یوسف اسے سمجھیں گے جو زنداں میں رہے گا

5 1,071

تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

دورۂ انگلستان پر جانے والی بھارتی ٹیم کے اس قدر عبرتناک حشر کی توقع یقیناً کسی نے نہیں کی ہوگی۔عالمی چیمپئنز انگلستان کی سرزمین پر پہنچ کراب اتنے لاچار و بے بس ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی عزت و ناموس کے نام پر ایک جیت بھی ملنی مشکل نظر آ رہی ہے۔ٹیسٹ سیریز سے ملے ہزیمت کے زخم ایک روزہ میچوں میں مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔اور اس ٹیم کی حالت اس شکست خوردہ فوج جیسی ہو گئی ہے جس کا سالار اس قدر بے بس ہوگیا ہو کہ اپنی منتشر اور شکستہ فوج کو یکجا کر کے میدان جنگ سے زندہ صحیح سالم نکالنے سے بھی قاصر ہو۔

یکے بعد دیگرے زخمی ہو کر لوٹنے والے کھلاڑی گویا محاذ کے شکست خوردہ سپاہی ہیں
یکے بعد دیگرے زخمی ہو کر لوٹنے والے کھلاڑی گویا محاذ کے شکست خوردہ سپاہی ہیں

ٹیم انڈیا کے ڈریسنگ روم کا نقشہ کسی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ جیسا ہو گیا ہے جہاں ہر آن جسمانی اور ذہنی طور پر زخمی کھلاڑیوں کو کبھی ڈاکٹر کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو کبھی ماہر نفسیات کی۔ اس کے باوجود یکے بعد دیگرے اس طرح کھلاڑی زخمی ہو کر وطن واپس لوٹ رہے ہیں گویا حقیقت میں وہ کسی میدان جنگ کے پسپا سپاہی ہوں۔یوراج سنگھ، گوتم گمبھیر، ہربھجن سنگھ، ورلندر سہواگ، سچن ٹنڈولکر کے ناموں کے ساتھ ہی یہ فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں ملی شکست کے بعد شائقین کو یہ امید تھی کہ عالمی چیمپئن ایک روزہ میچوں کے محاذ پر رسوا نہیں ہوں گے۔ لیکن چند مہینے قبل جو ٹیم آسٹریلیائی بالا دستی اور اس کے غرور کا خاتمہ کر کے پورے عالم میں سرخرو ہوئی تھی، وہ آج انگلستان کے خلاف محض ایک جیت کو ترستی دکھائی دے رہی ہے۔ کل تک جس ٹیم کے کپتان کا ایک ناقص فیصلہ بھی ٹیم کے حق میں ہو جایا کرتا تھا، آج اُس کا ایک عمدہ سے عمدہ قدم بھی ٹیم کو ذلت سے بچانے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ اس لئے مہندر سنگھ دھونی کے ناقدین ان کا متبادل تلاش کرنے میں لگ گئے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ ٹیم انڈیا کی یہ حالت پہلی دفعہ ہوئی ہے۔1983ء کا عالمی کپ جیتنے کے بعد بھارتی ٹیم کا حشر کچھ اسی طرح ہوا تھا۔ ویسٹ انڈیز نے بھارتی سرزمین پر 1983-84ء میں ٹیم انڈیا کا ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں سیریزوں میں صفایا کر ڈالا تھا۔ 6 ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھارت مشکل سے محض 3 ٹیسٹ ڈرا کر پایا تھا۔1988-89ء میں دورۂ ویسٹ انڈیز پر جانے والی بھارتی ٹیم بھی 4 میچوں کی ٹیسٹ اور 5 میچوں کی ون ڈے سیریز میں بغیر کوئی میچ جیتے گھر لوٹی تھی۔ 3 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقہ نے1996-97ء میں ٹیم انڈیا کو0-2 سے شکست سے دوچار کیا تھا وہیں سہ ملکی سیریز میں بھارتی ٹیم کو بمشکل ایک جیت نصیب ہوئی تھی۔ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 1999-00ء میں آسٹریلیا میں 0-3 سے اور 2002-03ء میں نیوزی لینڈ میں 0-2 سے ملنے والی شکست بھی بھارتی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین شکستیں شمار کی جاتی ہے۔

