انگلستان میں بھارت کی شکست، مثبت پہلو اور مستقبل کا لائحہ عمل

2 1,021

تحریر: سلمان غنی
پٹنہ، بھارت

بھارتی کرکٹ ٹیم کی انگلستان کے ہاتھوں تاریخ کی بدترین شکست کے بعد وہ تمام کمزوریاں، کوتاہیاں اور خامیاں رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگی ہیں جن سے شعوری یا غیر شعوری طور پر غفلت برتی گئی۔ اس رسوا کن پسپائی اور ذلت کا یہی ایک مثبت پہلو ہے جس پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو مستقبل کی مزید پشیمانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

ایک اور خوش آئند امر: 91 رنز پر آؤٹ ہو جانے کی وجہ سے سچن اپنی ’منحوس سنچریوں‘ کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بچ گئے
ایک اور خوش آئند امر: 91 رنز پر آؤٹ ہو جانے کی وجہ سے سچن اپنی ’منحوس سنچریوں‘ کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بچ گئے

یہ شکست اس معنی میں سود مند بھی ہے کہ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی جس غفلت اور کوتاہی پر اُس کے پیسوں کی فراوانی اور چکاچوند نے پردہ میں ڈال رکھا تھا وہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہے۔ اب میڈیا میں یہ موضوعات زیر بحث ہیں کہ زخمی کھلاڑیوں کو دورۂ انگلستان کے لئے کیوں منتخب کیا گیا یا انہیں پہلے ہی آرام کا موقع کیوں نہیں فراہم کیا گیا، بورڈ میں انجری مینجمنٹ نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں، انتخابی کمیٹی کیوں بغیر کسی ادنیٰ غور و فکر کے جس کو چاہتی ہے ٹیم میں شامل کر لیتی ہے، کیا بورڈ کے پاس واقعی مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے ؟

درحقیقت میڈیا کو اِن امور پر بہت پہلے ہی توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ سچن ٹنڈولکر، ظہیر خان اور گوتم گمبھیر جیسے اہم کھلاڑیوں کو جب آئی پی ایل کے بعد دورۂ ویسٹ انڈیز سے الگ رکھا گیا اسی وقت چند سنجیدہ حلقوں میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ان کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں کھیلنے کی اجازت دینا اور دورۂ ویسٹ انڈیز کے وقت آرام دینا کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ میڈیا میں بورڈ کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر بہت کم بحثیں ہوئیں۔

دورۂ انگلستان سے قبل بھی جس طرح ٹیم کی تشکیل دی گئی اس پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بلکہ اگر یاد کیجیے تو اس وقت میڈیا اس لئے زیادہ بے چین و بے قرار تھا کہ سچن ٹنڈولکر اس سیریزمیں اپنی سنچریوں کی سنچری کرنے والے تھے۔لیکن افسوس کہ 8 اننگزمیں وہ محض ایک دفعہ اس کارنامہ کو انجام دینے کے قریب نظر آئے اور 91 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ اس بدترین شکست کے بعد بھی کہیں کہیں یہ بحث بھی زیر غور تھی کہ اب سچن کی سنچریوں کی سنچری کب اور کیسے مکمل ہوگی۔

کچھ لوگوں کو اس ذلت آمیز شکست سے زیادہ اس بات کا غم تھاکہ سچن اس عظیم کارنامہ کو انجام دینے سے قاصر رہے۔ حالانکہ یہ غم کا نہیں بلکہ سچن کے چاہنے والوں کے لئے خوشی کا موقع تھا کیونکہ اگر سچن آخری ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کر لیتے اور بھارت کے حصہ میں اسی طرح 4-0 کی شکست نصیب ہوتی تو سچن کی ناکام سنچریوں میں ایک سنچری کا مزید اضافہ ہو جاتا۔ 91 رنز پر آؤٹ ہو جانے کی وجہ سے سچن اپنی ’منحوس سنچریوں‘ کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بچ گئے۔

بہر حال یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ اس شکست کے بعد چہار جانب بورڈ کی نا اہلی اور بد دیانتی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ انگلستان کی سرزمین پر ملی رسوائی کے نتیجہ میں اگر ہم خواب غفلت سے بیدار ہو رہے ہیں تو میرے خیال میں اس رسوائی کوایک سبق کے طور بخوشی قبول کرنا چاہئے ۔اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ جو غلطیاں ماضی میں ہو چکی ہیں ان کا اعادہ نہ ہو۔

یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ٹیسٹ سیریز میں ملی شکست کے لئے ٹیم انڈیا کا قصور کم اور بھارتی بورڈ کا قصور زیادہ تھا۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ یک روزہ میچوں کی سیریز کے لئے ٹیم کے حوصلہ کو پست نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ ٹیسٹ سیریز میں ملے ہزیمت کے داغ کو یک روزہ میچوں کی سیریز میں فتح حاصل کر کے ہی کسی حد تک دھویا جا سکتا ہے۔