مثبت ڈوپ ٹیسٹ اور کرب و ابتلا کے ایام

2 1,032

سال کے اختتام پر ہم چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے بھارت روانہ ہوئے۔ حسب معمول جے پور میں بھارتی شائقین نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا زبردست استقبال کیا، جو آفریدی، میرے اور چند دیگر کھلاڑیوں کے خصوصی پرستار تھے۔ ہم نے وہاں زبردست وقت گزارا، باہر گئے، مزیدار کھانے کھائے، شہرت کے مزے لوٹے، اور خاص طور پر بالی ووڈ کی اداکاراؤں سے ملنے والی توجہ کی تو کیا ہی بات تھی۔ میں ان دنوں بہترین باؤلنگ کر رہا تھا اور سب کچھ اچھا چل رہا تھا کہ اچانک ایک صبح جاگنے پر کھلاڑیوں میں یہ خبر گردش کرتی پائی کہ غیر قانونی ادویات کے استعمال پر میرا ٹیسٹ مثبت ثابت ہوا ہے۔ میں اور محمدآصف ڈوپ ٹیسٹ میں ناکام ہوگئے تھے۔ ہمیں فوراً ہی وطن واپس بلا لیا گیا اور پھر مصیبت و ابتلا کے ایک اور دور کا آغاز ہو گیا۔

شعیب اختر (تصویر: AFP)

غالباً نسیم اشرف (چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ) خبر کے منظر عام پر آنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے دوست آغا اکبر سے بات کی، جو معروف پاکستانی اخبار 'دی نیشن' کے اسپورٹس ایڈیٹر تھے۔ قضیے کے بعد سامنے آنے والے پہلے بیان میں نسیم اشرف نے کہا کہ یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا اندرونی معاملہ ہے اور آئی سی سی کی جانب سے کسی مداخلت کے بغیر وہ اِس معاملے کو خود سلجھائیں گے۔ میں اس بیان سے بہت متاثر ہوا – وہ ٹھیک کر رہے تھے۔کیونکہ اگر معاملہ آئی سی سی کے پاس جاتا تو ہو سکتا تھا وہ ہم پر تاحیات پابندی عائد کر دیتا۔

اس پریشان کن صورتحال پر تو چند لوگ، توقعات کے عین مطابق، بہت زیادہ خوش تھے۔ انتخاب عالم ایسے ہی 'خیر خواہوں' میں سے ایک تھے۔ وہ ہمارے مینیجر تھے اور ڈوپ ٹیسٹ کے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ اور انہوں نے پکے بندوبست کیے کہ میں اس معاملے میں ذلیل ہو جاؤں۔ سماعت کے دوران وہ مجھے آنکھیں مارتے اور سرگوشی میں کہتے 'خیر ہے، خیر ہے یار، کچھ نہیں ہوگا۔' حتیٰ کہ ایک وقفے کے دوران وہ غسل خانے جاتے ہوئے آخر تک میرے ساتھ بھی رہے، صرف یہ یقین دلانے کے لیے میرا مقدمہ مضبوط ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بے رحمانہ انداز میں میری پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے تھے، اور میرے حوالے سے غلط معلومات پھیلا رہے تھے۔ ایک طرف مجھے یقین دہانیاں کرتے اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ میں میرے خلاف گفتگو کرتے، انہوں نے میرے بارے میں مضحکہ خیز باتیں کیں جیسا کہ 'ادویات کی وجہ سے، اور کیونکہ شعیب بہت متحرک جنسی زندگی رکھتے ہیں اس لیے، اُن کے testosteroneکی سطح بہت زیادہ ہے ۔' اس بات میں مسالہ شامل کرنے کے لیے انہوں نے یہ تک کہہ ڈالا کہ 'یہ بات میں نے (یعنی شعیب نے) اُنہیں خود بتائی ہے!' یار! کس طرح کا آدمی ہے یہ؟

لیکن میری پریشانی کا اصل سبب انتخاب عالم نہیں تھا۔ میں نے ایک ٹریبونل اور ایک انتہائی سنگین الزام کا سامنا کرنا تھا۔ نینڈرولون ایک انتہائی متنازع مادہ ہے اور اس کا استعمال سختی سے ممنوع ہے، حالانکہ یہ تمام کھیلوں – بشمول ٹینس اور کرکٹ میں – میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک روغنی مادّہ ہے جو جوڑوں کو چکنا کرتا ہے، یہ آپ کے پٹھوں کو ہم آہنگ کرنے اور زخموں کو بھرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ مایع پروٹین ڈائٹ پرومیکس 50، ٹی بی بم IIیا وائپر جیسی اشیا کے استعمال سے آپ کے جسم میں اِس کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔ میں اپنے پٹھوں کو مضبوط کرنے کے لیے سالوں سے لحمیاتی متبادل استعمال کرتا آ رہا تھا تاکہ وہ میرے جوڑوں کا ساتھ دیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نینڈرولون کی قدرتی پیداوار میں اضافہ کر دیا۔ میرے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو صرف یہی تھا۔

