پاکستان کو بدترین شکست، انگلستان سیریز جیت گیا

0 1,024

پاکستان نے ماضئ قریب میں شکستیں ضرور کھائی ہیں، لیکن گزشتہ چند سالوں میں اتنی بدترین ہار ہماری یادداشت میں تو موجود نہیں ہے، جتنی آج دبئی اسپورٹس سٹی کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کو سہنی پڑی ہے۔ ایک روزہ سیریز کے تیسرے و اہم ترین مقابلے میں، جہاں پاکستان کو سیریز میں شکست سے بچنے کے لیے لازماً فتح حاصل کرنا تھی، انگلستان نے کھیل کے تمام شعبوں میں اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے نہ صرف مقابلہ بلکہ سیریز بھی 3-0 سے اپنے نام کر لی۔ ایک مرتبہ پھر کپتان ایلسٹر کک فتح کے معمار رہے جبکہ کلیدی ترین اننگز کیون پیٹرسن نے کھیلی جو عرصہ دراز کے بعد بھرپور فارم میں نظر آئے اور ساڑھے تین سال بعد اپنی پہلی ایک روزہ سنچری اسکور کی۔

کیون پیٹرسن ساڑھے تین سال کے بعد سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے (تصویر: Getty Images)
کیون پیٹرسن ساڑھے تین سال کے بعد سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے (تصویر: Getty Images)

پاکستان کی باؤلنگ لائن اپ بالکل 'بے دانت کا شیر' ثابت ہوئی، ایک لمحے کو بھی ایسا محسوس نہ ہوا کہ یہ وہی باؤلرز ہیں جنہوں نے چند ہفتوں قبل انہی انگلش بلے بازوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ اندازہ لگائیے کہ 223 رنز کا ہدف انگلستان نے محض ایک وکٹ کے نقصان پر پورا کیا یعنی کہ 9 وکٹوں کی ذلت آمیز ہار۔ کپتان ایلسٹر کک اور کیون پیٹرسن نے پہلی وکٹ پر 170 رنز کی شاندار شراکت داری قائم کی جبکہ پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کا حال یہ تھا کہ اس کے ابتدائی 4 بیٹسمین 50 کے مجموعے پر پویلین لوٹ چکے تھے۔

انگلستان کے لیے میچ کا واحد افسردہ لمحہ یہ تھا کہ ایلسٹر کک مسلسل تین ایک روزہ مقابلوں میں سنچری بنانے کے اعزاز سے صرف 20 قدم کے فاصلے پر ہمت ہار بیٹھے۔ انہوں نے ابوظہبی میں کھیلے گئے اولین دونوں ایک روزہ مقابلوں میں سنچریاں بنائی تھیں اور اگر وہ آج دبئی میں بھی یہ کارنامہ انجام دے ڈالتے تو ظہیر عباس، سعید انور، ہرشل گبز اور ابرہم ڈی ولیئرز کے بعد تاریخ کے پانچویں اور انگلستان کے پہلے بلے باز ہوتے، جنہیں مسلسل تین ایک روزہ مقابلوں میں سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہوتا۔ لیکن اس کے محرومی کے باوجود انگلستان کا ایک روزہ سیریز جیتنا، اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ اسے چند روز قبل ہی ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا، ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور پاکستان کے لیے اتنا ہی بڑا لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان نے سیریز میں ٹاس جیت کر پہلی بار بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن اسٹیون فن اور اسٹورٹ براڈ کی نپی تلی گیند بازی نے پاکستان کو دن میں بھی چین نہ لینے دیا۔ پاکستان نے گزشتہ دونوں مقابلوں میں رات میں بلے بازی کا آغاز کیا تھا، اس لیے رجائیت پسندوں کا خیال تھا کہ ٹاس جیتنا پاکستان کے لیے نیک شگون ہوگا اور اس کے بلے باز دن کی روشنی میں اچھی کارکردگی دکھا پائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ٹاپ آرڈر کی نااہلی کا سلسلہ یہاں بھی جہاں رہا جہاں سب سے پہلے عمران فرحت فن کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ تھما بیٹھے تو 49 کے مجموعے پر اظہر علی صرف 5 رنز بنانے کے بعد براڈ کی گیند پر اسی طرح آؤٹ ہوئے۔ یوں اظہر ایک روزہ ٹیم میں شمولیت کے بعد سے اب تک مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں اور کم از کم محدود اوورز کے قومی دستے میں ان کی شمولیت کا مستقبل تو اب تاریک نظر آتا ہے۔ سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو اننگز کے نویں اوور کی پہلی گیند پر لگا جب فن نے ایک اندر آتی ہوئی خوبصورت گیند پر محمد حفیظ کو وکٹوں کے سامنے جا لیا جو 28 گیندوں پر 22 رنز کے ساتھ اچھی بیٹنگ کر رہے تھے۔ اگلے اوور میں براڈ نے کپتان مصباح الحق کو ایک رنز پر سلپ میں کیچ آؤٹ کروا کے پاکستان کی فتح کی امیدوں کا خاتمہ کر دیا۔

