"چور چوری سے جائے ۔۔۔۔" برطانوی ذرائع ابلاغ کا سہواگ پر بال ٹمپرنگ کا الزام

2 1,044

انگلستان کے ذرائع ابلاغ جو ہمیشہ منفی ہتھکنڈے آزما کر دورہ کرنے والی ٹیموں کے حوصلے پست کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، ٹیم کی انتہائی مضبوط پوزیشن کے باوجود باز نہیں آ رہے۔ آج برطانیہ کے معروف روزنامہ 'میل' نے بھارت کے کھلاڑی وریندر سہواگ پر الزام دھرا ہے کہ وہ ایجبسٹن میں جاری ٹیسٹ کے دوران بال ٹمپرنگ کرتے کیمرے کی آنکھ سے پکڑے گئے ہیں۔

ماضی میں جب بھی انگلش ٹیم حریف کے خلاف مشکلات کا شکار ہوتی، ذرائع ابلاغ کوئی نہ کوئی تنازع پیدا کر کے مہمان ٹیم کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کرتے۔ 1992ء میں عالمی کپ جیتنے کے بعد پاکستان نے انگلستان کا پہلا دورہ کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی بہترین ٹیموں میں سے ایک تھی خصوصاً وسیم اکرم اور وقار یونس پر مشتمل باؤلنگ اٹیک کرکٹ کی تاریخ کی بہترین باؤلنگ جوڑیوں میں سے تھا۔ دونوں کھلاڑیوں نے انگلش بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور پاکستان نے انگلستان کو 2-1 سے زیر کر کے سیریز اپنے نام کی۔ لیکن برطانوی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے باؤلرز پر بال ٹمپرنگ کے الزامات لگانے شروع کر دیے اور اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ لیکن یہ شور انگلستان کے کسی کام نہ آیا، پاکستان نے اوول میں کھیلے گئے پانچویں ٹیسٹ میں وسیم اکرم کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت باآسانی 10 وکٹوں سے فتح حاصل کر کے سیریز اپنے نام کر لی۔

پھر 2006ء میں جب پاکستان محمد آصف اور عمر گل کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت اوول ٹیسٹ جیتنے کی پوزیشن میں آ گیا تو ایک مرتبہ پھر بال ٹمپرنگ کا الزام لگا دیا گیا۔ گو کہ انگلستان پہلے ہی 2 ٹیسٹ جیت کر سیریز جیت چکا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان سے حریف ٹیم کا اچھا کھیلنا برداشت نہیں ہوتا۔ بہرحال، پاکستان کے کپتان انضمام الحق نے چوتھے روز چائے کے وقفے کے بعد میدان میں واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا۔ متنازع امپائر ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو نے میچ میں انگلستان کو فاتح قرار دے دیا۔

پھر بھلا 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ تنازع کو کیسے بھولا جائے؟ جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک مصالحہ اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' کی رپورٹ پر پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو طویل پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے نہ ہی ان ثبوتوں کو پیش کیا جن کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو پابندی کا نشانہ بنایا گیا اور نہ ہی بری قرار دیے گئے کھلاڑیوں کو چھوڑنے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کی گئی۔

اس تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں تو اب جبکہ بھارت اور انگلستان کے درمیان جاری سیریز میں تمام مقابلے مکمل طورپر یکطرفہ ثابت ہو رہے ہیں، بھارت کی جانب سے میزبان ٹیم کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں لیکن صاحب وہ اردو میں کیا کہتے ہیں 'چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے' تو بالکل اسی طرح کوئی نہ کوئی تنازع اس سیریز میں بھی ضرور کھڑا کیا ہے۔ چاہے وہ دوسرے ٹیسٹ میں حریف کھلاڑی وی وی ایس لکشمن پر ڈی آر ایس کو دھوکہ دینے کا الزام ہو یا پھر تیسرے ٹیسٹ میں وریندر سہواگ پر بال ٹمپرنگ کا تازہ الزام۔ اور اس گنگا میں صرف ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ انگلستان کے سابق کھلاڑی بھی شامل ہیں، جو مہمانوں کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔

ڈیلی میل کی جانب سے جاری کردہ تصاویر، جن میں بالائی تصاویر میں مبینہ طور پر وریندر سہواگ کچھ چبانے کے ساتھ ساتھ گیند چمکا رہے ہیں اور ذیلی تصویر میں وہ مذکورہ ٹافی پھینک رہے ہیں
ڈیلی میل کی جانب سے جاری کردہ تصاویر، جن میں بالائی تصاویر میں مبینہ طور پر وریندر سہواگ کچھ چبانے کے ساتھ ساتھ گیند چمکا رہے ہیں اور ذیلی تصویر میں وہ مذکورہ ٹافی پھینک رہے ہیں

اب یہی دیکھیے کہ برطانیہ کے معروف روزنامے میل نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت کے کھلاڑی وریندر سہواگ نے ایجبسٹن ٹیسٹ کے تیسرے روز گیند کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ صبح کے سیشن میں سہواگ کچھ چباتے دکھائی دیے اور وہ پھر اپنے اسی تھوک سے گیند کو چمکاتے رہے۔

کرکٹ قوانین کے مطابق بال کو چمکانے میں کوئی بیرونی مواد استعمال نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی باؤلنگ کرنے والی ٹیم اس پر اپنا زیادہ وقت صرف کرے گی۔

اخبار کا کہنا ہے کہ سہواگ بارہا گیند کو چمکانے کے بعد آخر میں سلپ میں اس ٹافی کو پھینکتے پکڑے گئے۔ بھارت نے بہت کوشش کی کہ منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے باؤلرز کچھ سوئنگ حاصل کر پائیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔

لگتا ہے کہ سیریز میں کوئی بڑا تنازع پیدا نہ ہونے کے باعث اب انگلش میڈيا کے پیٹ میں کچھ مروڑ اٹھ رہے ہیں اس لیے وہ سیریز میں کوئی نیا "موڑ" لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ مہمان ٹیم کے حوصلے مزید پست ہو جائیں۔

انگریزوں کی "مہمان نوازی" کی تاریخ بڑی طویل ہے جناب! 🙂