گھر کے شیر بلی بن گئے؛ کیا بھارت حقیقی عالمی نمبر ون ہے؟

6 1,016

ان کروڑوں شائقین نے جنہوں نے بھارت کی بیٹنگ لائن اپ کو ، جسے دنیا کی مضبوط ترین لائن اپ گردانا جاتا ہے، انگلستان کے خلاف بکھرتے ہوئے دیکھا اُن کے لیے یہ تسلیم کرنا اب کچھ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہے۔

بھارتی بیٹنگ لائن اپ کے اہم مہرے انگلش باؤلرز کے سامنے دھول چاٹنے پر مجبور ہوئے
بھارتی بیٹنگ لائن اپ کے اہم مہرے انگلش باؤلرز کے سامنے دھول چاٹنے پر مجبور ہوئے

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو بھارت عالمی نمبر ایک نہیں ہے، اور درجہ بندی میں اس کا سرفہرست آنا دراصل اعداد و شمار کا کھیل اور درجہ بندی کرنے کے نظام کی بنیادی خامیوں کے سبب ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟ اُن کے مطابق اکتوبر 2008ء سے لے کر موجودہ سیریز سے قبل تک بھارت نے 11 ٹیسٹ سیریز کھیلیں، جن میں سے آٹھ میں اس نے فتوحات حاصل کیں اور تین بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئیں۔ کیسے لگے یہ اعداد و شمار؟ زبردست نا! لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے، وہ یہ ہے کہ اِن فتوحات میں سے پانچ سیریز ایسی ہیں جو بھارت نے اپنے ملک میں جیتیں اور دیگر تین سیریز بھی بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ جیسی کمزور ترین ٹیسٹ ٹیموں سے جیتی گئیں جو عالمی درجہ بندی میں سب سے نیچے ہیں۔

مذکورہ عرصے کے دوران بھارت نے جنوبی افریقہ کے ساتھ دو سیریز کھیلیں جن میں سے ایک بھارتی اور ایک جنوبی افریقی سرزمین پر کھیلی گئی۔ دونوں سیریز وہ بمشکل ہی ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسی صورتحال کا سامنا اسے اپنی سرزمین پر سری لنکا کے خلاف بھی رہا۔

بہرحال، کچھ بھی کہا جائے فی الوقت بھارت عالمی درجہ بندی میں سرفہرست تو ہے ہی لیکن اب اسے خود کو عالمی نمبر ون کا اہل ثابت کرنے کے لیے انگلستان جیسی مضبوط ٹیم کا سامنا درپیش ہے۔

بھارت دورۂ انگلستان میں اب تک ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچز میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہواہے گو کہ اس کے لیے کئی بہانے تراشے جا رہے ہیں جن میں سب سے اہم اوپننگ جوڑی گوتم گمبھیر اور وریندر سہواگ کی عدم موجودگی اور اہم ترین گیند باز ظہیر خان کا زخمی ہونا بھی شامل ہے تاہم ابتدائی دو ٹیسٹ میچز میں جس بری طرح بھارتی باؤلنگ اور بیٹنگ کا شیرازہ بکھرا ہے اس کی توقع تو پاکستان جیسی کمزور ٹیم سے بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔

دوسری جانب موجودہ عالمی درجہ بندی کے نظام کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے اس نظام کی خامی تو یہیں سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ اس میں ٹیموں کو 'ہوم' یا 'اوے' سے قطع نظر ہو کر پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔ یعنی کہ نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور انگلستان کے خلاف انہی کی سرزمینوں پر کھیلتا ہے یا اپنے ملک میں ، دونوں صورتوں میں اسے جیتنے کے یکساں پوائنٹس اور ہارنے پر یکساں خسارے ہی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس میں ہوم ایڈوانٹیج نامی کوئی شے سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے میدانوں میں جیت جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کر لی اور اب اسے بیرون ملک مختلف کنڈیشنز کا سامنا ہے تو اس کی صورتحال بالکل نو آموز ٹیموں جیسی ہے جو انگلستان کی جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ ڈھیر ہو چکی ہے۔

دوسری جانب انگلستان کو ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے اگلے دو ٹیسٹ مقابلوں کو بچانا ہے۔ اگر 4 ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز کے اختتام پر اس کی فتح کا مارجن 2 ہوتا ہے یعنی 2-0 یا 3-1 تو وہ بھارت سے پہلی پوزیشن چھین لے گا۔ تاہم اگر بھارت اگلے دونوں مقابلے جیتتا ہے یا پھر ایک میں فتح حاصل کرتا ہے اور دوسرا ڈرا ہوتا ہے تو بھارت کی پوزیشن برقرار رہے گی۔

بھارت اگلے میچ میں وریندر سہواگ، گوتم گمبھیر اور ظہیر خان جیسے اہم کھلاڑیوں کی ممکنہ واپسی کے بل بوتے پر سیریز میں واپس آنے کی کوشش کرے گا۔