اسپاٹ فکسنگ مقدمہ؛ سلمان بٹ وکیل استغاثہ کے ہاتھوں کلین بولڈ!

1 1,025

وکیل استغاثہ نے تین روز کی جرح مکمل کر کے مقدمے کے اہم فریق سلمان بٹ کو کلین بولڈ کر دیا ہے، اور عدالت کو بتایا کہ سابق کپتان ہی پاکستانی ٹیم میں اسپاٹ فکسنگ کے معاملات کو کنٹرول کرتے تھے اور خصوصاً نوجوان و باصلاحیت کھلاڑی محمد عامر ان کی گرفت میں تھے۔

لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں بد عنوانی و دھوکہ دہی کے مقدمے کی سماعت کے گیارہویں روز ایک مرتبہ پھر گرما گرم ماحول دیکھنے میں آیا، خصوصاً مسلسل دوسرے روز وکیل استغاثہ آفتاب جعفر جی اور سلمان بٹ کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا اور کئی مواقع پر سلمان بٹ غصے سے بھر آئے اور وکیل پر طنز کے تیر تک برسائے۔

سلمان بٹ جرح کے دوران کئی مرتبہ طیش میں آئے، اور ایک مرتبہ پنجابی زبان پر بھی اُتر آئے (تصویر: Getty Images)
سلمان بٹ جرح کے دوران کئی مرتبہ طیش میں آئے، اور ایک مرتبہ پنجابی زبان پر بھی اُتر آئے (تصویر: Getty Images)

مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ متنازع لارڈز ٹیسٹ سے قبل اور اُس کے دوران مظہر مجید اور سلمان بٹ کے درمیان کم از کم 20 فون کالز اور موبائل پیغامات کا تبادلہ ہوا جس میں چند منہ اندھیرے کیے گئے اور ان میں ایک پیغام ایسا بھی تھا جس میں مظہر مجید نے سلمان بٹ کو اطلاع دی ہے کہ اسے مظہر محمود (معاملے کو آشکار کرنے والے اخبار نیوز آف دی ورلڈ کے خفیہ رپورٹر)کی جانب سے 50 پاؤنڈز کے نوٹوں کا بھرا ہوا سوٹ کیس مل گیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سلمان بٹ اِس معاملے میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ سلمان نے اس الزام کی فوری طورپر تردید کی۔

سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں جان بوجھ کے نو بالز کروانے کے معاملے کا رتی برابر کا علم نہیں تھا، اور اس تمام قضیے کے پیچھے مظہر مجید اور محمد عامر کے براہ راست معاملات تھے، میرا درمیان میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی اصرار کیا کہ ہوٹل سے برآمد ہونے والی رقم اُن کی ذاتی تھی۔

13 گھنٹے گواہوں کے کٹہرے میں گزارنے والے سلمان بٹ استغاثہ کے بھرپور دلائل کے سامنے کئی مواقع پر جھلا اٹھے خصوصاً ایک مرتبہ تو وہ وکیل استغاثہ سے یوں گویا ہوئے کہ "کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے وہ سب آپ کو معلوم ہے؟ حتیٰ کہ ہر کال بھی؟ ۔۔ حیرت کی بات ہے۔" ایک موقع پر سلمان بٹ اتنے تنگ آگئے کہ وکیل استغاثہ کو پنجابی میں کہہ بیٹھے "تم صرف پھنسانے کی کوشش کر رہے ہو۔"

قبل ازیں سلمان بٹ نے عدالت سے کہا کہ اوول ٹیسٹ میں انگلستان کے خلاف پاکستانی بیٹنگ کی پیش کی گئی ریکارڈنگ ثبوت ہے کہ وہ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے مبینہ طور فکس کردہ اوور کو میڈن نہیں کھیلا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے بدعنوان ایجنٹ کی کھیل کو خراب کرنے کی درخواست کو منہ نہیں لگایا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مظہر مجید نے انہیں دو میڈن اوور کھیلنے کا کہا تھا، جب پاکستان گزشتہ سال اوول کے میدان میں تاریخی فتح کے قریب تھا۔انہوں نے کہا کہ مظہر مجید مستقل مزاجی بلکہ تکلیف دہ حد تک ڈھٹائی کے اس رویے کو اختیار کر کے کالز اور ٹیکسٹ بھیجتا تھا لیکن میں نے کبھی بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ مذکورہ اوور میں سلمان بٹ نے دوسری گیند پر دو رنز اور تیسری پر ایک رن بنایا تھا۔ آفتاب جعفر جی نے اس وڈیو کو دوبارہ چلانے سے انکار کر دیا کیونکہ مذکورہ وڈیو پہلے ہی عدالت کے سامنے دو مرتبہ چلائی جا چکی تھی۔

