فکسنگ کا جن بوتل سے باہر، سابق سربراہ اینٹی کرپشن یونٹ کے ہوشربا انکشافات

1 1,003

لگتا کہ فکسنگ کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے، کم از کم بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن) یونٹ کے سابق سربراہ سر پال کونڈن کے حالیہ انکشافات کے بعد تو ایسا ہی لگتا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ میچ اور اسپاٹ فکسنگ میں صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ تقریبا ہر بڑی ٹیم کے کھلاڑی شامل رہے ہیں اور 80ء اور 90ء کی دہائی میں میچ فکسنگ اپنے عروج پر تھی جبکہ اسپاٹ فکسنگ نے 2003ء میں سر ابھارا اور اس وقت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے کے ظہور نے کھیل میں بدعنوانی کو ازسر نو فروغ دیا ہے۔

برطانیہ کے معروف جریدے 'دی کرکٹر' کی اگلے ماہ کی اشاعت کے لیے دیے گئے انٹرویو میں پال کونڈن کا کہنا ہے کہ فکسنگ کے لیے سب سے بڑا 'جام حیات' ٹی ٹوئنٹی کا ظہور ہے، اس کے مخصوص ماحول کی وجہ سے انتہائی بدعنوان لوگ کھیل میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں، اور فکسنگ کے ابتدائی سالوں کے چند بدنام زمانہ فکسرز بھارت، پاکستان، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مختصر طرز کی اس کرکٹ نے ان افراد کو تقریبا قانونی حیثیت بھی دے دی ہے، اب فکسرز کو میچز میں اور منتظمین تک کے ساتھ تک دیکھا جا سکتا ہے۔

محمد عامر کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اسے دباؤ میں آ کر وہی کرنا پڑتا جو کپتان چاہتا ہے، تاہم مثالی سزائیں دینا ضروری تھا: سر پال کونڈن (تصویر: Getty Images)
محمد عامر کی جگہ کوئی بھی ہوتا، اسے دباؤ میں آ کر وہی کرنا پڑتا جو کپتان چاہتا ہے، تاہم مثالی سزائیں دینا ضروری تھا: سر پال کونڈن (تصویر: Getty Images)

ایک دہائی تک اینٹی کرپشن یونٹ کی سربراہی کرنے والے سر پال کونڈن کا کہنا ہے کہ کہ ٹی ٹوئنٹی نے اس نظم و ضبط اور سختی کا خاتمہ کر دیا ہے جو آئی سی سی انسداد بدعنوانی یونٹ نے ان کی زیر نگرانی قائم کیا تھا اور کھلاڑی بڑے پیمانے پر پیسہ بنانے والے لوگوں کے سامنے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ اب ایک نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور اسپاٹ فکسنگ کے مسئلے کے لیے سہ جہتی حل کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کرکٹ کھیلنے میں اضافے اور ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کے نفوذ کی وجہ سے اینٹی کرپشن اینڈ سیکورٹی یونٹ کو اپنے وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا ۔ دوسرا آئی سی سی کو ملکی بورڈز پر سختی کرنا ہوگی اور مختلف سطحوں کی سزائیں دینا ہوں گی، یہاں تک کہ اگر وہ بدعنوانی کے اخراج میں ناکام ہو جائیں تو انہیں عالمی کرکٹ سے باہر کر دیا جانا چاہیے۔ تیسرا عالمی سطح پر کھیل کے معاملات کو چلانے کے لیے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ مسئلے کے حل کے لیے اور بحیثیت مجموعی کھیل کے لیے خود پر زیادہ ذمہ داری محسوس کریں۔

