گرین واش: پاکستان 3، انگلستان 0
گزشتہ ماہ کے وسط میں پاک-انگلستان سیریز کے آغاز سے قبل بھلا کسی نے تصور بھی کیا ہوگا کہ پاکستان عالمی نمبر ایک کے خلاف کلین سویپ کرے گا؟ تنازعات، داخلی سازشوں، نا اہل انتظامیہ اور دنیا میں سب سے کم پیسے ملنے کے باوجود پاکستان نے غیر ممکنات کو ممکن کر دکھایا اور اس مشن کو مکمل کیا جو وہ آج سے 7 سال پہلے 2005ء میں مکمل نہ کر پایا تھا یعنی کہ انگلستان کو سیریز کے تمام ٹیسٹ مقابلوں میں شکست دینا۔ یہ پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ اس نے انگلستان کے خلاف کسی سیریز کے تمام مقابلے اپنے نام کیے ہوں۔
ویسے 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ تنازع کی دلدل میں دھنسنے کے بعد جب مصباح الحق کو کپتان بنا کر ٹیم از سر نو تشکیل دی گئی تھی تو کسی نے تصور نہیں کیا ہوگا کہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مصباح پاکستان کو دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک بنا دیں گے۔ اس لیے فتح کا سب سے پہلا کریڈٹ 15 مقابلوں میں 9 فتوحات اور صرف ایک شکست اور پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں کی کارکردگی کے قریب پہنچنے والے مصباح الحق کو جانا چاہیے۔ جنہوں نے مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی ٹیم کے حوصلوں کو بلند رکھا اور خود بھی اچھی کارکردگی دکھا کر مثال پیش کی۔
دبئی کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں، جہاں پاکستان کو کبھی کسی مقابلے میں شکست نہیں ہوئی، ہونے والے تیسرے و آخری ٹیسٹ میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ ایک جانب جہاں پاکستان پہلی اننگز میں 99 رنز پر آل آؤٹ ہوا تو دوسری اننگز میں انہی قومی بلے بازوں نے 365 رنز کا بڑا مجموعہ اکٹھا کر لیا اور بلے بازوں کی مسلسل ناکامیوں سے بے حال انگلستان کو 324 رنز کا مشکل ہدف دیا جس کے تعاقب میں وہ چوتھے روز 252 رنز پر ڈھیر ہو گیا اور پاکستان کو ایک تاریخی کامیابی سے نواز گیا۔ اس وکٹ نے بھی کیا عجیب و غریب نظارے پیش کیے؟ جہاں ایک جانب پہلے دن 16 وکٹیں گریں، بالکل اسی وکٹ اگلے روز یہ عالم تھا کہ دوسرے روز کے اختتام پر 222 پر پاکستان کی صرف دو وکٹیں گری تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اظہر علی اور یونس خان نے پچ کو سمجھ کر کھیلا اور حریف بلے بازوں کو دکھایا کہ اس وکٹ پر کھیلنے کے لیے کون سی تکنیک سب سے بہتر ہے۔
یہ ٹیسٹ میں کرکٹ کی تاریخ کے کمیاب ترین مواقع میں سے ایک تھا جب کوئی ٹیم پہلی اننگز میں 100 رنز سے قبل آؤٹ ہونے کے باوجود جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہو۔ آخری مرتبہ 1907ء میں انگلستان نے جنوبی افریقہ کو ہرا کر یہ کارنامہ انجام دیا تھا یعنی کہ 100 سے زائد سالوں کے عرصے سے دنیا کی کوئی بھی ٹیم ایسی نہ تھی جو پہلی اننگز میں اتنا کم مجموعہ اکٹھا کرنے کے باوجود جیت جائے لیکن ایک جانب پاکستانی باؤلرز نے پہلی اننگز میں انگلستان کو 141 رنز پر آل آؤٹ کر کے اسے بڑی برتری لینے سے روکے رکھا تو دوسری اننگز میں انہی بلے بازوں نے بہت ہی ذمہ دارانہ کارکردگی دکھائی۔ خصوصاً اظہر علی کے 157 اور تجربہ کار یونس خان کے 127 رنز اور دونوں کے درمیان 216 رنز کی شراکت داری نے پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھی۔
