سہواگ کا 'بلبلہ'

2 1,026

انگلستان اور بھارت کے درمیان سیریز کے آغاز سے قبل بڑا غلغلہ تھا۔ ایک ایسی سیریز جس میں دنیا کی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم ایک اور بہترین ٹیم سے ٹکرانے کے لیے جا رہی تھی۔ دنیا بھر کے ماہرین کرکٹ اس سیریز سے قبل سخت سے سخت تر مقابلے کی توقع کر رہے تھے۔ انگلستان کے شائقین کرکٹ یہ توقعات لگائے بیٹھے تھے کہ سیریز میں ویسا ہی مقابلہ ہوگا جیسا چھ سال قبل ایشیز 2005ء میں ہوا تھا اور انگلستان سنسنی خیز مقابلوں کے بعد عالمی نمبر ایک ٹیم کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، لیکن یہ کیا ہوا؟ نہ صرف یہ کہ اب تک ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچز انتہائی یکطرفہ ثابت ہوئے بلکہ پوری سیریز توقعات کے بالکل برعکس جا رہی ہے۔ بھارت کی بیٹنگ لائن اپ، جسے دنیا کی سب سے زبردست لائن اپ قرار دیا جاتا ہے، ریت کی دیوار ثابت ہوئی ہے۔ اب تک صرف ایک بھارتی بلے باز راہول ڈریوڈ سنچری بنانے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ اس کے علاوہ نصف سنچری بنانے کا 'اعزاز' بھی صرف تین بلے بازوں وی وی ایس لکشمن، سچن ٹنڈولکر اور یووراج سنگھ کو ملا ہے۔ جبکہ ان کے مقابل انگلستان کے بلے باز (صرف ابتدائی دو میچز میں) تین سنچریاں بنا چکے ہیں جن میں ایک ڈبل سنچری بھی شامل ہے۔ بھارت اب تک پوری سیریز میں ایک مرتبہ بھی اسکور بورڈ پر 300 کا مجموعہ بھی اکٹھا نہیں کر سکا۔

سہواگ تاریخ کے چند بدنصیب ترین بلے بازوں میں شامل ہوئے جو دونوں اننگز میں پہلی گيند پر آؤٹ ہوئے
سہواگ تاریخ کے چند بدنصیب ترین بلے بازوں میں شامل ہوئے جو دونوں اننگز میں پہلی گيند پر آؤٹ ہوئے

بھارت کو نہ صرف دونوں ٹیسٹ مقابلوں میں ذلت آمیز شکستیں ہوئیں بلکہ وہ سیریز کے آغاز سے قبل اور دونوں مقابلوں کے بعد مقامی کاؤنٹیز کے خلاف کھیلے گئے میچز میں بھی شکست سے دوچار ہوا۔ بھارت کی باؤلنگ تو ویسے ہی بقول شخصے 'ہومیو پیتھک باؤلنگ' ہے لیکن ان کی بلے بازی کو اس پائے کا سمجھا جاتا ہے کہ وہ مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی میچ نکال جاتی ہے اور ماضی قریب میں ایسے کئی مواقع آئے ہیں جہاں ان کے بلے باز حریف ٹیم کے شکنجے سے فتح کو چھین لے گئے۔

ابتدائی دونوں ٹیسٹ میچز میں بیٹنگ لائن اپ کی بدترین ناکامی کے بعد بھارت کو صرف ایک آسرا تھا، وہ تھا شعلہ فشاں اوپنر وریندر سہواگ کا۔ سہواگ جن کے سینے پر کئی عالمی ریکارڈز کے تمغے سجے ہوئے ہیں، ایک مسیحا کے طور پر 4 ہزار کلومیٹر کا طویل سفر کر کے انگلستان پہنچے۔ کئی ماہرین، جو پہلے ہی سہواگ کی عدم موجودگی کو بھارت کے لیے بڑا نقصان قرار دے رہے تھے، کو سیریز میں بھارت کی واپسی کے لیے امید کی کرن نظر آ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ سہواگ کی واپسی سے بھارتی بیٹنگ لائن اپ میں ایک جان بھر جائے گی۔

