ملتان سے ابوظہبی تک!

پاکستان کرکٹ چاہے زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں چلی جائے لیکن اس میں ایک خاص بات ضرور ہے، اس میں مزاحمت اور جوابی حملے کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کئی مرتبہ میچ محض اپنی گیند بازی کی بدولت ہارے ہوئے مقابلے جیتے ہیں جن میں سے ایک یادگار مقابلہ آج سے تقریباً 6 سال قبل ملتان میں کھیلا گیا جب ایشیز کا تاج سر پر سجانے والا انگلستان اپنی طاقتور ٹیم کے ساتھ پاکستان پہنچا تھا۔ نجانے کیوں ابوظہبی میں پاکستان کی فتح کے بعد ملتان ٹیسٹ میرے ذہن میں بہت زیادہ گردش کر رہا ہے 🙂
جن دنوں میں آسٹریلیا کو ہرانا ایک خواب سمجھا جاتا تھا، انہی ایام میں عالمی چیمپئن اور ٹیسٹ کے عالمی نمبر ایک کو زیر کرنے کے بعد انگلش ٹیم ساتویں آسمان پر اُڑ رہی تھی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی سرزمین پر پہلے ہی ٹیسٹ میں انگلستان کو اپنی اوقات کا اندازہ ہو گیا۔ بالکل اس طرح جس طرح متحدہ عرب امارات میں سیریز کے ابتدائی دونوں مقابلوں میں اسے حیثیت کا ادراک ہوا ہے کہ وہ تب تک حقیقی عالمی نمبر ایک نہیں بن سکتا جب تک دنیا بھر میں کارکردگی پیش نہ کرے۔ جیسا کہ ماضی میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے ہوم گراؤنڈز پر بلکہ تمام ٹیموں کو خود ان کے میدانوں میں جا کر زیر کیا اور نمبر ون ٹیم بننے کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔
نومبر 2005ء میں ملتان میں کھیلے گئے پاک-انگلستان یادگار مقابلے میں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 22 رنز سے فتح حاصل کی تھی اور یہ میچ کئی شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہوگا۔ جی ہاں! شعیب اختر، دانش کنیریا اور پاکستان کے دیگر باؤلرز کی یادگار کارکردگی کون بھول سکتا ہے؟ کم از کم اینڈریو اسٹراس، این بیل اور کیون پیٹرسن تو ہر گز نہیں، جو ابوظہبی کی طرح ملتان کی شکست خوردہ ٹیم کا بھی حصہ تھے۔
مذکورہ سیریز میں پاکستانی ٹیم اپنے عروج پر دکھائی دی، جس نے نہ صرف ٹیسٹ بلکہ ایک روزہ دونوں سیریز میں انگلستان کو چاروں شانے چت کیا۔ تاہم سیریز میں فتوحات کی بنیاد ملتان میں باؤلرز کی شاندار کارکردگی نے رکھی، جس کی بدولت پاکستان کو وہ نفسیاتی برتری ملی جس کے ذریعے اس نے ہر طرز کے کھیل میں انگلستان کو آؤٹ کلاس کیا۔
ملتان میں ٹاس جیت کر پہلی اننگز میں پاکستانی کی بیٹنگ توقعات کے مطابق نہ چلی لیکن سلمان بٹ کے 74 اور کپتان انضمام الحق کے 53 رنز کی بدولت پاکستان نے 274 رنزکا اسکور بنایا۔ جواب میں انگلستان نے مارکوس ٹریسکوتھک کے 193 اور این بیل کے 71 رنز کے ذریعے 418 رنز کا زبردست مجموعہ اکٹھا کر لیا یعنی پاکستان پر 144 رنز کی بھاری برتری۔
اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں مجرم قرار دیے جانے کے بعد آجکل انگلستان کے جیل خانے میں قید کے ایام گزارنے والے سلمان بٹ اُن دنوں اپنی بھرپور فارم میں تھے جنہوں نے دوسری اننگز میں بھی عمدہ بلے بازی کی اور 122 رنز کی بہترین اننگز کھیلی۔ اس مرتبہ بھی 72 رنز کے ساتھ کپتان انضمام الحق نے پاکستانی اننگز کو سنبھالا دیا لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان اسکور بورڈ پر 341 رنز ہی جمع کر پایا اور انگلستان کو میچ جیتنے کے لیے صرف 198 رنز کا ہدف ملا۔