یہ محض چند ماہ بعد دوسرا موقع ہے کہ کسی عالمی نمبر ایک ٹیم کو 'کلین سویپ' کی ہزیمت سہنا پڑی ہو۔ گزشتہ سال اگست میں بھارت کو دورۂ انگلستان میں میزبان ٹیم کے ہاتھوں ایسی ہی تذلیل اٹھانی پڑی تھی لیکن اب خود انگلستان کو پاکستان کے ہاتھوں اسی وائٹ واش بلکہ اگر رائج نام اختیار کیا جائے تو 'گرین واش' کو سہنا پڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عالمی درجہ بندی میں کوئی فرق رونما نہیں ہوا۔ پاکستان بدستور پانچویں نمبر پر ہے جبکہ انگلستان سرفہرست پوزیشن پر قابض ہے تاہم دونوں ٹیموں کے پوائنٹس میں نمایاں اضافہ و کمی ہوئی ہے۔
بہرحال، میچ کے چوتھے و آخری روز جب انگلستان نے 36 رنز بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے اننگز دوبارہ شروع کی تو ان کے سامنے ایک جان جوکھم میں ڈال دینے والا ہدف تھا کیونکہ ان کا سامنا تھا پاکستان کے ان اسپنرز نے جنہوں نے گزشتہ مقابلے میں انہیں صرف 72 پر ڈھیر کیا تھا۔ کپتان اینڈریو اسٹراس تو زیادہ دیر مزاحمت نہ کر پائے اور 26 رنز پر بنا کر عبد الرحمٰن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو گئے اور ٹیم کا ایک ریویو بھی ضایع کرا گئے لیکن ایلسٹر کک، جنہیں پاکستانی فیلڈرز کے ہاتھوں دو مرتبہ زندگی مل چکی تھی، نئے ساتھی جوناتھن ٹراٹ کے ساتھ خطرناک ثابت ہوتے جا رہے تھے۔ لیکن پاکستان نے کھانے کے وقفے سے قبل اس شراکت داری کو توڑ کر کچھ سکھ کا سانس لیا۔ جب ٹراٹ 18 رنز بنا کر سعید اجمل کا پہلا شکار بنے۔
پوری سیریز میں ناکام رہنے والے کیون پیٹرسن کچھ دیر تک کک کا ساتھ دینے میں کامیاب رہے لیکن سعید اجمل نے دو مسلسل اوورز میں پہلے کیون پیٹرسن کو ایک خوبصورت آف بریک گیند پر بولڈ اور کک کو یونس خان کے شاندار کیچ کی بدولت آؤٹ کرا کے میچ کو پاکستان کے حق میں کافی حد تک جھکا دیا۔ اب تک سیریز میں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہنے واے این بیل اور ایون مورگن کافی دیر جدوجہد کر کے بھی صرف 37 رنز کا اضافہ کر پائے اور عمر گل کے دو مسلسل اوورز میں بالترتیب 10 اور 31 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے اور یوں انگلستان کی موہوم سی امید کا بھی بھی خاتمہ ہو گیا۔
اسٹورٹ براڈ اور وکٹ کیپر میٹ پرائیر نے صورتحال کا اندازہ لگاتے ہوئے تیز رفتار انداز سے کھیل کر پاکستانی باؤلرز کے حوصلے توڑنے کی کوشش کی لیکن پرائیر کو دوسرے اینڈ سے بہت اچھی سپورٹ نہ مل سکی اور پاکستان نے بھی حالات کے پیش نظر 'دیوار کے کمزور حصے' پر اپنا دباؤ برقرار رکھا اور بالآخر 252 کے مجموعے پر عبد الرحمن کے ہاتھوں مونٹی پنیسر کی وکٹ نے پاکستان کی فتح پر مہر ثبت کر دی۔ میٹ پرائیر 58 گیندوں پر 49 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ دوسری اننگز میں سعید اجمل اور عمر گل نے 4،4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں عبد الرحمن کو ملیں۔
اس تاریخی فتح کا میدان میں کھلاڑیوں اور دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں نے زبردست جشن منایا۔ معروف سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر #greenwash #brownwash اور England 3-0 ٹرینڈنگ میں آئے۔
