’ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے‘ پاکستان کے لیے ایک یادگار سال
کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے تنازع یعنی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شائقین بھی پاکستان کرکٹ کے لیے 'انا للہ' پڑھ چکے تھے لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ پاکستان کرکٹ کی خاکستر سے ایک بار پھر چنگاریاں بھڑک اٹھیں گی۔ جی ہاں! 'گرین شرٹس' ایک مرتبہ پھر راکھ سے اُبھر کے دنیا کے سامنے جلوہ گر ہو چکے ہیں۔
پے در پے شکستوں کے بعد 2009ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والا دہشت گرد حملہ پاکستان کرکٹ پر ایک بہت بڑی ضرب تھا لیکن تازیانے کا کام 2010ء کے اسپاٹ فکسنگ تنازع نے انجام دیا جو اسُ وقت کے ماہرین کے بقول ’پاکستانی کرکٹ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا‘۔ لیکن سال 2011ء میں انتظامیہ، قیادت اور کوچنگ کے والے سے چند تنازعات اور اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے سزائیں پانے جیسے اہم واقعات کے باوجود بحیثیت مجموعی اپنی کارکردگی کے ذریعے ان تمام خدشات کا خاتمہ کر دیا ہے اور طویل عرصے کے بعد پاکستان ہر طرز کی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے۔
حیران کن طور پر پاکستان سال بھرکسی بھی ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہا اور طویل طرز کی کرکٹ میں پورے سال میں اسے صرف ایک شکست کھانی پڑی جبکہ ایک روزہ میں وہ سب سے زیادہ مقابلے جیتنے والا ملک بنا جس میں عالمی کپ کا سیمی فائنل بھی شامل ہے جہاں اسے روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں سال کی سب سے مایوس کن شکست ہوئی۔
اسپاٹ فکسنگ کی دلدل سے نکلنے کے فوراً بعد پاکستان نے انگلستان کے خلاف سنسنی خیز ایک روزہ سیریز کھیلی اور بعد ازاں جنوبی افریقہ کو متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں ناکوں چنے چبوائے۔ جس کے بعد پاکستان نے سال 2011ء کا آغاز نیوزی لینڈ کو اُسی کی سرزمین پر دونوں طرز کی کرکٹ میں زیر کر کے کیا۔ یہ پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد کسی بھی ملک کے خلاف پاکستان کی پہلی ٹیسٹ فتح تھی جبکہ برصغیر سے باہر 7 سال بعد سیریز میں جیت تھی۔
پاکستان کا اصل امتحان عالمی کپ 2011ء تھا۔ گو کہ کرکٹ ماہرین سمیت پاکستانی قوم حتیٰ کہ شاید کھلاڑیوں کو بھی اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی لیکن پاکستان نے سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں کامل ترین کارکردگی دکھائی اور کرکٹ کے گروؤں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ گروپ مرحلے میں دو سابق عالمی چیمپئن ٹیموں آسٹریلیا اور سری لنکا کو زیر کرنے کے بعد پاکستان سرفہرست تھا اور بعد ازاں ناک آؤٹ مرحلے میں ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی پہلی ٹیم بن گیا۔ ایک ٹیم جس کے گروپ مرحلے سے آگے نکلنے کے امکانات بھی ماہرین کی نظر میں کم تھے، نے سیمی فائنل تک پہنچ کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر دیا۔ ایک لحاظ سے پاکستان کے لیے یہی بہت بڑی فتح تھی۔
