اسپاٹ فکسنگ مقدمہ؛ محمد آصف کے خلاف جرح مکمل

1 1,005

پاکستان کے زیر عتاب گیند باز محمد آصف نے کہاہے کہ اگر کوئی میچ یا اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ ہے تو وہ سلمان بٹ ہی جانتے ہیں، مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے البتہ کپتان کی شمولیت کے بغیر فکسنگ ناممکن ہے۔

وہ تین پاکستانی کرکٹرز کے خلاف دھوکہ دہی و بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت کے تیرہویں روز لندن کی ساؤتھ وارک کراؤن کورٹ میں وکیل استغاثہ کی جرح کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دوران آصف نے بھی سلمان بٹ کی طرح یہ کہا کہ محمد عامر فکسنگ میں ملوث تھا۔ محمد عامر پہلے ہی اعتراف جرم کر چکے ہیں۔

کپتان کی شمولیت کے بغیر فکسنگ ناممکن ہے: محمد آصف (Getty Images)
کپتان کی شمولیت کے بغیر فکسنگ ناممکن ہے: محمد آصف (Getty Images)

وکیل استغاثہ آفتاب جعفر جی نے 28 سالہ محمد آصف سے لارڈز ٹیسٹ اور اس میں مبینہ طور پر جان بوجھ کر کی گئی نو بالز کے بارے میں سوالات کیے۔ محمد آصف کا کہنا تھا کہ بغیر کپتان کے کوئی چیز فکس نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہی گیند بازوں کو باؤلنگ کرانے کے لیے لاتا ہے، تاہم مجھے اِس منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا اور نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ سلمان بٹ اس میں ملوث ہیں۔

محمد آصف کا کہنا تھا کہ یہ اسکینڈل میرا کیریئر اور میری زندگی تباہ کرنے کا ذمہ دار ہے، جس پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ اپنی زندگی تباہ کرنے کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ آصف نے کہا کہ سلمان اور عامر کی مظہر سے گفتگو کی ریکارڈنگ یا متن موجود ہے جبکہ ان کی کسی گفتگو کا کوئی ریکارڈ کیوں موجود نہیں۔ تمام تر آلات اور پیسے ہونے کے باوجود خفیہ صحافی ایسا کرنے میں کیوں ناکام رہا۔

جس پر وکیل استغاثہ نے کہا کہ "مظہر مجید نے لارڈز ٹیسٹ سے قبل رات کو ایک لاکھ 40 ہزار پاؤنڈز کی رقم کے ساتھ ہوٹل کمرہ چھوڑنے کے محض 59 سیکنڈز بعد اُنہیں کال کیوں کی؟" اور طنز کرتے ہوئے کہا کہ "کسی اسپانسرشپ معاہدے کے لیے یا کسی کھانے کی دعوت کے لیے؟" جس پر آصف نے تنک کر جواب دیا کہ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے مجھے میچ فکس کرنے کے لیے کال کیا تھا؟" جس پر آفتاب جعفر جی نے کہاکہ "وہ تو پہلے سے فکس تھا، وہ بس آپ کو آگاہ کرنا چاہتا تھا۔" انہوں نے آصف کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ "وہ شخص، جس کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کا ایجنٹ بھی نہیں تھا، اور مئی 2010ء کے بعد سے جس سے آپ کی محض تین ملاقاتیں ہوئی تھیں، وہ آپ کو کال کیوں کر رہا تھا؟" جس پر آصف نے جواب دیا کہ "اگر ہم فکسنگ کے بارے میں بات کر رہے تھے تو یہ کال صرف 16 سیکنڈز طویل کیوں تھی؟ اگر ہم کسی بڑے معاملے پر بات کر رہے ہوتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسے محض 16 سیکنڈوں میں طے کیا جا سکتا ہے۔" محمد آصف نے ایک مرتبہ وکیل استغاثہ سے سوال بھی پوچھا کہ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ کیا مظہر مجید انتہائی سچا آدمی ہے؟ جس کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہا جائے؟ انہوں نے کئی مرتبہ انکار کیا کہ وہ اسپاٹ فکسنگ معاملے کا حصہ نہیں تھے اور عدالت کو بتایا کہ مظہر مجید کے پاس دو فون ہیں ایک خفیہ اور ایک عام۔

اس موقع پر آفتاب جعفر جی نے عدالت کو یہ بتایا کہ لارڈز ٹیسٹ کی پہلی رات 11 سے ساڑھے 11 بجے کے درمیان مظہر مجید اور آصف کے درمیان 6 کالز ہوئیں۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ مظہر مجید کہتا ہے کہ تین لڑکے فکسنگ میں بہت تیز ہیں، کامران اکمل، سلمان بٹ اور محمد آصف۔ جس پرآصف نے کہا کہ "میرا فکسنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" اس موقع پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ محمد آصف نے اپنے وکیل کے ذریعے برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی تھی جبکہ محمد آصف نے اس سے کُلی طور پر انکار کیا۔

اس طرح وکیل استغاثہ نے اپنی جرح مکمل کر لی۔ مقدمے کے ملزمان میں سے محمد عامر پہلی سماعت سے قبل ہی اپنے جرم کا اعتراف کر چکے ہیں جبکہ سلمان بٹ کے خلاف جرح بھی مکمل ہو چکی ہے۔ یوں اب دو ایام کی تعطیل کے بعد پیر کو جب سماعت شروع ہوگی تو دو دن دونوں ملزمان کے وکلاء اپنے اپنے دلائل پیش کریں گے اور امکان ہے کہ مقدمے کا فیصلہ بدھ کو آ جائے گا یا پھر کم از کم اُس روز فیصلہ محفوظ کر لیا جائے گا۔