قبل ازیں پاکستان نے دوسری اننگز میں اظہر علی اور یونس خان کی یادگار کارکردگی کی بدولت 365 رنز کا زبردست مجموعہ اکٹھا کیا تھا۔ 28 رنز پر دونوں اوپنرز کو کھونے کے بعد تیسری وکٹ پر نوجوان و تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل اس جوڑی نے پاکستان کو نہ صرف مشکل صورتحال سے نکالا بلکہ ایک غالب پوزیشن پر لا کھڑا کر دیا۔ گو کہ پاکستان کی آخری 7 وکٹیں اسکور میں محض 34 رنز کا اضافہ کر پائیں، جو ایک مایوس کن امر تھا، لیکن مہمان ٹیم کو 324 رنز کا ہدف دیا جس کے لیے تاریخ شاہد تھی کہ انگلستان پاکستان کے خلاف چوتھی اننگز میں کبھی اتنا بڑا اسکور نہیں بنا پایا۔ انگلستان کی جانب سے مونٹی پنیسر ایک مرتبہ پھر کامیاب ترین باؤلر رہے جنہوں نے سیریز میں دوسری مرتبہ 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا جبکہ دوسرے اسپنر گریم سوان 3 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک، ایک وکٹ جمی اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کو ملی۔
دوسری اننگز کی حوصلہ افزا کارکردگی سے قبل پاکستان کو میچ میں واپس لانے کا تمام تر سہرا عبد الرحمن اور سعید اجمل کے سر تھا جنہوں نے پہلی اننگز میں پاکستان کے 99 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے بعد انگلستان کو بڑی برتری حاصل کرنے سے روکے رکھا۔ دراصل پاکستان نے پہلی اننگز میں ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور انگلش پیس بیٹری جمی اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کی تباہ کن گیند بازی کے سامنے محض 99 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ وجہ صبح کے وقت کنڈیشنز کا تیز گیند بازوں کے حق میں ہونا اور اس پر طرّہ پاکستانی گیند بازوں کی غلط شاٹ سلیکشن اور جلد بازی۔ اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے چھ بلے باز ایسے تھے جن کی اننگز دہرے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہو سکی۔ اگر اسد شفیق 45 رنز نہ بناتے تو عین ممکن تھا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے کم ترین اسکور پر آؤٹ ہو جاتا۔ بہرحال اتنے کم اسکور پر آؤٹ ہونے کے بعد انلستاین کے حوصلے بہت بلند ہو گئے، جس کی جانب سے اینڈرسن نے 3 اور اسٹورٹ براڈ نے 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ پنیسر کو 2 اور سوان کو ایک وکٹ ملی۔ یہ بہت خطرناک صورتحال تھی، کیونکہ کرکٹ تاریخ شاہد ہے کہ گزشتہ 100 سے زائد سالوں میں کوئی ایسی ٹیم کامیاب نہیں ہوئی جو پہلی اننگز میں اسکور کو تہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچا پائی ہو لیکن پاکستان کے باؤلرز نے پہلی انگلش اننگز میں جس طرح حریف بلے بازوں کو دن میں تارے دکھا دیئے، یوں وہ پاکستان کو نہ صرف مقابلے میں واپس لے آئے بلکہ ان کی کارکردگی سے مہمیز پاتے ہوئے قومی بلے بازوں نے بھی دوسری اننگز میں ذمہ داری دکھائی اور پاکستان کو بالادست پوزیشن پر لے آئے۔
انگلستان کی پہلی اننگز میں سوائے اینڈریو اسٹراس کے 56 اور جوناتھن ٹراٹ کے 32 رنز کے کوئی بلے باز قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکا اور پوری ٹیم 141 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ پچھلے میچ کے ہیرو عبد الرحمن نے 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ تین وکٹیں سعید اجمل اور دو وکٹیں عمر گل نے حاصل کیں۔ جب پاکستان کے بعد انگلستان کا بھی ایسا حشر ہوا تو لگتا تھا کہ میچ ڈھائی تین روز ہی میں ختم ہو جائے گا کیونکہ ڈیڑھ دن سے بھی کم کے کھیل میں 20 وکٹیں گر چکی تھیں، لیکن پاکستانی بلے بازوں نے سمجھداری کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پاکستان کو میچ میں واپس لے آئے۔