عالمی کپ کا سیمی فائنل، جسے سال کا سب سے بڑا مقابلہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، پاکستان اور روایتی حریف بھارت کے درمیان کھیلا گیا جس میں فتح کے ساتھ بھارت فائنل میں پہنچا جہاں اس نے ایک اور پڑوسی ملک سری لنکا کو زیر کر کے 28 سال بعد عالمی کپ جیتا۔ لیکن سیمی فائنل میں شکست کے باوجود پاکستان اپنی حیثیت منوا چکا تھا، ایک ایسی ٹیم کی حیثیت سے جو مستقبل قریب میں ایک مرتبہ پھر عالمی منظرنامے پر اُبھر سکتی ہے۔
ماضی کے برعکس پاکستان کےعوام نے بھی شکست کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا اور ہارنے کے باوجود وطن واپسی پر ٹیم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ قومی ٹیم کے قائد شاہد آفریدی کے گھر پر کئی روز تک ہزاروں لوگ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آتے رہے اور بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان نے ٹیم کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس میں ان کی صلاحیتوں کو سراہا گیا۔
اب نئے عزم و حوصلوں کے ساتھ پاکستان کیریبین سرزمین پر پہنچا، اک ایسا مقام جہاں پاکستان نے تاریخ میں کبھی کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی اور اس مرتبہ مصباح الحق کی زیر قیادت ٹیم کے پاس نادر موقع تھا کہ وہ یہ کارنامہ انجام دے کر اپنا نام تاریخ میں امر کر لیں لیکن پروویڈنس، گیانا میں ویسٹ انڈیز نے انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاکستان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیاگو کہ پاکستان اگلا ٹیسٹ جیت کر سیریز 1-1 سے برابر کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اسے بہتر نتائج کی امید تھی جو وہ حاصل نہ کر سکا۔ اگر سال بھر کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے سب سے مایوس کن دورہ ویسٹ انڈیز ہی کا تھا۔ بعد ازاں پاکستان نے ویسٹ انڈیز میں ایک روزہ سیریز کے ابتدائی تینوں مقابلے جیت کر ایک روزہ مرحلہ بھی اپنے نام کیا لیکن اس کے بعد آخری دونوں مقابلوں میں شکست سے جیت کا مزا کرکرا ہو گیا۔
دورۂ ویسٹ انڈیز سیریز کا سب سے بھیانک نتیجہ محدود اوورز کے دستے کے کپتان شاہد آفریدی کا وطن واپس آ کر کوچ وقار یونس اور ٹیم انتظامیہ کے خلاف بیان تھا۔ جس کے نتیجے میں شاہد آفریدی کو پہلے اپنی قیادت اور اُس کے بعد ٹیم میں جگہ حتیٰ کہ مرکزی معاہدے اور کرکٹ کھیلنے کے اجازت نامے (این او سی) سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یوں وہ کسی بھی طرز پر کرکٹ کھیلنے سے محروم ہو گئے جس پر انہوں نے احتجاجاً ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں جرمانے کی ادائیگی کے بعد انہیں این او سی تو جاری کر دی گئی لیکن وہ وقار یونس کے کوچ کے عہدے سے استعفے اور اعجاز بٹ کے ہٹائے جانے تک بین الاقوامی کرکٹ میں واپس نہ آ سکے۔ نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد شاہد آفریدی نے ریٹائرمنٹ واپس لی اور سری لنکا کے خلاف محدود اوورز کے مرحلے میں پاکستان کی نمائندگی کی اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔
بہرحال، ویسٹ انڈیز سے واپس آتے ہوئے پاکستان نے دو ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیلنے کے لیے آئرلینڈ میں چند روزہ قیام کیا اور دونوں میں فتوحات سمیٹیں۔
سری لنکا کے خلاف سال کی سب سے اہم سیریز سے قبل پاکستان نے زمبابوے کا دورہ کیا جہاں اس نے تینوں طرز کی کرکٹ میں تمام مقابلے اپنے نام کیے۔ واحد ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کر کے اس نے سال کی دوسری ٹیسٹ سیریز جیتی جبکہ ایک روزہ سیریز بھی 3-0 سے سمیٹی۔
