وسیم اور وقار، بلے بازوں کے لیے دہشت کا سامان؛ خصوصی تحریر

4 1,038

گزشتہ دہائی (2001ء سے 2010ء) میں عالمی کرکٹ نے جو سب سے بڑا نقصان اٹھایا ہوگا، وہ بلاشبہ "Two Ws" یعنی وسیم اکرم اور وقار یونس سے محرومی ہے۔ ایک اینڈ سے بائیں اور دوسرے اینڈ سے دائیں ہاتھ سے دنیا کے تیز اور عمدہ ترین گیند بازوں کا سامنا کرتے ہوئے بہترین بلے بازوں کا بھی پتہ پانی ہو جاتا تھا اوربلاشبہ تیز گیند بازی کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے جس جوڑی کا ذکر نمایاں ہوگا ان میں پاکستان کے یل دونوں مایہ ناز فرزند شامل ہوں گے۔ اب ہوا میں تیرتے ہوئے یارکرز اور اڑتی ہوئی وکٹوں کو دیکھنے کے لیے نجانے شائقین کرکٹ کو کتنہ عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔

90ء کی دہائی میں بلے بازوں کی دہشت کی علامت وسیم اور وقار (تصویر: Getty Images)
90ء کی دہائی میں بلے بازوں کی دہشت کی علامت وسیم اور وقار (تصویر: Getty Images)

وسیم اکرم اور وقار یونس کی زندگی میں 15 اکتوبر کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے کیونکہ 21 سال قبل اسی روز کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان دونوں گیند بازوں نے جس تباہ کن گیند بازی کا مظاہرہ کیا، وہ دنیائے کرکٹ میں اک نئے رحجان اور تیز گیند بازوں کی بادشاہت کے نئے دور کا آغاز کا اعلان تھا۔

وسیم اکرم اور وقار یونس نے نیشنل اسٹیڈیم میں اپنی برق رفتار یارکرز اور ہوا میں تیرتی گیندوں کے ذریعے نیوزی لینڈ کے بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچایا۔ انہوں نے مشترکہ طور پر میچ میں 15 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان کی فتح میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان 15 میں سے 11 وکٹیں انہوں نے ایل بی ڈبلیو یا بولڈ کی صورت میں حاصل کیں۔ میچ میں وسیم اکرم کو 8جبکہ وقار یونس 7 وکٹیں ملیں۔

پاکستان کی جانب سے گیند بازی کے علاوہ بلے بازی میں بھی بہت عمدہ کارکردگی دکھائی گئی خصوصاً شعیب محمد کی ڈبل سنچری ۔ جن کے ناقابل شکست 203 رنز کی بدولت پاکستان نے 433 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کیا جو نیوزی لینڈ دو اننگز میں بھی حاصل نہیں کر سکا جو دونوں اننگز میں 200 رنز پر بھی نہیں پہنچ سکا۔

تین ٹیسٹ مقابلوں کی مذکورہ سیریز میں دونوں نے مجموعی طور پر 39 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان کے کلین سویپ میں کلیدی کردار ادا کیا۔

حریفوں کے ایڑی چوٹی کے زور اور بال ٹمپرنگ کے الزامات کی ان دونوں کے سامنے ایک نہ چلی اور محض 1990ء سے 1994ء تک اپنے ابتدائی چار سالوں میں 24 ٹیسٹ مقابلوں میں 18 مرتبہ 10 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں، جن میں 1992ء کا یادگار دورۂ انگلستان بھی شامل تھا۔ 90ء کی دہائی کی تمام پاکستانی فتوحات میں دونوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔

دونوں گیند بازوں کی ریٹائرمنٹ میں کرکٹ میں اک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے، جسے اب تک کوئی گیند باز بھرتا ہوا نہیں دکھائی دے رہا۔

وسیم اور وقار کے کیریئر کے یادگار لمحات تقریباً ایک گھنٹہ طویل اس وڈیو میں محفوظ ہیں، ملاحظہ کیجیے (بشکریہrobelinda)