اس تاریخی سیریز میں جہاں اسپنرز کا راج رہا وہیں امپائرنگ بھی اپنے عروج پر رہی خصوصاً فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام نے انہیں کڑی آزمائش میں ڈالے رکھا لیکن فیصلے واپس لینے کا تناسب بہت کم رہا ، ساتھ ساتھ سیریز میں ریکارڈ 43 ایل بی ڈبلیوز امپائرز کی اعلیٰ اور پیشہ ورانہ کارکردگی کے عکاس ہیں۔
اظہر علی 157 رنز کی فتح گر اننگز کھیلنے پر میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جبکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز 24 وکٹیں حاصل کرنے والے سعید اجمل کو دیا گیا۔
پاکستان اگست 2010ء میں انگلستان کے خلاف 'اسپاٹ فکسنگ' سے داغدار ہونے والی سیریز کے بعد سے اب تک کسی ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار نہیں ہوا گو کہ اس دوران اس کا مقابلہ جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے بعد اب عالمی نمبر ایک انگلستان سے بھی ہو چکا ہے۔ یہ اعلیٰ کارکردگی مصباح الحق کی زیر قیادت قومی ٹیم میں آنے والی شاندار تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہے خصوصاً اس سیریز میں ٹیم کی حوصلہ و ہمت نہ ہارنے کی صلاحیت نے کئی ماہرین کرکٹ کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ 99 رنز پر آؤٹ ہو جانے کے باوجود پاکستان جس طرح میچ میں واپس آیا، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی بلندیوں کا سفر شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان بمقابلہ انگلستان، تیسرا ٹیسٹ
3 تا 6 فروری 2012ء
بمقام: دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم، دبئی، متحدہ عرب امارات
نتیجہ: پاکستان 71 رنز سے فتحیاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: اظہر علی
سیریز کے بہترین کھلاڑی: سعید اجمل
پہلی اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
محمد حفیظ | ایل بی ڈبلیو ب براڈ | 13 | 30 | 1 | 0 |
توفیق عمر | ایل بی ڈبلیو ب اینڈرسن | 0 | 5 | 0 | 0 |
اظہر علی | ک پرائیر ب براڈ | 1 | 14 | 0 | 0 |
یونس خان | ک پرائیر ب براڈ | 4 | 8 | 1 | 0 |
مصباح الحق | ایل بی ڈبلیو ب اینڈرسن | 1 | 8 | 0 | 0 |
اسد شفیق | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 45 | 78 | 3 | 0 |
عدنان اکمل | ایل بی ڈبلیو ب براڈ | 6 | 30 | 0 | 0 |
عبد الرحمن | ک پیٹرسن ب سوان | 1 | 5 | 0 | 0 |
سعید اجمل | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 12 | 53 | 1 | 0 |
عمر گل | ب اینڈرسن | 13 | 27 | 1 | 1 |
اعزاز چیمہ | ناٹ آؤٹ | 0 | 7 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ل ب 3 | 3 | |||
مجموعہ | 44.1 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 99 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
جیمز اینڈرسن | 14.1 | 3 | 35 | 3 |
اسٹورٹ براڈ | 16 | 5 | 36 | 4 |
مونٹی پنیسر | 13 | 4 | 25 | 2 |
گریم سوان | 1 | 1 | 0 | 1 |
پہلی اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
اینڈریو اسٹراس | اسٹمپ عدنان ب عبد الرحمن | 56 | 150 | 5 | 0 |
ایلسٹر کک | ک عدنان ب عمر گل | 1 | 5 | 0 | 0 |
