پاکستانی قوم اور شائقین کرکٹ کا سر شرم سے جھک گیا

7 1,044

پاکستان کے کھلاڑیوں نے پوری قوم کا سر ایک مرتبہ پھر شرم سے جھکا دیا۔ برطانیہ کی عدالت میں تینوں کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر جان بوجھ کر نو بالز پھینکنے اور اس کے بدلے میں سٹے بازوں سے بھاری رقوم وصول کرنے کے الزامات سچ ثابت ہوئے اور عدالت نے شواہد کی بنیاد پر انہیں مجرم قرار دے دیا ہے۔ ان کھلاڑیوں نے سٹے باز مظہر مجید کے کہنے پر گزشتہ سال اگست میں دورۂ انگلستان کے دوران لارڈز ٹیسٹ میں مختلف مواقع پر تین نو بالز پھینکیں اور یوں پاکستان اور بحیثیت مجموعی کرکٹ، جسے شریفوں کا کھیل کہا جاتا ہے، کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ ان نو بالز کے عوض کھلاڑیوں کو پیسہ تو بہت ملا لیکن انہوں نے اپنی غیرت، عزت و شہرت داؤ پر لگانے کے ساتھ پاکستانی قوم اور شائقین کرکٹ کو ناقابل فراموش اذیت میں مبتلاء کردیا۔

پاکستانی کھلاڑی اپنے ملک کی جگ ہنسائی اور شریفوں کا کھیل کہلانے والے کرکٹ کی بدنامی کا باعث بنے
پاکستانی کھلاڑی اپنے ملک کی جگ ہنسائی اور اور شریفوں کا کھیل کہلانے والے کرکٹ کی بدنامی کا باعث بنے

سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں نے یہ حرکت ایک ایسے وقت میں کی جب پاکستان میں لاکھوں افراد تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کر رہے تھے۔ دنیا بھر میں سیلاب زدگان کے لیے ہمدردی کا عنصر پایا جاتا تھا اور بڑی مقدار میں امدادی سامان پاکستان میں ان مستحق افراد تک پہنچ رہا تھا۔ دنیا کے ہر کونے سے امدادی کارکنان پاکستان کے عوام کی مدد کے لیے جوق در جوق یہاں آ رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اس عمل میں شرکت کر رہا تھا تو انگلستان کے کھلاڑی کسی سے پیچھے کیوں رہتے؟ انہوں نے اوول میں کھیلے گئے ٹیسٹ کے دوران اپنی میچ فیس کا ایک حصہ پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دیا جبکہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے یہ اعلان تک کیا کہ وہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے متحدہ عرب امارات میں نمائشی میچ کھیلنے کو بھی تیار ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے مقابلوں میں شائقین کی بڑی تعداد کے میدان میں آنے کی وجہ سے انگلستان نے پاکستان کو پیشکش بھی کی کہ وہ انگلستان کو اپنا دوسرا میدان منتخب کرے کیونکہ مارچ 2009ء میں پاکستان میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد سے پاکستان میں کرکٹ کا خاتمہ ہو گیا تھا اور پاکستان اپنے مقابلے کسی اچھے مقام پر کھیلنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے انگلستان ایک بہت اچھا آپشن تھا کیونکہ پاکستان کی اصل قوت تیز گیند بازی تھی اور انگلش کنڈیشنز پاکستان کے لیے بہت زیادہ موافق ہوتیں۔ آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان دو ٹیسٹ میچ کی سیریز کی میزبانی بھی انگلستان نے کی جب پاکستان نے 15 سال کے طویل وقفے کے بعد اپنی گیند بازی کی ہی قوت کی بدولت آسٹریلیا کو کسی ٹیسٹ میں شکست دی اور سیریز برابر کی۔

اس تمام صورتحال میں ہمارے ان تین کھلاڑیوں نے کیا کیا؟ انہوں نے ان لوگوں کو بے وقوف سمجھا جو خلوص دل کے ساتھ نہ صرف میزبانی کرنے کے خواہاں تھے بلکہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے اپنی بساط کے مطابق میدان عمل میں تھے۔ شائقین کرکٹ کیا چاہتے تھے؟ صرف ایک اچھی کرکٹ دیکھنا۔ اور ہمارے ان تین کھلاڑیوں نے انہیں کیا دیا؟ پہلے سے طے شدہ مقابلے اور اس کے بدلے میں سٹے بازوں سے رقم کی وصولی کر کے کھیل اور اپنے چہروں پر کالک۔

دوسری جانب ان کھلاڑیوں کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کی پرخلوص محبت کا یہ صلہ دیں؟ پاکستان کے کتنے بچے، نوجوان اور بوڑھے ہیں جو محمد عامر اور محمد آصف کو اپنا ہیرو اور رول ماڈل سمجھتے ہوئے انہیں پاکستان کے لیے قابل فخر کھلاڑی سمجھتے تھے۔ میرا چار سال کا بیٹا جسے شاید اپنے تمام ہم جماعتوں کے نام بھی یاد نہ ہوں گے لیکن اسے دو نام ضرور یاد ہیں ایک شاہد آفریدی اور دوسرا محمد عامر۔ وہ جب بیٹنگ کرتا ہے تو وہ شاہد آفریدی بن جاتا ہے اور جب باؤلنگ کرانے کی کوشش کرتا ہے تو کہتا ہے میں محمد عامر ہوں۔ کیا وہ جب بڑا ہوگا تو اسے یہ بتایا جائے گا کہ بیٹا! آپ کا بچپن کا پسندیدہ باؤلر ایک دھوکے باز آدمی تھا؟ جس نے چند ٹکوں کے لیے اپنا ضمیر اور اپنے ملک کی عزت بیچ دی تھی؟

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کھلاڑیوں کو عبرت کی مثال بنا دیاجائے۔ پاکستان کی عدلیہ، جو از خود نوٹس لینے میں شہرت رکھتی ہے، اس معاملے پر بھی غور کرے اور تمام ملوث کھلاڑیوں اور بورڈ منتظمین کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں بدعنوانی میں لاثانی حکومتی عہدیداران بورڈ کے معاملات کے ذمہ دار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بحیثیت ادارہ ہمارا کرکٹ بورڈ بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی عین ممکنات میں سے ہے کہ ان کھلاڑیوں کو بورڈ کی جانب سے ایسی حرکات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہو۔ اسی لیے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی پاکستان ٹاسک ٹیم کی جانب سے مرتبہ کردہ حالیہ سفارشات پر عملدرآمد کیا جانا بہت ضروری ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے میدانوں کی طرح گلی، کوچوں میں ہونے والی کرکٹ بھی ختم ہوجائے اور کوئی دوسرا ملک بھی پاکستان کو اپنے میدان پر کھیلنے پر راضی نہیں ہوگا۔