عالمی کپ 2011ء: پاکستان کے کپتان کا تنازع

4 1,060

پاکستانی ٹیم گزشتہ سال سے اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گز رہی ہے۔ سال 2010ء کا آغاز آسٹریلیا کے خلاف بدترین شکست سے ہوا اس کے بعد مسلسل ہارتے ہوئے ٹیم انگلستان پہنچی تو وہاں کی باؤلنگ کے لیے سازگار کنڈیشنز میں امید تھی کہ پاکستان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا اور اس نے کیا بھی۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز برابر کی اور نئے اعتماد کے ساتھ انگلستان کے خلاف میدان میں اتری جہاں دنیائے کرکٹ کا سب سے زبردست تنازع ان کا منتظر تھا۔

عالمی کپ 2011ء میں پاکستانی قائد کون؟

اسپاٹ فکسنگ تنازع کے بعد ٹیم انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز بری طرح ہاری۔ اس کے دو بہترین گیند باز محمد آصف اور محمد عامر پابندیوں کا نشانہ بن گئے اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز برابر کرنے والے کپتان سلمان بٹ بھی ٹیم سے باہر ہو گئے۔ ایک روزہ میں بہتر فائٹ بیک کے باوجود ٹیم سیریز اپنے نام نہ کر پائی۔

اس صورتحال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ویسا ہی فیصلہ کیا جس کے لیے وہ "مشہور" ہے یعنی کہ ٹیم سے عرصہ دراز سے باہر کسی کھلاڑی کو نہ صرف ٹیم میں واپس بلایا جائے بلکہ "کفارے" کے طور پر قیادت بھی اسے سونپی جائے اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو "تھوکے ہوئے کو چاٹنا"۔ وقار یونس اور راشد لطیف کی ٹیم میں واپسی بطور کپتان ہی ہوئی تھی۔

اسی "عظیم الشان روایت" کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ قیادت کا تاج مصباح الحق کے سر پر رکھا گیا۔ مصباح کو قیادت کی ذمہ داری عطا کرنے پر پاکستانی کرکٹ کے کئی حلقوں نے شدید اعتراضات اٹھائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصباح نے ان تمام اعتراضات کا جواب اپنی کارکردگی سے دیا۔ عالمی نمبر دو جنوبی افریقہ کے خلاف 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کا برابر ہونا ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور فارم کا بھرپور عکاس تھا۔ لیکن ایک روزہ میچز کی سیریز میں شاہد آفریدی کی قیادت میں "ڈھاک کے وہی تین پات" کہ ٹیم ہار گئی۔ اس طرح ایک روزہ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کی صلاحیتوں پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔

پھر پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ روانہ ہوئی، یہاں پہلے ٹیسٹ میں شاندار فتح کے بعد پاکستان اگلے میچ میں مصباح الحق ہی کی شاندار بیٹنگ کی بدولت میچ ڈرا کرنے اور چھ سال بعد پہلی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا تو گویا یہ فتح آفریدی کے لیے پیام اجل ثابت ہوئی۔

کچھ ہی روز بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے عالمی کپ 2011ء کے لیے 15 رکنی حتمی دستے کا اعلان کیا تو کرک نامہ کے خدشات کے عین مطابق اس میں کپتان کا نام موجود نہیں تھا۔ یوں پی سی بی نے اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار دی۔ پاکستان اس وقت عالمی کپ کے لیے اعلان کردہ واحد ٹیم ہے جس کے کپتان کے نام ظاہر نہیں کیا گیا۔

بورڈ کی اس عاقبت نااندیشانہ حرکت نے کیا کیا؟ پاکستان پہلے ایک روزہ میچ میں نیوزی لینڈ سے ہار گیا جو بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے خلاف وائٹ واش کا شکار ہو کر آیا تھا۔ نیوزی لینڈ مسلسل 11 میچز میں شکست کھا کر پاکستان کے خلاف میدان میں اترا اور اتنے شاندار انداز میں کھیلا کہ پاکستان کوئی کلب ٹیم معلوم ہوتی تھی۔

بورڈ کے اس فیصلے سے ٹیم دو حصوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، بلکہ اگر نیوزی لینڈکے خلاف پہلے ایک روزہ میچ کی بدترین شکست کو دیکھا جائے تو لگتا ہے ہو چکی ہے۔ درون خانہ سیاست کے نتیجےمیں پاکستان کی عالمی کپ کے لیے مہم کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ بورڈ ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی کپتان کا اعلان بھی کر دیتا تاکہ ٹیم اس بات کو ذہن میں رکھ کر نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتی کہ یہ عالمی کپ کی تیاری ہے اور اس نے اسی کپتان کے ساتھ عالمی کپ بھی کھیلنا ہے۔

کئی سابق کھلاڑیوں نے بورڈ کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے. سابق کپتان انضمام الحق نے کہا ہے کہ بورڈ کی' تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی کے بعد اب عالمی کپ میں ٹیم سے بہت زیادہ توقعات رکھنا فضول ہے۔

کپتان کسے بنایا جائے؟

گو کہ کپتان کی حیثیت سے یونس خان کے اچھے ریکارڈ کے باعث ٹیم میں اچھے قائد وہی ہیں لیکن اگر انتخاب شاہد آفریدی اور مصباح الحق میں سے ہی کسی کا کرنا تھا تو اسے پہلے ہی کر دینا چاہیے تھا۔ اگر نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچز میں ٹیم شکست کھاتی ہے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ شاہد آفریدی قیادت سے محروم ہو جائیں گے۔

اگر ذاتی حیثیت میں مجھ سے پوچھا جائے کہ ان دونوں کھلاڑیوں سے کس کا انتخاب مناسب ہے تو میری نظر انتخاب مصباح الحق پر پڑے گی کیونکہ شاہد آفریدی نہ صرف ماضی قریب میں ناقص قیادت اور فارم کے باعث میچز ہروا چکے ہیں بلکہ ان کا انضباطی ریکارڈ بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ پچ کو خراب کرنے اور بال چبانے جیسی بچکانہ حرکات انہوں نے گزشتہ ایک دو سالوں ہی میں کی ہیں جس نے ان کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے مقابلے میں مصباح الحق نے بطور کپتان بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور جنوبی افریقہ کے خلاف میچز میں انہوں نے جس طرح مشکل صورتحال کو سنبھالا اور نیوزی لینڈ کے خلاف بھی انہوں نے جس طرح ٹیم کو منظم انداز میں چلایا وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ اس لیے اگر انہی دونوں کھلاڑیوں میں سے منتخب کرنا تھا تو اس کا اعلان نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز سے پہلے کر دینا چاہیے تھا، بلاوجہ کی تاخیر ٹیم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