17 اگست، پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن

19 1,218

17 اگست کو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے کیونکہ 1954ء میں اسی دن پاکستان نے تاریخ کی سب سے یادگار فتح حاصل کی تھی۔ اس روز اوول کے میدان میں فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت 'کرکٹ بے بی' پاکستان نے انگلستان جیسی مضبوط ٹیم کو 24 رنز سے زیر کر کے اپنے شاندار مستقبل کی نوید سنائی۔

عبد الحفیظ کاردار کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے دورۂ انگلستان میں اوول میں کھیلا گیا چوتھا ٹیسٹ جیت کر سیریز برابر کی اور ساتھ ساتھ انگلستان کے خلاف پہلی سیریز ہی میں ٹیسٹ جیتنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔

جب پاکستان کی ٹیم چوتھے ٹیسٹ کے لیے اوول کے میدان میں اتری تو اس وقت پاکستان 1-0 سے خسارے میں تھا کیونکہ ٹرینٹ برج میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں انگلستان نے اننگز اور 129 رنز سے فتح حاصل کرکے سیریز میں برتری حاصل کر لی تھی۔ یوں پاکستان کے لیے 'کرو یا مرو' والا معاملہ تھا۔

اس میچ کی خاص بات یہی تھی کہ نوآموز پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس وقت بھی ہمت نہیں ہاری، جب میچ مکمل طور پر ان کی گرفت سے نکل چکا تھا۔ گو کہ انگلستان کی ٹیم عظیم کھلاڑی لین ہٹن سمیت دیگر کئی ستاروں سے مزین تھی اور آغاز ہی سے اُس کی فتح یقینی تھی لیکن پاکستانی کھلاڑیوں نے ثابت کر دیا کہ اگر جذبے و ہمت سے کام لیا جائے تو بڑے سے بڑے حریف کو چت کیا جا سکتا ہے۔ انگلش ٹیم میں ہٹن کے علاوہ ڈینس کامپٹن، پیٹر مے، فرینک ٹائی سن، جونی وارڈل اور پیٹر لوڈر جیسے عظیم کرکٹرز شامل تھے۔ جبکہ نوآموز پاکستانی ٹیم اس وقت کے غیر معروف کھلاڑیوں پر مشتمل تھی تاہم اس فتح کے ساتھ ان کھلاڑیوں نے زبردست شہرت حاصل کی۔ ان میں کپتان عبد الحفیظ کاردار اور 'اوول کے ہیرو' کا خطاب پانے والے فضل محمود کے علاوہ حنیف محمد، امتیاز احمد اور وزیر محمد شامل تھے۔

سیریز میں 1-0 کے خسارے کے بعد پاکستان پہلے روز ہی سے دباؤ میں آ گیا جب بارش اور اس کے بعد کے ابرآلود موسم کے باعث اس کی پہلی اننگز محض 133 پر تمام ہوئی۔ پاکستان کی سات وکٹیں 51 پر گر چکی تھیں لیکن حفیظ کاردار نے آخری کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اسکور کو آگے بڑھایا۔ دوسرا پورا دن بارش کی نذر ہو گیا لیکن جب تیسرے دن کھیل کا آغاز ہوا تو پاکستان کا جوابی وار بہت کاری ثابت ہوا۔ پاکستان کے باؤلرز خصوصاً فضل محمود کی تباہ کن گیند بازی کے سامنے انگلش بلے بازوں کی ایک نہ چلی، جو پہلے ہی ایلک بیڈسر اور ٹریور بیلی جیسے کھلاڑیوں سے محروم تھی۔ پاکستان کی شاندار گیند بازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی اننگز میں محض 133 رنز بنانے کے باوجود پاکستان انگلستان پر 3 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا یعنی کہ پوری انگلش ٹیم 130 رنز پر چلتی بنی۔ ڈینس کامپٹن کے 53 رنز کی اننگز بہت کارآمد رہی اگر وہ ایسی مزاحمتی اننگز نہ کھیلتے تو انگلستان کا کافی نقصان ہو جاتا۔

دوسری اننگز میں پاکستان کا ٹاپ آرڈر ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر ناکام ہو گیا اور یہ وزیر محمد کے 42 اور اسپنر ذوالفقار احمد کے 34 رنز تھے جنہوں نے آخر میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور پاکستان 164 رنز کے مجموعے تک پہنچا دیا۔ انگلستان کی جانب سے جونی وارڈل نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا اور حقیقت یہی ہے کہ یہ ان کی گیند بازی ہی تھی جو انگلستان کو میچ میں واپس لے کرآئی۔ انہوں نے اپنی شاندار اسپن باؤلنگ کے ذریعے 7 پاکستانی کھلاڑیوں کو شکار کیا۔

اب پاکستان بہت شدید دباؤ میں تھا، محض 168 رنز کا دفاع کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا تھا اور انگلش ٹاپ آرڈر کی اچھی بلے بازی نے تو اس کو اور زیادہ مشکل بنا دیا۔ انگلستان نے پیٹر مے کے 53 اورریگ سمپسن کے 27 رنز کی بدولت 109 رنز بنا لیے اور اس کے محض 2 کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔ اب انگلستان کو فتح کے لیے محض 59 رنز درکار تھے اور فتح انگلستان کی گرفت میں نظر آتی تھی۔

اس موقع پر انگلستان نے حیران کن طور پر ایونز کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ چوتھے روز کا کھیل ختم ہونے تک جلد از جلد فتح کے قریب پہنچا جاسکے۔ لیکن شاید یہی فیصلہ انگلستان کو مہنگا پڑ گیا۔ فضل محمود نے ایونز اور کومپٹن کو ٹھکانے لگایا جبکہ دوسرے اینڈ سے شجاع الدین نے گریونی کو آؤٹ کر کے میچ سنسنی خیز مرحلے میں داخل کر دیا۔

پانچویں روز انگلستان کو 4 وکٹوں کے ساتھ 43 رنز درکار تھے لیکن پاکستانی باؤلرز نے بقیہ انگلش کھلاڑیوں کا محض 55 منٹ میں صفایا کر دیا اور یوں پاکستان نے 24 رنز سے ایک تاریخی فتح حاصل کر لی۔ فضل محمود نے میچ میں 99 رنز کے عوض 12 وکٹیں حاصل کیں اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا اور پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں امر ہو گئے۔

یہ میچ کئی لحاظ سے تاریخی تھا، ایک تو یہ تین سال کے بعد انگلستان کی پہلی شکست تھی، جو اس وقت بہت مضبوط ٹیم تصور کی جاتی تھی۔ دوسرا اس میچ میں شائقین نے بھی زبردست دلچسپ کا مظاہرہ کیا اور میچ کے تیسرے روز 18 ہزار تماشائیوں نے میدان کا رخ کیا۔

یوں پاکستان اپنے پہلے دورۂ انگلستان سے سرخرو وطن لوٹا۔ ایک نوآموز ٹیم کے لیے انگلستان جیسی ٹیم کے خلاف اسی کی سرزمین پر سیریز برابر کرنا ایک بڑا کارنامہ گردانا گیا۔

اس میچ سے فضل محمود پاکستان کی تاریخ کے بڑے ہیرو بن کر ابھرے اور انہوں نے اس روایت کا آغاز کیا جس میں بعد ازاں سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عظیم باؤلرز نے جنم لیا۔