لیکن گزشتہ سال "سال کے بہترین ٹیسٹ کرکٹر" کا آئی سی سی ایوارڈ جیتنے والے سہواگ اپنے ساتھی سچن ٹنڈولکر کی طرح توقعات کے دباؤ میں آ گئے۔ جس طرح سچن اپنی سوویں سنچری کی تلاش میں 5 اننگز کھیل چکے ہیں اور ناکام رہے ہیں بالکل اسی طرح سہواگ ایجبسٹن، برمنگھم میں جب پہلے روز میدان میں اترے تو اسی دباؤ کا شکار نظر آئے اور پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو گئے۔ اسٹورٹ براڈ کی جانب سے لگائی گئی یہ ضرب اتنی کاری ثابت ہوئی کہ بھارتی اننگز پھر سنبھل نہ سکی اور کپتان مہندر سنگھ دھونی کے فائٹنگ 77 رنز کے باوجود پوری ٹیم 224 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔

جواب میں انگلستان نے بھارتی باؤلنگ لائن اپ کا بھرتہ نکال دیا۔ اوپنر ایلسٹر کک کی تقریباً ٹرپل سنچری یعنی 294 رنز اور ایون مورگن کی سنچری کی بدولت انگلستان نے 710 رنز بنا کر اننگ ڈکلیئر کی تو بھارت کی بیٹنگ لائن اپ پر اور زیادہ دباؤ آ گیا۔ جسے جھیلنا پڑا ایک مرتبہ پھر سہواگ کو جو نجات دہندہ بن کر لائے گئے تھے۔

32 سالہ سہواگ توقعات کے تازہ لادے گئے بوجھ کے ساتھ میدان میں اترے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یعنی اس اننگز میں بھی وہ پہلی ہی گیند پر سلپ میں کیچ دے بیٹھے اور ہو گئے میدان بدر۔ یہ سہواگ کے کیریئر کا پہلا موقع تھا کہ انہوں نے کنگ پیئر (king pair) حاصل کیا۔ کرکٹ کی اصطلاح میں دونوں اننگز میں پہلی گیند پر صفر پر آؤٹ ہونے کو کنگ پیئر کہا جاتا ہے۔

بھارت جو 486 رنز کے ہمالیہ جیسے خسارے تلے دبا ہوا ہے، سہواگ کے شاٹ کھیلنے کی غیر ذمہ دارانہ کوشش کو بھگتے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک کھلاڑی جس نے آخری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی مقابلے کے لیے مئی کے اوائل میں بلا پکڑا ہو اور اس کے بعد وہ کندھے کی جراحی کے مراحل سے گزرا ہو اور بالکل بھی پریکٹس میں نہ ہو، اسے انگلش کنڈیشنز میں کھلانے کا فیصلہ کرنے والی انتظامیہ اس معاملے کی کتنی ذمہ دار ہے؟

بھارت کے تمام کھلاڑیوں کی حالیہ ٹیسٹ سیریز میں کارکردگی اور ان کے گھٹیا فٹنس لیول کی ذمہ دار بھارتی پریمیئر لیگ ہے۔ عالمی کپ 2011ء جیسے تھکا دینے والے ٹورنامنٹ کے فوراً بعد آئی پی ایل کے طویل ٹورنامنٹ کے انعقاد نے ان کھلاڑیوں میں موجود توانائی کے آخری قطرے بھی چوس لیے۔ اب حال یہ ہے کہ بھارت نظروں کے سامنے اپنی عالمی نمبر ایک پوزیشن کھو رہا ہے اور اس کے بعد روکنے کا دم خم نہیں ہے۔

لیکن ہوگا کیا؟ زيادہ سے زیادہ یہ کہ تمام تر ملبہ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کرش سری کانت پر ڈالا جائے گا اور ساتھ ساتھ نئے کوچ ڈنکن فلیچر اس شکست کے ذمہ دار ٹھیرائے جائیں گے، ہو سکتا ہے کہ دونوں کی نوکریاں بھی چلی جائیں لیکن آئی پی ایل ویسے ہی دھڑلے کے ساتھ چلے گا کیونکہ 'پیسہ بڑا ہے بھئی'۔