ٹریبونل کی صدارت عدالت عالیہ کے ریٹائرڈ جج معین افضل کر رہے تھے اور انہوں نے سماعت کے دوران اس بات کو یقینی بنایا کہ سب کو مطمئن کرنے کے لیے وہ مجھے جی بھر کر ذلیل کریں۔ مجھے راہداری میں تین گھنٹے تک باہر بٹھایا گیا اور لوگ آتے جاتے میری طرف عجیب نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ کسی نے مجھ سے پانی کا ایک گلاس تک نہیں پوچھا۔ وہ لوگ کس قدر سنگدل ہو سکتے ہیں؟ اگر کوئی پی سی بی کے ہاتھوں میں آتا ہے، تو وہ جانتا ہے کہ اسے کس طرح ختم کرنا ہے – وہ سوچتے ہیں مار ڈالو سالے کو۔ ایک اسٹار پھنس گیا ہے، بے عزتی کرو اس کی۔ میں مشکل میں تھا، اس لیے مجھے یہ سب کچھ سہنا تھا۔ معاملہ بگڑتا چلا گیا اور بالآخر مجھ پر دو سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔ حیران کن طور پر آصف، جسے انہی الزامات کا سامنا تھا، ایک سال کی پابندی کا شکار ہوا۔ یعنی یکساں الزام کے لیے مختلف سزائیں!

میرے پاس فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے پندرہ دن کا وقت تھا۔ میں نے سوچا، چلو کوشش کرتے ہیں اور بورڈ پر کچھ سیاسی دباؤ ڈالتے ہیں۔

میرے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک انتہائی با اثر شخصیت رہتی تھی۔ میں اُن کا نام نہیں لوں گا لیکن وہ پاکستان میں انتہائی طاقتور شخصیت ہے، جس کے صدر اور ہر شخص سے قریبی مراسم ہیں۔ میں نے انہیں فون کھڑکایا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 'جناب! میری مدد کریں۔ مجھے اس مصیبت سے نکالنے میں مدد دیں۔'

انہوں نے کہا میرے گھر آؤ۔

میری فوری طور پر گاڑی دوڑاتا اُن کے گھر جا پہنچا اور دروازے پر گاڑی کھڑی کی۔ گارڈ آیا اور کہا کہ پہلے مجھے انٹرکام پر اپنی شناخت کرانی ہو گی، میں گاڑی سے باہر آیا، انٹرکام اٹھایا اور کہا 'سلام بھیا'۔ جواب میں مجھ پر گالیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ میں یکدم سناٹے میں آ گیا اور بولا 'معاف کیجیے گا سر، آپ نے مجھے گالیاں ہی دینی دینی تھیں جو فون پر ہی دیتے۔'

ان کی مغلظات جاری رہیں اور انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مجھے اغوا کرنے کے لیے لوگ بھیجیں گے۔ میں غصے سے لال پیلا ہو گیا اور بالآخر پھٹ پڑا، 'ابے او کمینے، ابھی کر کے دکھا۔ میں مدد کے لیے آیا تھا اور تو نے مجھے اپنے دروازے پر گالیاں دینے کے لیے بلایا – یاد رکھنا!'

وہ اندر سے مغلظات بکتا رہا اور میں سڑک پر کھڑا اُن کے جوابات دیتا رہا۔

مجھے معلوم تھا کہ مجھے نقصان پہنچانا اتنا آسان نہیں– میں پاکستان بھر میں بہت مشہور تھا۔ لیکن مجھے ذلت کا شدید احساس ہوا – دل کی گہرائی تک۔ میں پلٹا اور پیدل ہی گھر کی جانب چلنے لگا۔ میرے ڈرائیور رمضان نے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا تو میں چیخا 'اپنا منہ بند رکھو'۔ چہرے پر ذلت کے احساس سے امنڈنے والے آنسوؤں سے بے خبر سڑک پر چلتا ہوا، یہ میں تھا شعیب اختر، گاڑی میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ لوگ ضرور رُکے ہوں گے اور میری جانب گھورتے ہوئے دیکھا ہوگا لیکن میں اپنی ذات میں اتنا محو تھا کہ میں نے اُن کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔ کچھ لوگوں نے گاڑیاں روکیں، بولے، آپ کو لفٹ چاہیے کیا؟؛ کچھ نے غلط باتیں بھی کیں۔ وہ جانتے تھے کہ میں مسئلے سے دوچار تھا، ایک برے وقت سے گزر رہا تھا۔ بالآخر رمضان گاڑی سے باہر نکلا اور بولا 'سر، میں جانتا ہوں کہ آپ اکیلے رہنا چاہتے ہیں لیکن مجھے اپنے ساتھ پیدل چلنے دیجیے۔' اس مسئلے میں پھنسنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے خود کو رونے دیا، اور ضبط نہ کر پایا۔ مجھے یاد ہے کہ رمضان آہستگی سے یہ بولتا رہا، 'سر، آپ بہت مضبوط آدمی ہیں، جانےدیجیے۔' میں بولا 'نہیں، آج انہوں نے میرے دل میں آگ لگائی ہے۔' مجھے اپنے ضبط پر قابو پانے کے لیے پیدل چلنے کی ضرورت تھی، تاکہ میں سمجھ سکوں کہ کیا ہو چکا ہے، اور اب مجھے کس سمت میں جانا ہے۔ جب میں گھر پہنچا تو سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا اور پھر وہی کیا جو میں دل شکستگی کے ایسے عالم میں کیا کرتا ہوں۔ جی ہاں! میں سو گیا اور یوں اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام تر ہولناک واقعات سے بے نیاز ہو گیا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)