سلمان بٹ اور مظہر مجید کے درمیان کالز اور ٹیکسٹ پیغامات کی بھرمار کے حوالے سے سوال پر سابق قائد کا کہنا تھا کہ دراصل اوول ٹیسٹ کے موقع پر کھیلنے کے سامان کا بڑا مسئلہ تھا، اور میں اوول میں نئے پاجامے کے ساتھ کھیلنا چاہ رہا تھا، جس کی خریداری کے لیے مظہر سے رابطہ کیا گیا۔ اس پر وکیل استغاثہ نے سلمان کا کافی مذاق بھی اڑایا۔

اپنے ساتھیوں کے حوالے سے گفتگو کے دوران سلمان بٹ سے پوچھا گیا کہ آپ کو معلوم ہے محمد عامر کا تعلق کہاں سے ہے؟ جس پر انہوں نے تپا ہوا جواب دیا کہ میں پاکستان ٹیم کا کپتان تھا، شناختی کارڈ بنانے والا نہیں۔ محمد آصف کے حوالے سے ایک سوال پر بھی بٹ نے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں موجود ہیں، ان سے بلا کر پوچھ لیجیے۔

استغاثہ نے میچ کے دوران محمد عامرکی جانب سے پھینکی گئی نو بال کے بعد سلمان بٹ کی جانب سے مٹی لا کر پچ پر ڈالنے کو اداکاری قرار دیا جس پر سلمان بٹ پھٹ پڑے کہ "میں مٹی اپنے ہوٹل سے نہیں لایا تھا، وہ مرطوب موسم کے دوران ہمہ وقت میدان میں موجود رہتی ہے۔"

وکیل استغاثہ آفتاب جعفرجی نے عدالت کو اُس پیغام کے بارے میں بھی بتایا جو مظہر مجید نے خفیہ صحافی مظہر محمود کو کیا تھا، جس میں پہلے سے طے شدہ تیسری نو بال کے بارے میں کچھ بات کی گئی تھی۔ کیونکہ عامر پہلی اننگز میں بہت عمدہ باؤلنگ کر رہے تھے اور 47 پر انگلستان کے 5 کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے اس لیے مظہر مجید نے ٹیکسٹ پیغام میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ کپتان (یعنی سلمان بٹ) عامر کو نو بال پھینکنے کا نہ کہے کیونکہ وہ بھرپور فارم میں نظر آ رہا ہے۔ وکیل استغاثہ نے اپنے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ "مظہر مجید نے اس پیغام میں آپ کا ذکر کیا ہے بٹ صاحب! کیونکہ آپ کھلاڑیوں کو کنٹرول کرتے تھے خصوصاً نوجوان اور باصلاحیت و متاثر کن ترین محمد عامر کو اور آپ پکڑے گئے ہیں!"

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ سلمان بٹ اور مظہر مجید کے درمیان 20 ، محمد عامر اور مظہر مجید کے درمیان 25 اور سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے درمیان 4 کالز یا پیغامات کا تبادلہ ہوا جن میں سے چند کالز اور پیغامات منہ اندھیرے کیے گئے تھے۔

سماعت کے اختتام سے قبل وکیل صفائی علی باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ سلمان بٹ کے فون سے جو کالز ریکارڈ کی گئی تھیں ان میں اپنےاہل خانہ، دوستوں اور عمران خان سمیت سابق کھلاڑیوں کو کی گئی تھیں، جن سے سلمان بٹ سے مشورے کے لیے گفتگو کی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے تین کھلاڑی گزشتہ سال اگست میں انگلستان کے خلاف لارڈز ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کے نو بالز کروانے کے الزامات کے تحت برطانیہ میں دھوکہ دہی و بدعنوانی کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔ اس مقدمے میں تیز گیند باز محمد عامر پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں جبکہ اُس وقت کے کپتان سلمان بٹ اور دوسرے گیند باز محمد آصف اب تک خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

مقدمے کی سماعت ابھی جاری ہے۔