اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کو ایک سال مکمل، سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود سے خصوصی گفتگو

3 1,083

ماہ اگست پاکستان کرکٹ کے عروج کا نقطہ آغاز اور زوال کی انتہا دونوں کا حامل ہے۔ پاکستان نے اسی ماہ میں انگلستان کو انگلستان میں پہلی بار شکست دی اور اوول کے میدان میں دنیائے کرکٹ میں اپنی دھماکے دار آمد کا اعلان کیا تو وہیں گزشتہ سال اگست ہی کا مہینہ تھا جب پاکستان کرکٹ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی دلدل میں جا گری۔

پورے قضیے میں سب سے زیادہ خسارے میں جانے والے محمد عامر، سابق چیئرمین خالد محمود کو عامر کی کرکٹ میں واپسی کے امکانات کم نظر آتے ہیں
پورے قضیے میں سب سے زیادہ خسارے میں جانے والے محمد عامر، سابق چیئرمین خالد محمود کو عامر کی کرکٹ میں واپسی کے امکانات کم نظر آتے ہیں

گزشتہ روز اسی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ سال گزشتہ جب پاکستان کرکٹ ٹیم انگلستان کے دورے پر تھی تو لارڈز ٹیسٹ کے دوران برطانیہ کے معروف مصالحہ اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین کھلاڑیوں کپتان سلمان بٹ اور تیز گیند بازوں محمد عامر اور محمد آصف پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے سٹے باز مظہر مجید سے رقوم لے کر لارڈز ٹیسٹ کے دوران اسپاٹ فکسنگ کی اور بھاری رقوم کے حصول کے لیے دونوں باؤلرز نے جان بوجھ کر نو بالز کروائیں۔ اس مقصد کے لیے نیوز آف دی ورلڈ نے خفیہ طور پر ٹیپ کی گئی وڈیو جاری کیں جس میں مظہر مجید بتاتے ہوئے دکھایا گیا کہ آصف اور عامر مخصوص اوور کی مخصوص گیندیں نو بال پھینکیں گے۔

اس رپورٹ نے دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچا دیا اور بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے تینوں کھلاڑیوں کے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر عارضی پابندی عائد کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا۔ تحقیقات کے دوران کھلاڑیوں نے الزامات کی تردید کی تاہم سہ رکنی ٹریبونل نے تینوں کھلاڑیوں کو کم از کم 5 سال کی سزا دے دی۔

اس معاملے میں سب سے زیادہ خسارے میں نوجوان باؤلر محمد عامر رہےجن کی عمر صرف 18 سال تھی اور ان کو 'مستقبل کا وسیم اکرم' قرار دیا جا رہا تھا۔ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین حتیٰ کہ ماہرین تک کو عامر کے کیریئر کے اس افسوسناک اختتام پر دلی صدمہ پہنچا۔

کرک نامہ نے اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود نے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل اور اس کےبعد کھلاڑیوں کو سزائیں ملنے کو کرکٹ بورڈکی نااہلی قرار دیا۔

خالد محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بجائے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے اُسے آئی سی سی کی دسترس میں جانے دیا اور پھر ان تینوں کرکٹرز کو کوئی اخلاقی،مالی یا قانونی مدد فراہم نہیں کی۔ سزا سے پہلے اور جرم ثابت ہونے سے قبل ہی کرکٹرز سے آنکھیں پھیر کر غیروں کو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے کی شہ دی۔

پاکستان کے ان تینوں کھلاڑیوں کی تفتیش بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے خود کی اور یہ پہلا معاملہ تھا کہ آئی سی سی نے اسپاٹ یا میچ فکسنگ کے کسی معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لیا ہو۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ کے ہنسی کرونیے، بھارت کے اظہر الدین، اجے جدیجا اور منوج پربھاکر اور پاکستان کے سلیم ملک اور عطاء الرحمن کا معاملہ متعلقہ ممالک ہی نے نمٹایا۔

سابق چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ بلاشہ یہ اسکینڈ ل پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا اور تین ورلڈ کلاس کھلاڑیوں سے یک لخت محرومی قومی کرکٹ ٹیم کی قوت بھی کمی کا باعث بنی۔ خصوصاً محمد عامر جس پائے کا باؤلر تھا جو پاکستان کو عالمی کپ جتوا سکتاتھا۔

خصوصی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دراصل پی سی بی نے نیوزآف دی ورلڈ کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تینوں کرکٹرز کے خلاف خود کاروائی نہ کرکے سنگین غلطی کی اور جس طرح تینوں کرکٹرز کو جرم ثابت ہونے سے قبل تنہا چھوڑا وہ افسوس ناک تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئی سی سی یا پی سی بی کو وہ تمام ثبوت منظر عام پر لانے چاہیے تھے، جن کی بناء پر کھلاڑیوں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا، ورنہ اس غیر یقینی صورتحال پر وہ یہ رائے رکھنے پر مجبور ہیں کہ یہ اسکینڈ ل پاکستان کرکٹ کے خلاف سازش تھا۔

ایک سوال کے جواب میں خالد محمود نے کہا کہ تینوں کرکٹرز اور بکی مظہر مجید کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ میں جاری تحقیقات اہمیت کی حامل ہیں اور تحقیقات کے بعد سزا و جزا کا فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہوگا کہ آئی سی سی پہلے ہی تینوں کرکٹرز کو قصوروار ٹھہرا کر سزائیں سنا چکی ہے۔

نیوز آف دی ورلڈ کی بندش پر خالد محمود نے کہا کہ ایسے اخبار جس کی رپورٹ پر تمام کارروائی کی گئی اس کی حال ہی میں بلیک میلنگ کی پاداش میں بندش بذات خود اہمیت کی حامل ہے، اور اخبار کی جانب سے اگر کوئی ثبو ت آئی سی سی کو پیش کیے بھی گئے تھے تو اُن کا منظر عام پر لانا اور ضروری ہوگیا ہے۔ سزاؤں کی مدت پوری ہونے کے بعد تینوں کرکٹرز کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے امکانات پر سابق چیئرمین نے کہا کہ محمد عامر ابھی انیس سال کا ہے، تاہم میرے خیال میں اُن کی بھی کرکٹ کے میدانوں میں واپسی مشکل ہوگی۔دیگر دونوں کرکٹرز کا کرکٹ کیریئر ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن عوامل نے پاکستان کرکٹ کے خلاف یہ سازش کی وہ عامر کو کسی صورت دوبارہ نہیں آنے دیں گے۔