بنگلہ دیش کو اننگز کی ہزیمت، پاکستان کو ناقابل شکست برتری حاصل

3 1,037

ٹیسٹ کرکٹ میں آمد کے بعد سے اب تک کوئی اہم کامیابی حاصل نہ کرنے والا بنگلہ دیش ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ہاتھوں اننگز کی شکست سے دوچار ہوا جو طویل طرز کی کرکٹ میں اس کی اننگز کے مارجن سے 35 ویں شکست تھی۔ پاکستان کی جانب سے یونس خان کی ڈبل سنچری اور اسپن جوڑی عبد الرحمن اور سعید اجمل کی عمدہ گیند بازی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور میچ کا فیصلہ چوتھے روز کھانے کے وقفے کے بعد ہی ہو گیا۔ اس فتح کے ساتھ ہی پاکستان کو دو ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان، جو رواں سال 2011ء میں کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں ہارا، اب پورے سال میں ناقابل شکست رہے گا اور اگلے ٹیسٹ کا نتیجہ سیریز پر کوئی اثر نہیں ڈال پائے گا۔ اگر سیریز سے ہٹ کر میچز پر نظر کی جائے تو پاکستان کو سال بھر میں صرف ایک شکست اٹھانا پڑا جو دورۂ ویسٹ انڈیز میں ہوئی اس کے علاوہ کھیلے گئے 8 مقابلوں میں پاکستان نے 5 میں فتح سمیٹی جبکہ بقیہ بے نتیجہ ختم ہوئے۔

اننگز اور 184 رنز کی فتح پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کی چوتھی اور بنگلہ دیش کے خلاف دوسری سب سے بڑی فتح تھی۔ پاکستان کی بنگلہ دیش کے سب سے بڑی جیت 2001ء کے ملتان ٹیسٹ میں ایک اننگز اور 264 رنز کی تھی۔ مجموعی طور پر پاکستان نے چوتھی مرتبہ بنگلہ دیش کو اننگز کی شکست سے دو چار کیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں مایوس کن کارکردگی دکھانے والا بنگلہ دیش 35 ویں مرتبہ اننگز کی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا ہے۔

یونس خان نے کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری محض 290 گیندوں پر بنائی (تصویر: AFP)
یونس خان نے کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری محض 290 گیندوں پر بنائی (تصویر: AFP)

چٹاگانگ کے ظہور احمد چودھری اسٹیڈيم میں ٹاس جیت کر پہلے میزبان ٹیم کو دعوت دینے کے بعد پاکستان نے عمدہ گیند بازی کا مظاہرہ کیا۔ پیسرز نے ابتدائی وکٹوں پر ہاتھ صاف کیا اور مڈل اور لوئر آرڈر اسپنرز کی بے رحمی کی نذر ہو گیا اور بنگلہ دیش پہلی اننگز میں محض 135 رنز بنا پایا۔ اعزاز چیمہ اور عمر گل نے دو، دو سرفہرست چاروں وکٹیں حاصل کیں جبکہ سعید اجمل اور عبد الرحمن نے تین، تین وکٹیں اپنے نام کیں۔

پہلی اننگز میں ناصر حسین 41 رنز کے ساتھ بہترین بلے باز رہے جبکہ پہلا میچ کھیلنے والے ناظم الدین 31 رنز بنا کر دوسرے قابل ذکر بلے باز رہے۔ ان دونوں کے علاوہ محمود اللہ 18 رنز کے ساتھ دہرے ہندسے میں داخل ہونے والے واحد بلے باز تھے۔

میزبان ٹیم کو پہلی اننگز میں با آسانی زیر کرنے کے بعد پاکستان نے بلے بازی میں اپنے جوہر دکھائے اور اوپنرز محمد حفیظ اور توفیق عمر نے 164 رنز کی شاندار پارٹنرشپ قائم کر کے پہلی ہی وکٹ پر بنگلہ دیش پر برتری کا خاتمہ کر دیا۔ توفیق 61 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹے۔ پاکستان کے ٹیسٹ دستے کے مستقل رکن بننے والے نوجوان اظہر علی زیادہ طویل ساتھ نہ دے پائے اور 26 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ 265 کے مجموعی تک پہنچتے پہنچتے محمد حفیظ بھی آؤٹ ہو گئے۔ وہ الیاس سنی کی گیند پر امپائر کے انتہائی ناقص فیصلے کا نشانہ بنے جنہوں نے واضح طور پر بلے کا کنارہ لگنے کے باوجود انہیں ایل بی ڈبلیو قرار دیا۔ حفیظ نے 237 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے 143 رنز کی زبردست اننگز کھیلی۔ اگلی وکٹ مصباح الحق کی صورت میں گری جو 20 رنز بنا کر پویلین لوٹے جس کے بعد یونس خان اور نوجوان اسد شفیق نے میچ کی سب سے طویل شراکت داری قائم کی۔ دونوں نے پانچویں وکٹ پر 259 رنز جوڑے۔ اسد شفیق نے اپنے مختصر ٹیسٹ کیریئر کی پہلی نصف سنچری بنائی۔ اس سے قبل اسد کا سب سے زیادہ اسکور 84 رنز تھا لیکن 104 رنز کی عمدہ اننگز نے ان کی صلاحیتوں کو ثابت کر دیا۔ وہ اُس وقت الیاس سنی کی تیسری وکٹ بنے جب پاکستان کا اسکور 570 رنز تھا۔