اب پاکستان کو سال کی مشکل ترین سیریز میں سری لنکا کی مضبوط ٹیم کا سامنا کرنا تھا۔ گو کہ یہ سیریز پاکستان میں کھیلی جانی تھی اور اس کے روشن امکانات بھی تھے لیکن کراچی میں واقع پاک فضائیہ و بحریہ کے اڈے پر دہشت گردوں کے حملے کے باعث یہ معاملہ 'بن کھلے ہی مرجھا گیا'۔ یوں پاکستان کو یہ سیريز متحدہ عرب امارات میں ہی کھیلنا پڑی جس میں گرین شرٹس نے سال کی بہترین کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا۔ تینوں ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان نے سری لنکا کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا، اور ہر مقابلے میں حریف پر حاوی رہا تاہم فتح نے صرف ایک مرتبہ اس کے قدم چومے۔ یوں پاکستان نے ٹیسٹ سیریز 1-0 سے جیت لی۔ اس کے بعد 5 ایک روزہ مقابلوں میں 4-1 سے فتح سمیٹی اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے واحد ٹی ٹوئنٹی بھی اپنے نام کیا۔ ایک روزہ میں عمدہ کارکردگی پاکستان کو درجہ بندی میں پانچویں درجے پر لانے کا باعث بنی۔
سری لنکا کے خلاف سیریز جیت کر پاکستان نے عالمی درجہ بندی میں آگے بڑھنے کے امکانات کو بہت زیادہ روشن کر لیا اور اس کے کئی کھلاڑی بہترین کارکردگی کے باعث انفرادی طور پر بھی درجہ بندی میں آگے آئے جن میں پاکستان کی اسپن مثلث سعید اجمل، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی نمایاں تھے جبکہ بلے بازوں میں یونس خان، مصباح الحق اور عمر اکمل نے دونوں طرز کی کرکٹ میں اہم درجے حاصل کیے۔
پاکستان کو سری لنکا کے بعد انگلستان کے خلاف سیریز بھی عرب امارات ہی میں کھیلنا تھی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین ذکا اشرف کے دماغ میں ایک سودا سمایا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لانا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر انہوں نے 8 سال بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کو بنگلہ دیش کا اضافی دورہ کرنے کی منظوری دی اور یوں پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلستان کے خلاف سیریز سے قبل 2 ٹیسٹ، 3 ایک روزہ اور ایک ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کے لیے بنگلہ دیشی سرزمین پروارد ہوئی۔ محدود اوورز کے تمام مقابلے اپنے نام کرنے کے بعد پہلا ٹیسٹ با آسانی اور ڈھاکہ میں کھیلا گیا دوسرا و آخری ٹیسٹ ایک زبردست مقابلے کے بعد جیتا اور سیریز میں مکمل کلین سویپ کیا۔ اس وائٹ واش کے نتیجے میں پاکستان کو ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں ایک قیمتی پوائنٹ ملا اور وہ 2009ء کے بعد پہلی بار پانچویں پوزیشن پر آ گیا۔
مجموعی طور پر پاکستان نے سال 2011ء میں 10 ٹیسٹ مقابلے کھیلے اور 6 میں فتح حاصل کی۔ تین مقابلے ڈرا ہوئے اور محض ایک ہی میچ میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس طرح پاکستان انگلستان کے بعد سال میں سب سے عمدہ ٹیسٹ کارکردگی دکھانے والا ملک رہا۔
سال 2011ء میں تمام ممالک کی ٹیسٹ کارکردگی
ملک | مقابلے | جیتے | ہارے | برابر | ڈرا | فتوحات کا تناسب |
---|---|---|---|---|---|---|
8 | 6 | 0 | 0 | 2 | 75.00 فیصد | |
10 | 6 | 1 | 0 | 3 | 60.00 فیصد | |
4 | 2 | 1 | 0 | 1 | 50.00 فیصد | |