اب پاکستان کی کوششیں صرف ایک قابل عزت مجموعے پر پہنچنے کے لیے صرف ہوئیں۔ پہلے اسد شفیق اور عمر اکمل نے 47 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ دونوں نے خوش قسمتی اور ذمہ دارانہ بلے بازی کے تعاون سے اسکور کو آگے بڑھایا لیکن اسد شفیق اس وقت خوش نصیب ثابت نہ ہوئے جب وہ 18 کے انفرادی اسکور پر اپنی غائب دماغی اور انگلش فیلڈرز کی پھرتی کے باعث چلتا بنے۔ اسد نے ایل بی ڈبلیو کی ایک اپیل کے بعد اس بات کو سمجھے بغیر کہ گیند کس طرف ہے؟ دوڑنا شروع کر دیا اور احساس ہونے کے بعد وہ واپس پلٹے اور جست لگا کر کریز میں پہنچنے کی کوشش کی۔ گو کہ وہ کریز میں پہنچ گئے لیکن جس وقت وکٹ کیپر کیزویٹر نے بیلز اڑائیں، اس وقت ان کا بلّا کریز میں پہنچنے کے بعد ہوا میں اٹھ چکا تھا اس لیے وہ آؤٹ قرار پائے۔

اب ٹیم کے دو سب سے 'غیر ذمہ دار' بلے باز کریز پر موجود تھے، جی ہاں! عمر اکمل اور شاہد آفریدی۔ جن کے بارے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہر گیند پر یہ خطرہ ہوتا ہے کہ یہ چھکا مارنے کی کوشش میں آؤٹ ہو جائیں گے لیکن دونوں نے موقع کی مناسبت سے بہت ذمہ دارانہ اننگز کھیلیں اور چھٹی وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی شراکت داری قائم کی۔ انہوں نے مل کر اسکور میں 79 رنز کا اضافہ کیا اور پاکستان کے لیے ممکن بنایا کہ وہ کم از کم پورے 50 اوورز کھیلنے میں کامیاب ہو جائے اور اسکور کو 200 رنز سے آگے لے جائے۔ عمر اکمل کی نصف سنچری اننگز خوش قسمتی سے خالی نہ تھی جن کو 28 کے انفرادی اسکور پر اس وقت زندگی ملی جب براڈ کی گیند پر وکٹ کیپر کیزویٹر نے ان کا ایک کیچ چھوڑ دیا۔ عمر اکمل نے کیریئر کی 13 ویں اور شاہد آفریدی نے اپنی 33 ویں نصف سنچریاں مکمل کیں لیکن بدقسمتی سے دونوں عین اس وقت آؤٹ ہو گئے جب پاکستان کو ان کی کریز پر موجودگی درکار تھی یعنی کہ آخری پاور پلے کے اختتام کے ساتھ ہی۔ عمر اکمل ایک مرتبہ پھر سمیت پٹیل کی خوبصورت فیلڈنگ کا نشانہ بنے جنہوں نے مڈ وکٹ پر ان کا ایک شاندار کیچ لے کر اس شعبے میں انگلستان کی پاکستان پر برتری ثابت کر دی۔ عمر نے اپنے مزاج کے بالکل برخلاف 92 گیندوں پر صرف ایک چوکے کی مدد سے 50 رنز بنائے۔ اگلے ہی اوور کی آخری گیند شاہد آفریدی کے لیے بھی پیغام اجل لے کر آئی جو ایک مرتبہ پھر جمی اینڈرسن کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ انہوں نے 55 گیندوں پر ایک چھکے اور تین چوکوں کی مدد سے 51 رنز بنائے۔