لیکن اس آسان ہدف کے جواب میں پاکستان نے ایک اینڈ سے محمد سمیع اور شعیب اختر کی برق رفتار گیندوں اور دوسرے اینڈ سے دانش کنیریا کی تباہ کن اسپن باؤلنگ کی بدولت انگلستان کی اننگز کو 175 رنز پر تمام کر دیا اور مقابلہ سنسنی خیز معرکہ آرائی کے بعد صرف 22 رنز سے جیت لیا۔ یہ انگلستان کے خلاف پاکستان کے سخت ترین مقابلوں میں سے ایک تھا۔
پاکستان کے کپتان انضمام الحق نے اس وقت اسے اپنے کیریئر کی بہترین فتوحات میں سے ایک قرار دیا تھا۔ جبکہ پاکستان کے کوچ باب وولمر نے کہا کہ انہیں اس وقت تک فتح کا یقین نہیں آیا جب تک انگلستان کی آخری وکٹ نہیں گری۔ انضمام اور وولمر کے اس جوڑ نے پاکستان کو کئی دیگر یادگار فتوحات سے بھی نوازا تھا جن میں 2005ء میں بھارت کے خلاف بنگلور ٹیسٹ میں فتح اور دیگر کئی یادگار فتوحات شامل ہیں۔ لیکن 2007ء کے عالمی کپ میں انضمام الحق کی ریٹائرمنٹ اور باب وولمر کی افسوسناک موت نے پاکستان کو شدید مسائل سے دوچار کر دیااور تین سال تک یکے بعد دیگرے تنازعات میں پڑنے کے بعد اب مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستان ایک مرتبہ پھر راکھ سے جلوہ گر ہو رہا ہے۔
ویسے کتنی مماثلت ہے ابوظہبی اور ملتان کی فتوحات میں؟ وہاں بھی پاکستان بیشتر وقت جدوجہد کرتا رہا اور بالآخر ایک ہی دن کے عمدہ کھیل نے اسے فتح سے نواز دیا اور ابو ظہبی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اپنے پسندیدہ میدان میں دبئی میں کیا کرتا ہے، جہاں سیریز کا تیسرا ٹیسٹ 3 فروری سے شروع ہو رہا ہے ۔ دبئی اسپورٹس سٹی میں پاکستان آج تک کوئی ٹیسٹ مقابلہ نہیں ہارا اور جاری سیریز کا پہلا معرکہ بھی پاکستان نے اسی میدان میں با آسانی جیتا تھا۔
پاکستان بمقابلہ انگلستان، پہلا ٹیسٹ
12 تا 16 نومبر 2005ء
بمقام: ملتان کرکٹ اسٹیڈیم، ملتان، پاکستان
نتیجہ: پاکستان 22 رنز سے فتحیاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: سلمان بٹ
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
شعیب ملک | ایل بی ڈبلیو ب فلنٹوف | 39 | 71 | 5 | 0 |
سلمان بٹ | ک جونز ب یوڈل | 74 | 183 | 11 | 0 |
یونس خان | ایل بی ڈبلیو ب ہارمیسن | 39 | 106 | 5 | 0 |
محمد یوسف | ب فلنٹوف | 5 | 7 | 1 | 0 |
انضمام الحق | ک اسٹراس ب فلنٹوف | 53 | 97 | 4 | 1 |
حسن رضا | ب ہارمیسن | 0 | 4 | 0 | 0 |
کامران اکمل | ک ٹریسکوتھک ب ہوگارڈ | 28 | 76 | 2 | 0 |
محمد سمیع | ک جونز ب ہوگارڈ | 1 | 13 | 0 | 0 |
شعیب اختر | ناٹ آؤٹ | 10 | 27 | 1 | 0 |
شبیر احمد | ب فلنٹوف | 0 | 5 | 0 | 0 |
دانش کنیریا | ک جائلز ب ہارمیسن | 6 | 12 | 1 | 0 |
فاضل رنز | ب 1، ل ب 7، ن ب 11 | 19 | |||
مجموعہ | 98.2 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 274 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
میتھیو ہوگارڈ | 22 | 4 | 55 | 2 |
اسٹیو ہارمیسن | 16.2 | 5 | 37 | 3 |
اینڈریو فلنٹوف | 23 | 6 | 68 | 4 |
پال کولنگ ووڈ | 4 | 1 | 15 | 0 |
ایشلے جائلز | 16 | 3 | 44 | 0 |
شان یوڈل | 17 | 3 | 47 | 1 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
مارکوس ٹریسکوتھک | ک کامران ب شبیر | 193 | 305 | 20 | 2 |