5 | 2 | 2 | 0 | 1 | 40.00 فیصد | |
8 | 3 | 3 | 0 | 2 | 37.50 فیصد | |
3 | 1 | 2 | 0 | 0 | 33.33 فیصد | |
11 | 3 | 4 | 0 | 4 | 27.27 فیصد | |
10 | 2 | 4 | 0 | 4 | 20.00 فیصد | |
10 | 0 | 4 | 0 | 6 | 0.00 فیصد | |
5 | 0 | 4 | 0 | 1 | 0.00 فیصد |
دوسری جانب ایک روزہ مقابلوں پر نظر دوڑائیں تو یہاں پاکستان نے سال بھر میں 32 میچ کھیلے اور 24 میں فتوحات سمیٹیں۔ 7 مقابلوں میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑااور ایک میچ بے نتیجہ رہا۔ اس طرح پاکستان کی فتوحات کا تناسب تمام ممالک سے زیادہ رہا۔ پاکستان کے بعد فتح کا سب سے زیادہ تناسب عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کا رہا جس نے 25 میں سے 18 مقابلے جیتے جبکہ عالمی چیمپئن بھارت نے 34 میں سے 21 مقابلوں میں فتوحات سمیٹیں۔
سال 2011ء میں تمام ممالک کی ایک روزہ کارکردگی
ملک | مقابلے | جیتے | ہارے | برابر | بے نتیجہ | کمترین/بہترین اسکور |
---|---|---|---|---|---|---|
32 | 24 | 7 | 0 | 1 | 317/124 | |
34 | 21 | 10 | 2 | 1 | 418/146 | |
25 | 18 | 6 | 0 | 1 | 361/176 | |
28 | 14 | 12 | 0 | 2 | 332/121 | |
30 | 11 | 16 | 2 | 1 | 338/171 | |
28 | 10 | 17 | 0 | 1 | 330/61 | |
17 | 9 | 7 | 0 | 1 | 358/153 | |
15 | 9 | 6 | 0 | 0 | 351/129 | |
20 | 6 | 14 | 0 | 0 | 295/58 | |
17 | 6 | 11 | 0 | 0 | 329/160 | |
12 | 4 | 8 | 0 | 0 | 329/96 | |
4 | 3 | 1 | 0 | 0 | 323/101 | |
2 | 2 | 0 | 0 | 0 | 213/150 | |
10 | 2 | 8 | 0 | 0 | 306/115 | |
10 | 1 | 9 | 0 | 0 | 261/122 | |
8 | 0 | 8 | 0 | 0 | 264/99 |
اگر انفرادی سطح پر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے بھی 2011ء پاکستان کے لیے ایک یادگار سال رہا۔ طویل طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے سعید اجمل نے سال میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ انہوں نے 8 مقابلوں میں 50 حریف بلے بازوں کو اپنا نشانہ بنایا اور اپنا نام وسیم اکرم، وقار یونس اور عمران خان جیسے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں لکھوایا جو ان سے قبل ایک کلینڈر ایئر میں 50 یا زائد وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
23.86 کے زبردست اوسط سے حاصل کردہ انہی وکٹوں کی بدولت وہ ٹیسٹ کے گیند بازوں کی عالمی درجہ بندی میں نویں نمبر پر موجود ہیں (بمطابق 22 دسمبر 2011ء)۔
سال 2011ء ٹیسٹ: سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند باز
نام | ملک | مقابلے | اوورز | میڈنز | رنز | وکٹیں | بہترین گیند بازی/اننگز | بہترین گیند بازی/میچ | اوسط |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سعید اجمل | 8 | 487.0 | 112 | 1193 | 50 | 6/42 | 11/111 | 23.86 | |
ایشانت شرما | 11 | 451.2 | 93 | 1487 | 41 | 6/55 | 10/108 | 36.26 | |
دیوندر بشو | 10 | 454.4 | 65 | 1413 | 39 | 5/90 | 8/152 | 36.3 | |
عبد الرحمن | 8 | 412.0 | 116 | 946 | 36 | 4/51 | 7/97 | 26.27 | |
جیمز اینڈرسن | 7 | 296.2 | 77 | 870 | 35 | 5/65 | 7/127 | 24.85 | |
عمر گل | 8 | 287.5 | 47 | 873 | 34 | 4/61 | 8/148 | 25.67 | |
اسٹورٹ براڈ | 7 | 270.2 | 63 | 736 | 33 | 6/46 | 8/76 | 22.30 | |
فیڈل ایڈورڈز | 8 | 252.2 | 22 | 957 | 32 | 5/63 | 8/132 | 29.90 | |
