زندگی کا بدترین دن، 99ء کے عالمی کپ کا فائنل
1999ء، ورلڈ کپ کا سال۔ میں انتہائی مثبت ذہن اور رویے کے ساتھ انگلستان پہنچا۔ میری فارم اپنے عروج پر تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں ٹیم میں اپنے ساتھیوں کو یہ کہتا تھا کہ دیکھنا! یہ ٹورنامنٹ میرا ہوگا۔ وہ اسے میرے غرور و تکبر کی علامت سمجھتے لیکن میں اسے اپنے آپ پر بھروسہ اور خود اعتمادی سمجھتا تھا۔ رفتار اور چابکدستی میرے لیے اللہ کی دین تھی۔ میں صرف ایک تیز گیند باز نہیں تھا، بلکہ انتہائی ذہین بھی تھا۔ میں اپنے دماغ کو استعمال کرتا اور یوں بلے باز کو با آسانی رنز نہ بنانے دیتا۔
جب ٹیم میں موجود میرے ساتھی مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے کہ یہ ٹورنامنٹ کس طرح تمہارا ہوگا، میں بتاتا کہ میری پھینکی گئی پہلی گیند ہی اتنی برق رفتار ہوگی کہ دنیا کہے گی کہ کرکٹ کی تاریخ کا تیز ترین باؤلر میدان میں آ چکا ہے۔ حسب معمول اُن کا جواب تمسخرانہ ہی ہوتا 'واقعی؟' 'ہاں، واقعی!' میں کہتا۔
برسٹل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہمارے اولین مقابلے میں میری پھینکی گئی پہلی گیند پر کیمبل لڑکھڑائے اور بمشکل گیند کی زد سے ہٹے۔ گیند نے اُن کے بلے کا کنارہ لیا اور وکٹ کیپر کے سر سے ہوتی ہوئی میدان سے باہر جا گری۔ کیمبل میرا اچھا دوست ہے اور اُس نے حواس باختہ ہوتے ہوئے میری جانب دیکھا۔ میں نے اُس سے کہا 'دوست، تم مصیبت میں پھنس گئے ہو'۔میں انتہائی بے تاب اور گرمجوش تھا، اور ہر میچ میں زبردست کارکردگی کے ساتھ بہت تیز گیند بازی کر رہا تھا۔ اس سے قبل ہر کوئی ایلن ڈونلڈ کو تیز ترین باؤلر سمجھتا۔ وہ بلاشبہ بہت عظیم گیند باز اور کھیل کے مہان سفیر تھے۔ اس بارے میں ہمارے ڈریسنگ روم میں بھی کوئی دو رائے نہیں تھی – وہ بے شک بہت اچھے تھے۔ لیکن اب ہر کوئی میری رفتار کے بارے میں بھی بات کر رہا تھا اور پھر ٹونی گریگ نے مجھے 'راولپنڈی ایکسپریس' کا نام دیا۔
اس عالمی کپ میں گیند کی رفتار ناپنے والی 'اسپیڈ گن' کا پہلی بار باضابطہ استعمال کیا گیا۔ میں نے 97، پھر 98 اور پھر 99 میل فی گھنٹہ کی رفتار کو جا لیا۔ وہ ایک خوابناک سفر تھا۔ میں نے سولہ وکٹیں حاصل کیں۔ بطور ٹیم بھی ہم اچھی کارکردگی پیش کر رہے تھے اور ہمارے باؤلر ہمارے لیے باعث فخر تھے۔ وسیم اکرم پندرہ، ثقلین سترہ، اظہر اور رزاق تیرہ، تیرہ وکٹیں لے چکے تھے۔ لیکن یہ میری رفتار اور صلاحیتیں تھیں جنہوں نے ہر کسی کی نظر میں مقام بنایا۔ شائقین قطاروں اور ہجوم کی صورت میں ہمارے پیچھے تھے۔
اور ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔ میں بہترین کارکردگی دکھانے والا باؤلر تھا، تو آپ تصور کر سکتے ہیں اُن میں سے کتنی لڑکیوں نے مجھے گھیرا ہوگا۔ یہ موٹر وے پر ہمارا پیچھا کرتیں اور جس ہوٹل میں ہمارا قیام ہوتا ادھر ہجوم کی صورت میں جمع ہو جاتیں، اور بغیر رکے میرے نام کے نعرے لگاتیں۔ اُف! مجھے اپنے گرد اتنی توجہ بہت پسند تھی لیکن اُس وقت میرے ذہن میں عالمی کپ ایک مرتبہ پھر پاکستان لے جانے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ اس لیے میں نے اپنی توجہ اس مقصد پر مرکوز رکھی اور اپنے کمرے تک محدود رہا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا کیونکہ میرے دروازے سے باہر ہی لڑکیوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں تھیں جو میری ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھیں۔ مجھے اس عالمی کپ کے دوران ایک بھی دن ایسا یاد نہیں ہے جب، خصوصاً مانچسٹر اور برمنگھم میں، ہمارے ہوٹل کے باہر سو سے کم لڑکیوں کا ہجوم نہ موجود ہو۔ اگر میں اپنے کمرے سے باہر جاتا، تو مجھے شبہ تھا کہ میں واپس نہ آ پاتا۔ میرے حوالے سے اُن کا رویہ کافی حد تک جارحانہ قسم کا تھا اس لیے مجھے ہر وقت اپنا دروازہ مقفل رکھنا پڑتا۔ باہر موجود شور میرے لیے بہت پریشان کن تھا اس لیے میں سونے کے لیے نیند کی گولیاں استعمال کرتا تاکہ میں صبح تک اچھی طرح آرام کر سکوں۔
