عدالت میں پیش کردہ محمد عامر کے جذباتی بیان کا ترجمہ

8 1,068

پاکستان کے زیر عتاب گیند باز محمد عامر کا اسپاٹ فکسنگ کے مقدمے کے 21 ویں روز عدالت میں ایک جذباتی و ندامت سے بھرا بیان پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ بیان ان کے وکیل ہنری بلیکس لینڈ نے عدالت کو سنایا اور اس دوران محمد عامر کٹہرے میں کھڑے روتے رہے۔ ان کے بیان کے متن کا ترجمہ ہم یہاں کرک نامہ کے قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں:

"سب سے پہلے تو میں پاکستان اور ان تمام لوگوں سے معذرت خواہ ہوں جن کے لیے کرکٹ اہمیت رکھتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے کھیل کو کتنا نقصان پہنچایا ہے، ایسا کھیل جسے میں دنیا میں کسی بھی چیز سے زیادہ چاہتا ہوں۔

میری زندگی کا بہترین دن وہ تھا جب مجھے پاکستان کی جانب سے کھیلنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ مجھے ایک روز قبل میری شرٹ ملی جس کا نمبر 90 تھا، میں نے وہ پہنی اور آئینے کے سامنے کافی دیر تک کھڑا رہا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں پاکستان کی جانب سے کھیل رہا تھا۔ اگر ممکن ہوتا تو میں وہی شرٹ پہن کر سوتا لیکن میں اسے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ لمحہ ایک خواب تھا۔ جب میں 13 سال کا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ میں اچھا کھیل سکتا ہوں تو میرا واحد خواب پاکستان کے لیے کرکٹ کھیلنا تھا۔

میں نے کئی ماہ قبل فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے یہ قبول کرنا چاہیے کہ میں نے گزشتہ موسم گرما میں لارڈز ٹیسٹ کے دورن دو نو بالز جان بوجھ کر کی تھیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ سب بہت تاخیر سے کیا اور میں پہلے یہ اعتراف جرم نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نے خود میں ابتداء ہی میں ایسا کرنے کا حوصلہ نہیں پایا تھا اور یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس طرح معاملات مزید گمبھیر ہو گئے۔

گزشتہ سال میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز سال رہا لیکن یہی میرا بدترین سال بھی تھا۔ میں نے خود کو ایسی صورتحال میں پایا جسے میں سمجھ نہیں سکا۔ میں ذہنی الجھن کا شکار ہو گیا تھا اور غلط کام کر بیٹھا۔ میں کسی کو بھی الزام نہیں دینا چاہتا۔ مجھے پیسہ نہیں چاہیے تھا، میں نے پیسوں کے لیے نو بالز نہیں پھینکی تھیں۔ میں جال میں پھنس گیا اور آخر میں یہ سب میری اپنی بے وقوفی کی وجہ سے ہوا۔

میرا خواب دنیا کا سب سے بہترین کھلاڑی بننے کا تھا۔ میں ایک کھلاڑی ہوں اور وہ دو نو بالز میری کرکٹ کی زندگی کے واحد لمحات تھے جب میں نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے کارکردگی نہیں دکھائی۔ اور یہ ایسے لمحات تھے جس کا حصہ بننے پر مجھے کوئی خوشی نہیں ہے۔

مجھے کھیل سے ستائش و صلہ ملنے سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بلکہ مجھے صرف کھیلنے سے محبت تھی۔

مجھے نہیں معلوم کہ کرکٹ کبھی مجھے دوبارہ قبول بھی کرے گی یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرے گی۔ گزرے ہوئے سال اور خصوصاً آج کے دن کی مشکلات کے ساتھ میں اب بھی مطمئن ہوں کہ میں نے جو کیا اسے قبول کیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ میرا مستقبل کیا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں نے بہت بڑا سبق سیکھا ہے۔

میں ان لوگوں کے لیے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اس وقت معاف کیا جب میں نے ان کو مایوس کیا۔ ان میں سے چند ایسے تھے جنہیں میں نے پوری زندگی تحسین و توصیف کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔

میں اپنے کیے پر تمام لوگوں سے معافی کا طلبگار ہوں، اور اس بات پر بھی کہ میں نے یہ ذمہ داری پہلے کیوں نہ قبول کی۔ میں اپنے اہل خانہ سے بھی معذرت خواہ ہوں اور گزرے ہوئے سال میں ان کو ذہنی طور پر پر پریشان کرنے پر بھی۔

میں عدالت سے یہ کہنا چاہوں گا کہ میں اُن کے کیے گئے ہر فیصلے کی عزت کروں گا۔ میں قبول کرتا ہوں کہ میں نے غلط کیا اور میں جس صورتحال میں تھا اس میں میں کچھ اور کر سکتا تھا اور مجھے کرنا چاہیے تھا۔"