رمیز راجہ کی نئی مہم، واٹمور کی تقرری پر ناراض کھلاڑیوں کو راضی کریں گے
پاکستان کے ممکنہ نئے کوچ ڈیو واٹمور کی تقرری پر پاکستان کے چند سینئر کھلاڑیوں کے تحفظات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ سری لنکا کے چند سابق کھلاڑیوں کے کہنے پر پاکستانی کرکٹرز ماضی میں بھی واٹمور کی تقرری پر چیں بہ چیں ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اُس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ نے جیف لاسن کو کوچ مقرر کیا تھا اور واٹمور کو لاہور میں انٹرویو کے باوجود منتخب نہیں کیا گیا۔ بہرحال، اس مرتبہ معاملہ مختلف ہے۔ وقار یونس کے استعفے کے بعد سے کرکٹ بورڈ کے عہدیداران کا واضح جھکاؤ کسی غیر ملکی کوچ کی جانب ہے اور اس سلسلے میں واٹمور کے علاوہ آسٹریلیا کے ڈین جونز نے بھی درخواست جمع کروائی تھی۔ ڈین جونز تو پاکستان کی کوچنگ کے اس قدر خواہشمند تھے کہ انہوں نے ایک بیان تک داغ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوچنگ سخت چیلنج ہے لیکن وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہیں۔
بہرحال، اس مرتبہ بھی واٹمور کے لیے معاملہ اتنا آسان نہیں رہا، جو اپنی سخت گیر طبیعت کے باعث سری لنکا اور پھر بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں میں کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتے لیکن اُن کے زیر نگیں سری لنکا اور بنگلہ دیش نے جتنی عمدہ فتوحات حاصل کیں ، وہ واٹمور کی کارکردگی کی عکاس ہیں۔ لیکن پاکستان کے نازک طبع کھلاڑی کہاں سختی برداشت کر پاتے؟ انہوں نے واٹمور کی تقرری سے پہلے ہی درون خانہ ان کی اس قدر مخالفت کی کہ بورڈ کو بادل نخواستہ جیف لاسن کو ہی منتخب کرنا پڑا۔ لیکن اعجاز بٹ کے دور میں 'پلیئر پاور' کے خاتمے کے دعووں کے بعد تو گویا بورڈ نے ٹھان لی کہ اس مرتبہ کوچ غیر ملکی ہی ہوگا اور آنے والے نئے چیئرمین ذکا اشرف بھی اسی پالیسی کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔
جب نئے کوچ کی تلاش کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تو اس کمیٹی کی معاونت کے لیے ماضی کے کپتان اور موجودہ تبصرہ نگار رمیز راجہ کو منتخب کیا گیا، جو اس امر کی جانب واضح اشارہ تھا کہ پاکستان غیر ملکی کوچ منتخب کرے گا۔ رمیز راجہ غیر ملکی حلقوں میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں، جس کی سب سے اہم وجہ تو ان کی ملازمت کی نوعیت ہے، جس کے سلسلے میں انہیں کئی غیر ملکی سابق و موجودہ کھلاڑیوں اور کوچز سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رمیز راجہ نے کمیٹی کی معاونت میں غیر ملکی امیدواروں کو قائل کیا کہ وہ پاکستان کے لیے کوچنگ کریں اور اب جبکہ واٹمور کی تقرری کے لیے میدان مکمل طور پر صاف ہو چکا ہے، انہیں ایک آخری مہم پر روانہ کیا جا رہا ہے اور وہ ہے پاکستان کے ان ناراض کھلاڑیوں کو منانا جو ایک سخت گیر کوچ کی آمد سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔
واٹمور کی ممکنہ تقرری پر ناک بھوں چڑھانے والے کھلاڑیوں میں ماضی کی طرح قومی کرکٹ ٹیم کے چند سینئر کھلاڑی ہی شامل ہیں اور اب رمیز راجہ کا کام ہے کہ وہ انگلستان کے خلاف سیریز کے دوران نہ صرف کمنٹری کریں بلکہ فارغ اوقات میں ٹیم کے اس 'ناراض حلقے' کو بھی منائیں تاکہ وہ نئے کوچ کی راہ میں مزید رکاوٹ نہ بنیں اور وہ انگلستان کے خلاف سیریز کے خاتمے پر اپنی ذمہ داریاں بہ احسن و خوبی نبھا سکیں۔
رمیز راجہ 2003ء سے 2004ء تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے سی ای او رہ چکے ہیں اور یوں قومی کرکٹ کے کرتا دھرتا حلقوں میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی اس اہم مہم میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