یہ موسم گرما کے شاندار ایام تھے۔ 'راولپنڈی ایکسپریس' نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی اور پاکستان اپنے تمام اہم مقابلے جیتتے ہوئے فائنل میں پہنچ چکا تھا۔ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند بازوں میں سے ایک تھا اور ذرائع ابلاغ نے تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ ٹورنامنٹ میرا ہے۔ فائنل سے قبل کی رات میں آنے والی صبح کے بارے میں سوچتا ہوا بستر پر لیٹا۔ میں نے فتح کی سرمستی کا تصور کیا، جیت کے بعد میدان کا چکر لگانے کے خیالات دماغ میں لایا – میں جیت کے بارے میں سوچ کر اس سے لطف اٹھاتا رہا۔ لیکن جو کچھ اگلے روز ہوا اگر اسے الفاظ میں سمویا جائے تو وہ دل شکستہ و افسوسناک تھا۔
ابتداء ہی سے تمام چیزیں ہمارے خلاف گئیں۔ وسیم نے ٹاس جیتا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ بعد میں باؤلنگ کرنا ایسا فیصلہ تھا جس کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا تھا۔ ہمیں وکٹ کو اور زیادہ سمجھنے کی ضرورت تھی اور پہلے گیند بازی کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کی بیٹنگ یکدم زوال کا شکار ہو جانے کے باعث جانی جاتی ہے اور اس مقابلے میں بھی ایسا ہی ہوا – ہم 132 پر آل آؤٹ ہو گئے۔ ایک حقیر سا اسکور جس کا دفاع کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ ہمیں آسٹریلیا کو روکنے کے لیے اسکور بورڈ پر 200 سے 230 رنز کی ضرورت تھی۔
یہ ایک تباہ کن شکست تھی اور ہم آزردہ و بے حال ڈریسنگ روم میں واپس لوٹے۔ جہاں اتنی خاموشی تھی کہ ہماری سانسوں کی آواز بھی ایک دوسرے کو آ رہی تھی۔ زیادہ تر کھلاڑیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ڈریسنگ روم میں ماحول بہت غمزدہ و جذباتی تھا۔
میرا دل ٹوٹ چکا تھا۔ ہم موقع گنوا چکے تھے اور پاکستان میں عالمی کپ واپس لانے کا میرا خواب چکناچور ہو چکا تھا۔ میرے لیے سانس لینا بھی محال تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد منزل سے محض ایک قدم کے فاصلے پر یعنی فائنل میں شکست کھانا میرے اور دیگر جونیئر کھلاڑیوں کے لیے تو برداشت سے باہر تھا۔ آپ جیتتے بھی ہیں اور ہارتے بھی ہیں، یہی کھیل کا حصہ ہے، لیکن ایسے موقع پر عالمی کپ ہارنا ہمارے لیے دنیا ختم ہونے کے برابر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اس بارے میں سوچتا رہا کہ ایسا کیا غلط ہوا؟ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟
کوئی بھی ڈریسنگ روم سے باہر نہیں نکلنا چاہتا تھا۔ کس منہ سے باہر جائیں؟ ہم محسوس کر رہے تھے کہ ہم پورے پاکستان کو مایوس کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ہم صرف 132 پر ڈھیر ہو گئے – اگر ہم کچھ اور رنز بنا لیتے ، تو کم از کم کچھ جدوجہد تو کر لیتے لیکن ہماری بلے بازی کی کارکردگی نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا۔ ہم نے ایک دھماکے کے ساتھ ٹورنامنٹ کا آغاز کیا اور روتے بسورتے ہوئے باہر ہو گئے۔ ہم ڈریسنگ روم میں ہی موجود رہے اور باہر سے بھی کوئی ہمیں پوچھنے نہیں آیا، شاید اُنہیں بھی اندازہ تھا کہ یہ ہمارے لیے کتنا سخت مرحلہ تھا۔ یہ میری زندگی کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا۔
(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)