اینڈریو اسٹراس | ایل بی ڈبلیو ب سمیع | 9 | 14 | 2 | 0 |
این بیل | ک سلمان ب شعیب ملک | 71 | 161 | 5 | 0 |
پال کولنگ ووڈ | ک کامران ب شبیر | 10 | 34 | 1 | 0 |
میتھیو ہوگارڈ | ک کامران ب شعیب اختر | 1 | 22 | 0 | 0 |
کیون پیٹرسن | ک سلمان ب دانش | 5 | 7 | 1 | 0 |
اینڈریو فلنٹوف | ک شعیب ملک ب شعیب اختر | 45 | 79 | 7 | 0 |
گیرنٹ جونز | ب شبیر | 22 | 30 | 4 | 0 |
ایشلے جائلز | ک حسن رضا ب شبیر | 16 | 25 | 3 | 0 |
شان یوڈل | ایل بی ڈبلیو ب شعیب اختر | 0 | 4 | 0 | 0 |
اسٹیو ہارمیسن | ناٹ آؤٹ | 4 | 5 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 8، ل ب 11، و 1، ن ب 22 | 42 | |||
مجموعہ | 110.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 418 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
شعیب اختر | 27 | 2 | 99 | 3 |
محمد سمیع | 16 | 1 | 76 | 1 |
شبیر احمد | 22.4 | 7 | 54 | 4 |
دانش کنیریا | 27 | 4 | 106 | 1 |
شعیب ملک | 18 | 1 | 64 | 1 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
شعیب ملک | ک ٹریسکوتھک ب ہارمیسن | 18 | 21 | 2 | 0 |
سلمان بٹ | ک جونز ب ہوگارڈ | 122 | 256 | 12 | 0 |
یونس خان | ک ٹریسکوتھک ب فلنٹوف | 48 | 78 | 6 | 0 |
محمد سمیع | ک جونز ب فلنٹوف | 3 | 10 | 0 | 0 |
انضمام الحق | ایل بی ڈبلیو ب ہوگارڈ | 72 | 147 | 8 | 0 |
محمد یوسف | ک بیل ب فلنٹوف | 16 | 13 | 4 | 0 |
حسن رضا | ک ٹریسکوتھک ب فلنٹوف | 1 | 14 | 0 | 0 |
کامران اکمل | ک پیٹرسن ب ہارمیسن | 33 | 54 | 5 | 0 |
شعیب اختر | ک بیل ب جائلز | 11 | 46 | 1 | 1 |
شبیر احمد | ک جونز ب ہارمیسن | 0 | 1 | 0 | 0 |
دانش کنیریا | ناٹ آؤٹ | 1 | 5 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ل ب 1، ن ب 10 | 16 | |||
مجموعہ | 105.5 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 341 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
میتھیو ہوگارڈ | 27 | 2 | 81 | 2 |
اینڈریو فلنٹوف | 25 | 3 | 88 | 4 |
اسٹیو ہارمیسن | 19.5 | 3 | 52 | 3 |
شان یوڈل | 12 | 1 | 47 | 0 |
ایشلے جائلز | 22 | 2 | 67 | 1 |
![]() | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
مارکوس ٹریسکوتھک | ب شبیر | 5 | 11 | 0 | 0 |
اینڈریو اسٹراس | ک حسن ب دانش | 23 | 61 | 2 | 0 |
این بیل | ک کامران ب دانش | 31 | 45 | 2 | 1 |
پال کولنگ ووڈ | ایل بی ڈبلیو ب سمیع | 3 | 5 | 0 | 0 |
کیون پیٹرسن | ک کامران ب سمیع | 19 | 29 | 1 | 1 |
اینڈریو فلنٹوف | ک یونس ب دانش | 11 | 14 | 2 | 0 |
گیرنٹ جونز | ب شعیب اختر | 33 | 75 | 1 | 0 |
ایشلے جائلز | ب شعیب اختر | 14 | 28 | 2 | 0 |
شان یوڈل | ب دانش کنیریا | 18 | 42 | 2 | 0 |
میتھیو ہوگارڈ | ناٹ آؤٹ | 0 | 3 | 0 | 0 |
اسٹیو ہارمیسن | ک یونس ب شعیب اختر | 9 | 5 | 2 | 0 |
فاضل رنز | ب 6، ل ب 1، ن ب 2 | 9 | |||
مجموعہ | 52.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 175 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
شعیب اختر | 12.4 | 1 | 49 | 3 |
شبیر احمد | 10 | 0 | 25 | 1 |
دانش کنیریا | 20 | 0 | 62 | 4 |
محمد سمیع | 9 | 0 | 31 | 2 |
شعیب ملک | 1 | 0 | 1 | 0 |