رنگانا ہیراتھ | 9 | 419.4 | 87 | 1064 | 32 | 7/157 | 8/133 | 33.25 | |
روی رامپال | 8 | 283.1 | 55 | 776 | 31 | 4/48 | 7/75 | 25.03 |
طویل طرز کی کرکٹ میں پاکستان کے سب سے نمایاں بلے باز توفیق عمر رہے جنہوں 10 ٹیسٹ مقابلوں میں 46.16 کے اوسط سے 831 رنز بنائے جس میں سری لنکا کے خلاف ایک شاندار ڈبل سنچری بھی شامل رہی۔ ان کے علاوہ یونس خان اور مصباح الحق نے 765،765 اور اظہر علی نے 732 رنز بنائے۔سال میں سب سے زیادہ نصف سنچریاں اظہر علی اور مصباح الحق نے بنائیں جنہوں نے 7،7 مرتبہ 50 کا ہندسہ عبور کیا۔
سال 2011ء ٹیسٹ کے بہترین بلے باز
نام | ملک | مقابلے | اننگز | رنز | بہترین اسکور | اوسط | سنچریاں | نصف سنچریاں |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
راہول ڈریوڈ | 11 | 21 | 1067 | 146* | 59.27 | 5 | 3 | |
این بیل | 8 | 11 | 950 | 235 | 118.75 | 5 | 2 | |
ڈیرن براوو | 10 | 20 | 949 | 195 | 49.94 | 3 | 3 | |
ایلسٹر کک | 8 | 11 | 927 | 294 | 84.27 | 4 | 2 | |
کمار سنگاکارا | 10 | 19 | 926 | 211 | 48.73 | 3 | 4 | |
توفیق عمر | 10 | 19 | 831 | 236 | 46.16 | 3 | 3 | |
وی وی ایس لکشمن | 11 | 21 | 770 | 176* | 45.29 | 1 | 6 | |
یونس خان | 8 | 12 | 765 | 200* | 85.00 | 2 | 4 | |
مصباح الحق | 10 | 16 | 765 | 102* | 69.54 | 1 | 7 | |
اظہر علی | 10 | 18 | 732 | 100 | 45.75 | 1 | 7 |
ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے کا شرف محمد حفیظ کو حاصل ہوا جنہوں نے کلینڈر ایئر میں ایک ہزار رنز بنانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ انہوں نے سال بھر میں کھیلے گئے 32 ایک روزہ مقابلوں میں 37.06 کے اوسط سے 1075 رنز بنائے جس میں 139 رنز کی ایک ناقابل شکست اننگز بھی شامل تھی۔ سال بھر میں انہوں نے 9 نصف سنچریاں بنائیں۔ اُن کے علاوہ مصباح الحق نے 964 اور عمر اکمل نے 785 رنز بنائے۔ عمر اکمل ایک روزہ کرکٹ کے سرفہرست 10 بلے بازوں میں پاکستان کے واحد نمائندہ ہیں (بمطابق 22 دسمبر 2011ء)
سال 2011ء ایک روزہ کے بہترین بلے باز
نام | ملک | مقابلے | اننگز | رنز | بہترین اسکور | اوسط | سنچریاں | نصف سنچریاں |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ویرات کوہلی | 34 | 34 | 1381 | 117 | 47.62 | 4 | 8 | |
جوناتھن ٹراٹ | 29 | 28 | 1315 | 137 | 52.60 | 2 | 10 | |
شین واٹسن | 23 | 22 | 1139 | 185* | 56.95 | 2 | 8 | |
کمار سنگاکارا | 27 | 25 | 1127 | 111 | 51.22 | 1 | 9 | |
محمد حفیظ | 32 | 32 | 1075 | 139* | 37.06 | 3 | 5 | |
مہیلا جےوردھنے | 27 | 24 | 1032 | 144 | 46.90 | 3 | 7 | |
مصباح الحق | 31 | 26 | 964 | 93* | 53.55 | 0 | 9 | |
مائیکل کلارک | 24 | 22 | 900 | 101 | 56.25 | 1 | 6 | |
اوپل تھارنگا | 22 | 21 | 826 | 133 | 45.88 | 4 | 2 | |
تلکارتنے دلشان | 28 | 27 | 820 | 144 | 31.53 | 2 | 4 |