اب پاکستان صرف اور صرف تجربہ کار یونس خان کی ڈبل سنچری کا منتظر تھا جنہوں نے بالآخر اس سنگ میل کو بھی جا لیا۔ یہ یونس کے کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری تھی، اس سے قبل وہ ایک مرتبہ ٹرپل سنچری بھی جڑ چکے ہیں۔ 2006ء میں بدقسمتی سے وہ دو مرتبہ ڈبل سنچری کے قریب پہنچ کر بھی حاصل نہ کر پائے تھے اور ایک مرتبہ 199 اور ایک مرتبہ 194 رنز پر آؤٹ ہو گئے تھے تاہم اس مرتبہ انہوں نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی۔ یونس کی ڈبل سنچری کی خاص بات ان کی برق رفتاری تھی۔ انہوں نے محض 290 گیندوں پر 3 چھکوں اور 18 چوکوں کی مدد سے 200 رنز بنائے۔ پاکستانی اننگز میں ٹاپ اسکورر ہونے کے علاوہ ان کا اسٹرائیک ریٹ بھی تمام بلے بازوں سے بہتر تھا یعنی 68.96۔ پاکستان نے ان کی ڈبل سنچری مکمل ہوتے ہی اپنی واحد اننگز 594 رنز پر ڈکلیئر کر دی۔

سعید اجمل اور عبد الرحمن کی اسپن جوڑی نے میچ میں 12 وکٹیں حاصل کیں (تصویر: AFP)
سعید اجمل اور عبد الرحمن کی اسپن جوڑی نے میچ میں 12 وکٹیں حاصل کیں (تصویر: AFP)

بنگلہ دیش کی جانب سے الیاس سنی کی تین وکٹوں کے علاوہ ایک، ایک وکٹ شہادت حسین اور محمود اللہ نے حاصل کی۔ اس اننگز میں بنگلہ دیش کے لیے ایک افسوسناک خبر تیز گیند باز روبیل حسین کا زخمی ہو جانا تھا جو فیلڈنگ کے دوران اپنا کندھا زخمی کر بیٹھے اور بعد ازاں بلے بازی کے لیے بھی میدان میں نہیں آ پائے۔

459 رنز کے خسارے کے ساتھ بنگلہ دیش دوسری اننگز کے آغاز سے قبل ہی میچ سے باہر دکھائی دیتا تھا کیونکہ رنز کے اتنے بڑے پہاڑ کا بوجھ اتارنا اور میچ بچانے کی کوشش کرنا اس کے بلے بازوں کے بس کی بات نہ لگتی تھی اور ہوا بھی یہی۔ پاکستانی اسپنرز نے ابتداء ہی سے انہیں زبردست دباؤ کا شکار کر دیا۔ محمد حفیظ نے ایک مرتبہ پھر تمیم اقبال کو ٹھکانے لگایا جبکہ دوسری وکٹ پر ناظم الدین اور شہریار نفیس کی 50 رنز کی شراکت کا خاتمہ ہوتے ہی پاکستان نے ٹیم میں واپس آنے والے محمد اشرفل اور اِن فارم ناصر حسین کو بھی پویلین کی راہ دکھا دی۔

پانچویں وکٹ پر شکیب الحسن نے ناظم الدین کے ساتھ مل کر 50 رنز کا اضافہ کیا اور تیسرے روز کے اختتام تک مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی لیکن یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ پاکستان اننگز کی فتح سے ہمکنار ہوگا جب تک کہ بنگلہ دیشی بلے باز کوئی معجزہ نہ دکھائیں۔ چوتھے و آخری روز دونوں بلے بازوں یعنی ناظم الدین اور شکیب الحسن نے اپنی اپنی نصف سنچریاں مکمل کیں اور دونوں کی 78 رنز کی شراکت داری کا خاتمہ عبد الرحمن کے ہاتھوں ہوا جنہوں نے آخری روز بہت اچھی باؤلنگ کی۔ شکیب نے 51 رنز بنائے جس کے بعد کپتان مشفق الرحیم میدان میں اترنے جنہوں نے اچھی بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے والے ناظم الدین کا ساتھ دیا اور اسکور میں مزید 47 رنز بڑھائے۔ لیکن ناظم الدین 78 رنز بنانے کے بعد عبد الرحمن کی وکٹ بن گئے۔ جبکہ آٹھویں وکٹ پر 42 رنز کا اضافہ کرنے کے بعد مشفق الرحیم بھی 49 پر پویلین سدھار گئے۔ آخری بلے بازوں میں الیاس سنی نے 20 اور شہادت حسین نے 21 رنز بنائے جبکہ روبیل حسین زخمی ہونے کی وجہ سے بلے بازی کے لیے میدان میں نہیں آئے اور 275 رنز پر بنگلہ دیش کی دوسری اننگز کا خاتمہ ہو گیا۔

پاکستان کی جانب سے عبد الرحمن نے4، سعید اجمل اور اعزاز چیمہ نے 2،2 اور محمد حفیظ نے ایک وکٹ حاصل کی۔

یونس خان کو یادگار ڈبل سنچری پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا آخری معرکہ 17 دسمبر سے ڈھاکہ کے شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہوگا۔

اسکور کارڈ کچھ دیر میں ملاحظہ کریں