جوناتھن ٹراٹ | ایل بی ڈبلیو ب عمر گل | 2 | 10 | 0 | 0 |
کیون پیٹرسن | ایل بی ڈبلیو ب عبد الرحمن | 32 | 44 | 4 | 0 |
این بیل | اسٹمپ عدنان ب سعید اجمل | 5 | 28 | 0 | 0 |
ایون مورگن | ایل بی ڈبلیو ب عبد الرحمن | 10 | 14 | 0 | 1 |
میٹ پرائیر | ب عبد الرحمن | 6 | 19 | 0 | 0 |
جیمز اینڈرسن | ب عبدالرحمن | 4 | 22 | 0 | 0 |
اسٹورٹ براڈ | ایل بی ڈبلیو ب سعید اجمل | 4 | 19 | 0 | 0 |
گریم سوان | ک عبد الرحمن بو سعید اجمل | 16 | 18 | 3 | 0 |
مونٹی پنیسر | ناٹ آؤٹ | 0 | 1 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 1، ل ب 4 | 5 | |||
مجموعہ | 55 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 141 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
عمر گل | 7 | 1 | 28 | 2 |
اعزاز چیمہ | 4 | 0 | 9 | 0 |
سعید اجمل | 23 | 6 | 59 | 3 |
عبد الرحمن | 21 | 4 | 40 | 5 |
دوسری اننگز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
محمد حفیظ | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 21 | 36 | 3 | 1 |
توفیق عمر | ک اسٹراس ب اینڈرسن | 6 | 16 | 1 | 0 |
اظہر علی | ک کک ب سوان | 157 | 442 | 10 | 1 |
یونس خان | ایل بی ڈبلیو ب براڈ | 127 | 221 | 12 | 1 |
مصباح الحق | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 31 | 115 | 1 | 0 |
اسد شفیق | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 5 | 17 | 0 | 0 |
عدنان اکمل | ب پنیسر | 0 | 7 | 0 | 0 |
عبد الرحمن | ک اینڈرسن ب سوان | 1 | 5 | 0 | 0 |
سعید اجمل | ک اینڈرسن ب سوان | 1 | 12 | 0 | 0 |
عمر گل | ایل بی ڈبلیو ب پنیسر | 4 | 38 | 0 | 0 |
اعزاز چیمہ | ناٹ آؤٹ | 2 | 8 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 10، ل ب 1، ن ب 1 | 12 | |||
مجموعہ | 152.4 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 365 |
انگلستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
جیمز اینڈرسن | 28 | 7 | 51 | 1 |
اسٹورٹ براڈ | 24 | 7 | 55 | 1 |
مونٹی پنیسر | 56.4 | 13 | 124 | 5 |
گریم سوان | 39 | 6 | 101 | 3 |
جوناتھن ٹراٹ | 2 | 0 | 14 | 0 |
کیون پیٹرسن | 3 | 0 | 9 | 0 |
دوسری اننگز، ہدف 324 رنز | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
اینڈریو اسٹراس | ایل بی ڈبلیو ب عبد الرحمن | 26 | 76 | 2 | 0 |
ایلسٹر کک | ک یونس ب سعید اجمل | 49 | 187 | 4 | 0 |
جوناتھن ٹراٹ | ک عبد الرحمن ب سعید اجمل | 18 | 64 | 2 | 0 |
کیون پیٹرسن | ب سعید اجمل | 18 | 45 | 1 | 1 |
این بیل | ک اسد ب عمر گل | 10 | 38 | 0 | 0 |
ایون مورگن | ک عدنان ب عمر گل | 31 | 48 | 3 | 1 |
میٹ پرائیر | ناٹ آؤٹ | 49 | 58 | 5 | 0 |
اسٹورٹ براڈ | ک توفیق ب عمر گل | 18 | 24 | 2 | 0 |
گریم سوان | ک اسد ب عمر گل | 1 | 6 | 0 | 0 |
جیمز اینڈرسن | ک یونس ب سعید اجمل | 9 | 26 | 0 | 0 |
مونٹی پنیسر | ایل بی ڈبلیو ب عبد الرحمن | 8 | 15 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 4، ل ب 8، ن ب 3 | ||||
مجموعہ | 97.3 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 252 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
عمر گل | 20 | 5 | 61 | 4 |
اعزاز چیمہ | 4 | 0 | 9 | 0 |
محمد حفیظ | 5 | 2 | 6 | 0 |
عبد الرحمن | 41.3 | 10 | 97 | 2 |
سعید اجمل | 27 | 9 | 67 | 4 |