پاکستان کی اسپن مثلث کے لیے ایک روزہ طرز کی کرکٹ میں بھی 2011ء ایک زبردست سال ثابت ہوا جس میں شاہد آفریدی نے 27 مقابلوں میں سب سے زیادہ یعنی 45 وکٹیں حاصل کیں جس میں عالمی کپ میں حاصل کردہ ٹورنامنٹ میں حاصل کردہ سب سے زیادہ وکٹیں بھی شامل تھیں۔ بدقسمتی سے وہ بنگلہ دیش کے خلاف آخری مقابلوں میں گیند بازی کا جادو نہ جگا سکے اور یوں لاستھ مالنگا سال میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے گیند باز بن گئے۔ شاہد کے علاوہ سعید اجمل نے سال بھر میں 34 اور محمد حفیظ نے 32 وکٹیں سمیٹیں۔ سعید اجمل اور محمد حفیظ کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ دونوں اِس وقت ایک روزہ کے گیند بازوں کی عالمی درجہ بندی میں پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود ہیں جبکہ سرفہرست 10 میں شاہد آفریدی کا نام بھی شامل ہے۔ یہ غالباً پہلا موقع ہوگا کہ عالمی درجہ بندی میں بیک وقت پاکستان کے تین گیند باز ٹاپ ٹین میں موجود ہیں۔
سال 2011ء ایک روزہ: سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند باز
نام | ملک | مقابلے | اوورز | میڈنز | رنز | وکٹیں | رنز فی اوور | بہترین گیند بازی | اوسط |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
لاستھ مالنگا | 24 | 192.1 | 12 | 924 | 48 | 4.80 | 6/38 | 19.25 | |
شاہد آفریدی | 27 | 224.0 | 9 | 937 | 45 | 4.18 | 5/16 | 20.82 | |
مچل جانسن | 22 | 184.1 | 10 | 817 | 39 | 4.43 | 6/31 | 20.94 | |
سعید اجمل | 20 | 166.4 | 17 | 581 | 34 | 3.48 | 4/35 | 17.08 | |
بریٹ لی | 19 | 156.1 | 10 | 717 | 33 | 4.59 | 4/15 | 21.72 | |
محمد حفیظ | 32 | 229.0 | 15 | 811 | 32 | 3.54 | 3/27 | 25.34 | |
مناف پٹیل | 21 | 163.3 | 8 | 879 | 32 | 5.37 | 4/29 | 27.46 | |
ٹم بریسنن | 24 | 210.2 | 10 | 1136 | 32 | 5.40 | 5/48 | 35.50 | |
گریم سوان | 21 | 192.0 | 11 | 853 | 31 | 4.44 | 3/18 | 27.51 | |
ظہیر خان | 14 | 12.75 | 6 | 620 | 30 | 4.85 | 3/20 | 20.66 |
معروف صحافی راب اسٹین نے مستقل عمدہ کارکردگی ہی کی بنیاد پر پاکستان کو سال کی بہترین ٹیم قرار دیا۔ ویب سائٹ کرک انفو کے لیے لکھتے ہوئے انہوں نے اِن الفاظ میں پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ”بحیثیت مجموعی سال کی بہترین ٹیم پاکستان رہی۔ جی ہاں، پاکستان، جس نے تمام طرز کی کرکٹ میں حیران کن طور پر 33 فتوحات حاصل کی، جو ایک ریکارڈ ہے، اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ انہیں ایک مقابلے میں بھی اپنے ہوم گراؤنڈ کا ایڈوانٹیج حاصل نہیں تھا۔ یقیناً انہوں نے اوسط درجے کی ٹیموں کو کچل کر یہ کامیابیاں سمیٹیں، لیکن اِس کے باوجود میں اسے سال کی بہترین ٹیم سمجھوں کا۔ پاکستان کرکٹ کو اپنے ماضی کے شکنجے سے نکلنے کی ضرورت تھی، اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔“ انہوں نے اسی تحریر میں مصباح الحق کو سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔ جبکہ برطانیہ کے مشہور کرکٹ جریدے ’دی کرکٹر‘ نے بھی مصباح الحق کو سال کا بہترین غیر ملکی کھلاڑی قرار دیا۔
تاہم پاکستان کے لیے یہ سال بھی مکمل طور پر تنازعات سے پاک نہیں رہا کیونکہ اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تنازعات اور پاکستان کرکٹ کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ سال کے پہلے دورے یعنی دورۂ نیوزی لینڈ میں ہی پاکستان کرکٹ اِک نئے ہنگامے سے دوچار ہوئی یعنی کہ عالمی کپ میں قومی کرکٹ ٹیم کی قیادت کون کرے گا؟۔ جسے کافی تاخیر سے شاہد آفریدی کے قیادت کا تاج رکھ کر حل کیا گیا۔