ماضی کی طرح آج بھی اس رسوائی کا ذمہ دار کھلاڑیوں اور کپتان کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں وہ ٹی وی کمنٹیٹر پیش پیش ہیں جن کا بی سی سی آئی کے ساتھ معاہدہ ہے۔ لیکن اُنہیں اس بات کی پوری امید ہے کہ انگلستان میں ملی شکست کی تلافی آئندہ ہونے والی چیمپئنز لیگ میں ہو جائے گی۔ جب ان کے پسندیدہ کھلاڑی ٹو ٹوئنٹی فارمیٹ پر مبنی اِس لیگ میں اپنے جلوے دکھائیں گے۔ ہر بھجن سنگھ کی چوٹ رفتہ رفتہ ٹھیک ہو رہی ہے اور امید قوی ہے کہ ممبئی انڈینز کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے تک وہ بالکل صحت یاب ہو جائیں گے۔ سچن ٹنڈولکر کی خبر اِس قدر امید افزا نہیں ہے ان کے لئے ہم محض دعائیں کر سکتے ہیں کہ وہ چیمپئنز لیگ میں اپنی ٹیم کی قیادت کے لئے پورے طور پر تیار ہو جائیں۔ا دھر دھونی کے تعلق سے مسلسل خبریں مل رہی ہیں کہ ان کے ہاتھوں اور انگلیوں میں تکلیف ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کے وکٹوں کے پیچھے ان سے بیشمار غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ وہ چاہ کر بھی اپنی غلطیوں کو سدھارنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی ٹیم کی اس حالت سے وہ کس قدر پریشان ہیں۔ایک قلیل عرصے میں جس شخص کی قیادت میں ٹیم انڈیا نے کئی تاریخیں رقم کیں وہ اپنی ٹیم سے مایوس ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پے در پے ملنے والی شکستیں اورٹیم سے بہترین کھلاڑیوں کے اخراج نے مہندر سنگھ دھونی کو توڑ ڈالا ہے۔ جس تقدیر پر دنیا ناز کرتی تھی وہ خود اپنی حالت زار پر انگشت بدنداں نظر آ رہی ہے۔

8 ماہ سے مسلسل کرکٹ کھیلنے والے دھونی کو آرام کی ضرورت ہے لیکن کیا بورڈ اپنے مفادات کو قربان کر سکتا ہے (تصویر: Getty Images)
8 ماہ سے مسلسل کرکٹ کھیلنے والے دھونی کو آرام کی ضرورت ہے لیکن کیا بورڈ اپنے مفادات کو قربان کر سکتا ہے (تصویر: Getty Images)

دھونی گزشتہ آٹھ مہینوں سے مسلسل کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں۔ ایسی حالت میں ان سے غلطیاں سرزد ہونا فطری امر ہے۔اس کے باوجود یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ انہیں آرام کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئندہ پیش آنے والے اہم چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن بورڈ کو اس بات کا شعور نہیں اور اگر ہے بھی تو پیسوں کی لالچ نے اسے دیوانہ بنا ڈالا ہے۔ وہ اپنی نظروں کے سامنے ٹیم کی صلاحیتوں کا جنازہ نکلتے ہوئے دیکھتا رہے گا۔

دھونی کو آرام کیوں کر دیا جا سکتا ہے؟چیمپئنز لیگ میں بورڈ کے سیکرٹری اپنے مفاد کو کیسے قربان کر سکتے ہیں؟ انہیں توبھارتی ٹیم سے زیادہ اپنی آئی پی ایل ٹیم کی فکر ستا رہی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ا نگلستان کی سرزمین سے ٹیم انڈیا کے حصہ میں جو رسوائی آئی ہے وہ ایک زمانہ تک فراموش نہیں کی جا سکے گی۔ اور زمانہ اس کا قصوروار وقت کے کپتان کو ہی قرار دے گا۔ اگر دورۂ انگلستان کے پس منظر پر غور کئے بغیر ٹیم کے قائد پر انگلیاں اٹھنے لگیں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔لیکن روایت یہی رہی ہے۔اگر دنیا بھارتی کرکٹ کے اس تاریک دور کو بھی مہندر سنگھ دھونی سے وابستہ کرے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