پال کونڈن، جو برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کے سابق کمشنر بھی رہ چکے ہیں، نے مزید انکشاف کیا کہ گزشتہ دس سالوں میں چھ ٹیموں نے مشکوک حرکتوں کی وجہ سے انتظامیہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ 2000ء سے اب تک غالباً پانچ یا چھ قومی ٹیمیں انتظامیہ کی تشویش کا باعث بنیں اور ان کی سختی سے نگرانی و تفتیش کی گئی تاہم پاکستان کی صورتحال سب سے زیادہ چیلنجنگ رہی۔ پال کونڈن نے 2000ء میں جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے کا میچ فکسنگ قضیہ سامنے آنے کےبعد آئی سی سی کے تخلیق کردہ اینٹی کرپشن یونٹ کی سربراہی سنبھالی تھی اور ان کا دعوی ہے کہ 2003ء تک انہوں نے تمام طرز کی کرکٹ میں میچ فکسنگ کا خاتمہ کر دیا تھا، تاہم یہیں سے اسپاٹ فکسنگ نے اپنی جڑیں پکڑنا شروع کیں۔ انہوں نے کہا کہ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں تو ٹیسٹ اور عالمی کپ تک کے مقابلوں کو فکس کرنا معمول کی بات تھی۔ اور اس میں صرف برصغیر سے تعلق رکھنے والی ہی ٹیمیں نہيں بلکہ دیگر بھی شامل تھیں بلکہ تقریبا ہر بین الاقوامی ٹیم کسی نہ کسی مرحلے پر مشکوک حرکات میں ملوث رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ دونوں دہائیوں میں تمام معلومات محض افواہوں پر مبنی تھیں اور بالآخر ہنسی کرونیے کا معاملہ سامنے آنے پر پنڈورا بکس کھلا۔ اس قضیے نے کرکٹ کی ساکھ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے، حتی کہ اسپانسرز تک کھیل کو چھوڑنے لگے اور اس صورت میں آئی سی سی کا پہلا بڑا ٹورنامنٹ عالمی کپ 2003ء تھا اور یہی وہ ایونٹ تھا جس نے میچ فکسنگ کا خاتمہ کیا اور یہیں سے اسپاٹ فکسنگ کا ظہور ہوا۔

گو کہ سر پال کونڈن کا ماننا ہے کہ پاکستان کے تین کھلاڑیوں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو سخت سزائیں دے کر مثال قائم کرنا ضروری تھا تاہم انہوں نے کہا کہ مجھے محمد عامر سے کچھ ہمدردی ضرور ہے، وہ ایک بھولا بھالا لڑکا ہے اور اگر آپ کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہو جس میں آپ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہو اور آپ کو دھمکیاں مل رہی ہوں کہ اگر کپتان کا کہنا نہیں مانا تو دوبارہ ٹیم میں نہیں آپائیں گے تو آپ کو بھی وہی کرنا پڑے گا جو اس لڑکے نے کیا۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس کو بری کر دینا چاہیے تھا، کیونکہ کرکٹ کو صاف کھیل بنانے کے لیے ان کو عبرتناک سزائیں دینا ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی کھلاڑیوں پر موجود دباؤ کو سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 2001ء میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ ہمارے پاس ایک پاکستانی کرکٹر تھا جو دی جانے والی دھمکیوں سے خوفزدہ تھا کہ اگر اس نے انکشافات کیے تو نتائج اس کے خاندان کو بھگتنا ہوں گے۔ اس کھلاڑی کے پاس بہت اہم اطلاعات تھیں۔ ہم اسے آئی سی سی کے اخراجات پر پاکستان سے لندن میں لے کر آئے اور اس سے معلومات حاصل کیں۔

پال کونڈن نے کہا کہ 2008ء میں ایک اجلاس میں آئی سی سی بورڈکو ٹی ٹوئنٹی طرز کی کرکٹ کے حوالے سے متنبہ کرنے پر بھارتی نمائندوں نے ان پر شدید غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں اس معاملے میں بولنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ کہ میں آئی پی ایل کی حیثیت کو چیلنج کر رہا ہوں۔

سر پال کونڈن کا یہ خصوصی انٹرویو 'دی کرکٹر' کی شمارہ برائے دسمبر میں شایع کیا جائے گا جو 18 نومبر سے دستیاب ہوگا۔انسداد بدعنوانی یونٹ کے سابق سربراہ نےحال ہی میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پاکستانی کھلاڑیوں کو قید کی سزائیں سنائے جانے کے بعد ملوث بورڈز پر پابندی عائد کرنے کا انوکھا مطالبہ بھی کیا تھا تاہم اب تازہ انکشافات سے وہ اپنی پوزیشن درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