البتہ ٹیم کے اندر سال کے سب سے بڑے تنازع نے عالمی کپ کے بعد دورۂ ویسٹ انڈیز میں جنم لیا جہاں ایک روزہ سیریز کے بعد کوچ وقار یونس اور کپتان شاہد خان آفریدی کے درمیان رسہ کشی کا آغاز ہوا جس کا نتیجہ شاہد آفریدی پر پابندی اور اُن کی مشروط ریٹائرمنٹ کی صورت میں نکلا۔ یہ معاملہ ازاں وقار یونس اور اعجاز بٹ کے جانے کے بعد ہی حل ہو پایا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ اعجاز بٹ کی سربراہی میں پاکستان کرکٹ اپنے بدترین ایام سے گزری۔ گزشتہ سال ایک سال کی توسیع ملنے کے بعد اعجاز بٹ کو اس مرتبہ عہدے سےہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کے سربراہ ذکا اشرف کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ذکا اشرف کی تقرری کو گو کہ ابھی چند ماہ ہی گزرے ہیں لیکن اب تک ان کے زیر نگیں پاکستان کرکٹ کے معاملات بہت احسن انداز سے چل رہے ہیں خصوصاً اگلے سال بنگلہ دیش کو پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی کر کے اُنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی نائب صدارت کے لیے بنگلہ دیشی امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ اسی کے بدلے میں بنگلہ دیش نے پاکستان کے دورے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اگر معاملات بخوبی انجام پائے اور اگلے سال پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آتی ہے تو یہی ذکا اشرف کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
میدانوں میں عمدہ کارکردگی کے باوجود پاکستان کرکٹ کے لیے ایک لحاظ سے یہ سال بہت مایوس کن بھی رہا کیونکہ اسی سال اسپاٹ فکسنگ میں ملوث پاکستان کے تین کھلاڑیوں کو پہلے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کم از کم 5،5 سال کی پابندی کا نشانہ بننا پڑا اور بعد ازاں برطانیہ کی عدالت نے دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے مقدمے میں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو بالترتیب ڈھائی سال، ایک سال اور 6 ماہ کی قید کی سزائیں سنائیں۔ جبکہ پاکستان کے دو مزید کھلاڑیوں وہاب ریاض اور کامران اکمل کا مستقبل ڈانواں ڈول ہے جنہیں نادیدہ وجوہات کی بنیاد پر ٹیم سے باہر رکھا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے دونوں کھلاڑیوں کے بارے میں خفیہ تحقیقات کے باعث انہیں قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جا رہا۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے پابندی اور برطانوی عدالت کی جانب سے قید کی سزاؤں کے اعلان نے دنیا بھر میں پاکستانی قوم خصوصاً کرکٹ شائقین کے سر شرم سے جھکا دیے لیکن آفرین ہے کرکٹ کے میدانوں میں جان مارنے والے کھلاڑیوں کو جنہوں نے اپنی کارکردگی کے ذریعے شائقین کو اس غمزدہ کیفیت سے باہر نکالا۔
کرک نامہ نے، بقول شخصے، سال کی بہترین کوریج ’اسپاٹ فکسنگ مقدمے‘ میں ہی کی، جو ایک لحاظ سے میرے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی تھا۔ کھیل اور عدالتی کارروائی کی خبر کو یکجا کر کے بنانا، برطانیہ کے عدالتی نظام کو سمجھنا، عدالتی کارروائی کے دوران استعمال ہونے والی اصطلاحات اور جذباتیت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے رپورٹ بنانا بہت مشکل امر تھا لیکن قارئین کی حوصلہ افزائی نے اس کو ممکن کر دکھایا۔ کرک نامہ کی جانب سے بنائی گئی اسپاٹ فکسنگ مقدمے کی کارروائی کی خبریں دنیا بھر کے اردو اخبارات کی زینت بنیں جن میں کئی مؤقر ترین اخبارات و جرائد شامل تھے۔ یہ تمام رپورٹنگ اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور آپ اب بھی اس لنک پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اس میں روز مرہ عدالتی کارروائی کی خبریں اور تجزیے دونوں موجود ہیں۔
