم کے ساتھ انگلستان کو اس کی سرزمین پر زیر کرنے چلا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ وہی جو نکلنا چاہیے تھا کہ عالمی نمبر ایک بھارت کو پہلے ٹیسٹ میں 196 رنز کی ہزیمت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ ٹیسٹ صرف ڈریوڈ کے لیے کسی حد تک یادگار رہا، جو لارڈز کے میدان میں سنچری اسکور کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور رکی پونٹنگ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ میں دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن گئے۔ ان کے علاوہ باؤلنگ میں پہلی اننگ میں پروین کمار اور دوسری اننگز میں ایشانت شرما کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ ایشانت نے دوسری اننگز میں تباہ کن باؤلنگ کے ذریعے انہونی کو ہونی بنانے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت مکمل فٹ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترے کیونکہ آدھے سچن ٹنڈولکر سے بہتر ہے کہ بھارت کسی مکمل فٹ بلے باز کو کھلائے کیونکہ اس سے کارکردگی دکھانے کی زیادہ توقع ہے۔ اب بھارت ان فٹ کھلاڑیوں کی طویل فہرست کے ساتھ ناٹنگھم میں اگلے ٹیسٹ کے لیے میدان میں اترے گا جہاں وریندر سہواگ اور ظہیر خان کی عدم شرکت تقریباً یقینی ہے جبکہ سچن ٹنڈولکر کے کھیلنے کے امکانات تو موجود ہیں تاہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بھارت کو ضرورت ہے کہ وہ مکمل فٹ سری سانتھ اور یووراج سنگھ کو مذکورہ دونوں کھلاڑیوں کے متبادل کے طور پر کھلائے۔ سیریز میں 1-0 کے خسارے کے بعد بھارت کو جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور جارح مزاجی میں یہ دونوں کھلاڑی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