نئے قومی کوچ کی تلاش، سب سے اہم غیر ملکی امیدوار ڈیو واٹمور

6 1,060

پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کے نئے کوچ کی تلاش کے لیے جو سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بورڈ کا رحجان بھی ماہرین و شائقین کی طرح غیر ملکی کوچ کی جانب ہی ہے۔ خصوصاً ظہیر عباس اور رمیز راجہ کی شمولیت اس سمت میں واضح اشارہ ہے۔

ڈیو واٹمور، پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے غیر ملکی کوچ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار: ذرائع
ڈیو واٹمور، پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے غیر ملکی کوچ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار: ذرائع

ایشین بریڈمین کہلانے والے سابق بلے باز ظہیر عباس قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ کے لیے خود بھی بڑے امیدوار ہو سکتے تھے کیونکہ عرصے سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ پر سب سے زیادہ اعتراض ہی یہی ہو رہا تھا کہ ہیڈ کوچ سے لے کر اسسٹنٹ کوچ تک سب گیند باز تھے۔ اس لیے قومی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کارکردگی ٹیم کی فتوحات کی راہ میں حائل ہوئی ہے۔ اس لیے عرصۂ دراز سے ماہرین بورڈ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم کو کو ایک بیٹنگ کوچ دیا جائے تاکہ اس کی گرتی ہوئی بلے بازی کو سنبھالا جا سکے اور دوبارہ فتح کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ اس سلسلے میں عارضی طور پر اعجاز احمد کو شامل تو کیا گیا ہے لیکن بہرحال وہ طویل المیعاد آپشن نہیں ہے۔

اب جبکہ وقار یونس کے اچانک استعفے کے بعد صورتحال ایسی پیدا ہو چکی ہے کہ نیا کوچ اب لازماً سامنے آئے گا ہی تو اس میں ایک امر تو بالکل یقینی ہے کہ وہ ایسا کوچ ہوگا جو قومی کرکٹ ٹیم کی گرتی ہوئی بلے بازی کو سنبھال سکے۔ ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ نے کمیٹی میں ظہیر عباس کو شامل کر کے کم از کم اُن کا پتا تو صاف کر دیا ہے۔

دوسری چند باتیں جو ذرائع سے سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہیں کہ کمیٹی کے چیئرمین انتخاب عالم کا جھکاؤ غیر ملکی کوچ کی جانب ہے اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈیو واٹمور سے رابطے میں ہے جو کوچنگ کا اعلیٰ تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی کوچنگ کے دوران مختلف ٹیموں سے زبردست کامیابیاں سمیٹیں جیسا کہ سری لنکا نے 1996ء میں عالمی کپ جیتا اور بنگلہ دیش 2007ء کے عالمی کپ کے سپر 8 مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

ڈیو واٹمور کا نام 2007ء میں اس وقت بھی زیر غور آیا تھا جب پاکستان باب وولمر کی اچانک رحلت کے باعث نئے کوچ کی تلاش میں تھا۔ اس وقت واٹمور کا انٹرویو بھی لیا گیا تھا لیکن بعد ازاں ان کے بجائے نظر انتخاب آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے جیف لاسن پر پڑی۔

تاہم اس مرتبہ غیر ملکی کوچ کی تقرری میں چند بڑے مسائل بھی درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑا و اہم مسئلہ پاکستان میں امن و امان کی ناقص صورتحال ہے جو کسی بھی غیر ملکی کوچ کی یہاں آمد میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ خصوصاً چیئرمین اعجاز بٹ کا غیر پیشہ ورانہ رویہ بھی کسی غیر ملکی کوچ کو آنے سے روک سکتا ہے۔ اعجاز بٹ نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلا کام اس وقت کے غیر ملکی کوچ جیف لاسن کو برخاست کر کے انجام دای تھا۔ اس کے باوجود پاکستان غیر ملکی کوچ کے آپشن پر غور کر رہا ہے اور اس میں سرفہرست نام ڈیو واٹمور ہی کا ہے۔ سابق کوچ جیف لاسن بھی اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کو غیر ملکی کوچ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

دوسری جانب جو ملکی آپشنز زیر غور ہیں ان میں عاقب جاوید اور مدثر نذر کے نام شامل ہیں جبکہ ایک غیر متوقع نام محسن حسن خان بھی ہو سکتا ہے، جو ماضی قریب میں بارہا قومی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ سنبھالنے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔ تاہم ماضی میں ملکی کوچ اور کھلاڑیوں کے درمیان تنازعات کو دیکھتے ہوئے اس مرتبہ کسی مقامی کوچ کی تقرری کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔

غیر ملکی کوچز کا پاکستان کے کھلاڑیوں خصوصاً کپتانوں کے ساتھ بہت اچھا اتفاق رائے رہا ہے جیسا کہ رچرڈ پائی بس اور وسیم اکرم، انضمام الحق اور باب وولمر اور جیف لاسن اور شعیب ملک کے درمیان رہا۔ اس کے مقابلے میں مقامی کوچ کے تنازعات ميں ملوث ہونے کی تازہ مثال وقار یونس اور شاہد آفریدی کے درمیان پیدا ہونے والا تنازع ہے جس کے نتیجے میں شاہد آفریدی کا بین الاقوامی کیریئر تقریباً ختم ہو چکا ہے اور وقار یونس بھی بظاہر طبی وجوہات کی بنیاد پر قومی کرکٹ ٹیم سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ ان تمام معاملات کو ذہن میں رکھ کر کمیٹی اپنے ہدف کی جانب سفر کر رہی ہے۔

کوچ کی تلاش کے لیے قائم کردہ کمیٹی اگلے دو ہفتوں میں معاملات سمیٹ کر اپنی سفارشات بورڈ کے روبرو پیش کر دے گی اور عید الفطر کے بعد اس پر تیزی سے کام کیا جائے گا اور اکتوبر میں سری لنکا کے خلاف 'ہوم سیریز' سے قبل قومی کرکٹ ٹیم کو نیا کوچ دے دیا جائے گا۔