قیادت اور اسپاٹ فکسنگ تنازع کے علاوہ کرکٹ میدانوں سے کچھ ہٹ کر پاکستان سے ایک اور عالمی تنازع نے جنم لیا۔ جی ہاں! عالمی کپ کے بعد ریٹائرمنٹ لینے والے شعیب اختر کی ”Controversially Yours“ نے دنیا بھر خصوصاً بھارت و پاکستان میں تہلکہ مچا دیا۔ صرف فروخت کے کئی ریکارڈ قائم کرنے والی یہ کتاب ہفتوں تک پاک و ہند کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنی رہی۔ خصوصاً سچن ٹنڈولکر اور وسیم اکرم کے حوالے سے دعووں نے دونوں ملکوں میں خوب ہنگامہ کھڑا کیا لیکن اس کے باوجود اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو کتاب میں متنازع معاملات کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے گو کہ شعیب خود ہی متنازع معاملات کو اچھال کر زیادہ سے زیادہ کتاب فروخت کرنا کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے تھے لیکن کتاب میں ’دنیا کے تیز ترین گیند باز‘ کی زندگی کے ابتدائی ایام، نوجوانی کے دن، کلب اور قومی کرکٹ ٹیم میں گزارے گئے ایام، پاکستانی ڈریسنگ روم کے ماحول، ایکشن کو متنازع قرار دیے جانے کے بعد کے معاملات، 1999ء سے لے کر 2011ء کے عالمی کپ تک کی داستانیں اور شعیب کی نجی زندگی کے بارے میں بھی پڑھنے لائق مواد موجود ہے۔ کرک نامہ اس کتاب کے اردو اقتباسات اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہا ہے جو خوب مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
بہرحال، سال کی اِس تمام تر دوڑ دھوپ اور 'وننگ کمبی نیشن' کی تشکیل کے بعد پاکستان کا اصل امتحان ابھی باقی ہے یعنی کہ ٹیسٹ کےعالمی نمبر ایک انگلستان کا مقابلہ، جو اگلے ماہ متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں پاکستان کے مدمقابل ہوگا۔
انگلستان، جس نے رواں سال بھارت کو 4 ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار کر کے عالمی نمبر ایک پوزیشن پر قبضہ کیا ہے، نے پورے سال ایک بھی ٹیسٹ مقابلہ نہیں ہارا۔ گو کہ ایک روزہ مقابلوں میں انگلستان کے لیے دو مواقع بہت مایوس کن رہے ایک تو عالمی کپ میں بری طرح شکست، جہاں اسے آئرلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی دو میچز میں اپ سیٹ شکستیں ہوئیں، دوسرا بھارت کے خلاف 4 ایک روزہ مقابلوں میں وائٹ واش کی ہزیمت۔ لیکن ٹیسٹ میں وہ ’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘ بنا رہا۔ اس لیے پاکستان کے لیے یہ سیریز بہت بڑا چیلنج ہوگی۔ سیریز کی اہمیت اِس لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ یہ اسپاٹ فکسنگ تنازع کے سامنے آنے کے بعد پہلا پاک-انگلستان ٹکراؤ ہے۔ اس لیے جذبات بھی اپنے عروج پر ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے لیے سال 2012ء میں کیا ہے؟ اگر وہ پہلے ہی مرحلے پر انگلستان کو زیر کرنے، یا کم از کم ٹف ٹائم دینے، میں کامیاب ہوتا ہے تو امید ہے کہ وہ ایشیا کپ، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور دورۂ آسٹریلیا جیسے اہم مقابلوں میں بھی کارہائے نمایاں انجام دے گا۔ سال 2012ء کے لیے کرک نامہ کی نیک خواہشات پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے!!