بھارت یو ڈی آر ایس کا مخالف کیوں؟

5 1,039

تحریر: ظہیر الدین
مدیر: Cricket Controversies

چند روز قبل انگلستان کے کوچ اینڈی فلاور نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے مطالبہ کیا کہ امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام (یو ڈی آریس) کو ہر میچ کا مکمل حصہ بنانے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرے، اور اس سلسلے میں کسی بورڈ کی طرف نہ دیکھے۔ اینڈی فلاور نے لارڈز ٹیسٹ کے بعد کہا کہ اگر بھارت کے خلاف جاری سیریز میں ڈی آریس کا بھرپور اور مکمل استعمال کیا جاتا تو کئی فیصلے ایسے تھے جو انگلینڈ کے حق میں جاتے اور میچ کہیں پہلے ختم ہوجاتا۔

بھارت-انگلستان حالیہ سیریز کے دوران ایک عجیب قدم اٹھایا گیا کہ ڈی آر ایس کو اس کی کم سے کم سطح پر استعمال کیا گیا یعنی آئی سی سی کی سفارشات کے مطابق اس میں بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی نہیں شامل کی گئی ۔ اس کا مطلب ہے کہ ایل بی ڈبلیو کے تمام فیصلے فیلڈ امپائرز ہی کریں گے اور اس میں تیسرے امپائر کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔

بھارت کے کپتان کے ساتھ حالیہ تنازع امپائر ڈیرل ہارپر کے کیریئر کے خاتمے کا سبب بنا
بھارت کے کپتان کے ساتھ حالیہ تنازع امپائر ڈیرل ہارپر کے کیریئر کے خاتمے کا سبب بنا

اینڈی فلاور کا مطالبہ بالکل درست ہے۔ بھارت کو خوش کرنے کے لیے آئی سی سی نے جو بنیادی معیارات مرتب کیے ہیں،ان سے ڈی آر ایس بجائے بننے کے لیے اور زیادہ مسئلہ بن کر کھڑا ہوگا۔ دنیائے کرکٹ کے تمام ممالک ڈی آریس کے مکمل استعمال کے حق میں ہیں لیکن واحد ملک ہے جو اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ آئی سی سی کے حالیہ سالانہ اجلاس کے موقع پر ڈی آر ایس ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔ بھارت نے دیگر ممالک کی جانب سے دباؤ کے باعث ڈی آر ایس کو قبول تو کر لیا لیکن بال ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے بغیر۔ اب ایل بی ڈبلیو کے فیصلوں کے لیے اس اہم ٹیکنالوجی کے بغیر لولا لنگڑا ڈی آر ایس کہاں تک امپائروں کو درست فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے اس کا ہلکا سا اظہار لارڈز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ ہی میں ہو چکا ہے۔

لیکن ایک سوال جو بہت شدت کے ساتھ اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر بھارت ڈی آرایس کا مخالف کیوں ہے؟

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) دنیائے کرکٹ کا مالی طور پر مستحکم ترین بورڈ ہے۔ کرکٹ ے زیادہ تر اسپانسرشپ معاہدوں کا دارومدار بھارت سے متعلقہ امور پر ہی ہوتا ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے بنیادی اسپانسرز میں سے بیشتر کا تعلق بھارت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی کسی سیریز میں موجودگی مالی طور پر آئی سی سی سے لے کر میزبان ملک تک تمام کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ایک ارب کرکٹ دیوانوں کا یہ ملک اپنی اس اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی مانے۔ سری لنکن کرکٹ لیگ کا انجام سب کے سامنے ہے جہاں بھارت نے اپنے کھلاڑی بھیجنے سے انکار کیا تو لیگ کا انعقاد ہی نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام کرکٹ بورڈز خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اگر ہم نے بی سی سی آئی کو ناراض کیا اور تو بڑے پیمانے پر مالی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ لہٰذا یہ تمام بورڈز بی سی سی آئی کے ہر اچھے برے فیصلے کو قبول کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں ہربھجن سنگھ اور اینڈریو سائمنڈز کا تنازع سب کے سامنے رہا۔ ہربھجن کے خلاف تمام ثبوت موجود تھے لیکن جب بی سی سی آئی نے دھمکی دی کہ اگر ہربھجن کو سزا دی گئی تو وہ سیریز ادھوری چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے۔ آسٹریلیا نے اس موقع پر مالی نقصان کے خطرے کے پیش نظر ہر بھجن کے خلاف نرم رویہ اپنایا اور وہ کلیئر قرار پائے۔ یہ بھارت کی جانب سے اپنی مضبوط پوزیشن کو استعمال کرنے کا پہلا موقع تھا۔

یو ڈی آرایس کے استعمال کا معاملہ بھی کچھ اِسی نوعیت کا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بھارت نے اسی مضبوط پوزیشن کو استعمال کرکے پہلے تو امپائر اسٹیو بکنر کو فارغ کروایا اور اب حال ہی میں ڈیرل ہارپر کو بھی ریٹائر ہونے پر مجبور کیا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ کے دوران بھارتی کپتان دھونی نے، ڈیرل ہارپر کے بقول، انہیں دھمکایا بھی اور میچ کے بعد بھی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امپائر کے فیصلوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن ضابطہ اخلاق کی اس کھلی خلاف ورزی پر بھی آئی سی سی نے بھارتی قائد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

اب امپائرز پر یہ دباؤ ہے کہ اگر ہم نے کوئی معمولی سی غلطی کی اور فیصلہ کسی بھارتی کھلاڑی کے خلاف فیصلہ ہو گیا تو بھارتی میڈیا سمیت بھارتی کھلاڑی اور تمام تبصرہ نگار ان کے خلاف ہوجائیں گے اور معاملہ کیریئر کے اختتام پر ہی منتج ہوگا۔ لہذا ہر امپائرخوف کی وجہ سے شک کا فائدہ ہمیشہ بھارتی کھلاڑیوں کو دیتے ہیں ۔ یہی کچھ پہلے لارڈز میں کھیلےگئے حالیہ ٹیسٹ میں بھی ہوا ۔میچ کے پانچویں روز اسٹورٹ براڈ کی ایک گيند پر گوتم گمبھیر واضح طور پر ایل بی ڈبلیو تھے۔ لیکن امپائربلی باؤڈن کا فیصلہ ناٹ آؤٹ تھا۔ بعد میں ایکشن ری پلے سے صاف ظاہر ہوا کہ گمبھیر آؤٹ تھا۔ دراصل بلی باؤڈن پر بھارتی کھلاڑیوں اور ذرائع ابلاغ کا بے تحاشہ دباؤ تھا جس کی وجہ سے وہ صحیح فیصلہ نہیں دے سکے۔

لہٰذا اگر دیکھا جائے تو بھارت کی جانب سے یو ڈی آرایس کے استعمال کی مخالفت کے اسباب واضح ہیں۔ یوڈی آریس کے ہوتے ہوئے بھارت شک کا فائدہ اپنے حق میں تبدیل نہیں کرواسکتا اسی لیے وہ اس سسٹم کی مخالفت کررہاہے۔

تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو چاہیے کہ وہ مالی فوائد کے بجائے کرکٹ کی بہتری کی جانب دیکھیں اور ہر اُس ٹیکنالوجی کو کرکٹ میں استعمال کریں جس سے کرکٹ میں بہتری آسکے۔