آخری لمحات میں عمر گل نے دو چھکوں اور ایک چوکے کے ساتھ 27 گیندوں پر اتنے ہی رنز بنائے اور آخری اوور کی آخری گیند پر ان کے رن آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی اننگز 222 رنز پر تمام ہوئی۔ براڈ اور فن نے 3،3 جبکہ اینڈرسن نے 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ 223 رنز کا ہدف پچ کی بلے بازوں کے لیے سازگاری دیکھتے ہوئے بہت کم تھا لیکن اتنے ضرور تھا کہ پاکستان اپنے باؤلرز کے سہارے پر کچھ کر سکتا تھا، لیکن تمام تر توقعات سراب ثابت ہوئیں۔

پاکستانی گیند باز ابتداء سے لے کر بالکل ناکارہ ثابت ہوئے اور انگلش بلے بازوں نے انہیں بتایا کہ مصنوعی روشنی میں کس طرح بلے بازی کی جاتی ہے، جس میں پاکستان اب تک سیریز میں مکمل طور پر ناکام نظر آیا تھا۔ ایلسٹر کک جو پہلے ہی سے بھرپور فارم میں تھے، انہوں نے تو پاکستانی گیند بازوں کی دال بالکل نہ گلنے دی بلکہ دوسرے اینڈ پر کھڑے کیون پیٹرسن، جو تین سال سے زائد عرصے سے بین الاقوامی سطح پر سنچری نہیں بنا پائے، نے بھی رنز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

ایک کم مجموعے کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کی باؤلنگ، فیلڈنگ اور حکمت عملیاں بہت ہی اوسط درجے کی ثابت ہوئیں۔ ناقص باؤلنگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ عمر گل نے ایک اوور میں وائیڈ پھینکنے کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ نو بالز بھی کروائیں۔ جن میں سے دو نو بالز پر ملنے والی فری ہٹس پر ایلسٹر کک نے ایک چھکا اور ایک چوکا رسید کیا۔ کک، جنہوں نے کیریئر میں اس سے قبل صرف دو چھکے لگائے ہیں، نے ایک شارٹ گیند کو بہت ہی خوبی کے ساتھ میدان سے باہر پھینکا۔ جبکہ پیٹرسن 45 کے انفرادی اسکور پر ایک زندگی بھی ملی جب اعزاز چیمہ کی ایک گیند پر ڈیپ اسکوائر پر کھڑے اظہر علی کیچ تھامنے میں ناکام رہے۔ پیٹرسن نے اسی اننگز کے دوران ایک روزہ کیریئر کے 4 ہزار رنز بھی مکمل کیے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے ساتویں انگلش بلے باز ہیں۔

پیٹرسن نے اپنی سنچری محض 93 گیندوں پر مکمل کی جبکہ میچ کے اختتام پر وہ 98 گیندوں پر 111 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ ان کی اننگز میں 2 چھکے اور 10 چوکے شامل تھے۔ کیون نے آخری مرتبہ نومبر 2008ء میں بھارت کے خلاف کٹک میں سنچری اسکور کی تھی، جب وہ ٹیم کے کپتان بھی تھے اور اس کے بعد سے ایک روزہ مقابلوں میں وہ کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو پہلے ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔

انگلستان کی گرنے والی واحد وکٹ سعید اجمل کو ملی جنہوں نے اپنے مقررہ 10 اوورز میں 40 رنز دیے۔ عمر گل، اعزاز چیمہ اور شاہد آفریدی تینوں بہت مہنگے ثابت ہوئے۔ گل نے 7 اوورز میں 59، چیمہ نے 6.2 اوورز میں 40 اور آفریدی نے 8 اوورز میں 52 رنز دیے۔

کیون پیٹرسن کو سنچری اسکور کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب انگلستان کی تمام تر نظریں 21 فروری کو دبئی ہی میں ہونے والے آخری ایک روزہ مقابلے میں فتح سمیٹ کر پاکستان سے ٹیسٹ سیریز کے کلین سویپ کا بدلہ لینا ہے۔ پاکستان، جس نے سیریز کے آغاز سے قبل اپنے 14 میں سے 13 میچز جیتے تھے، مسلسل تین مقابلوں میں شکست کے بعد کافی پریشان ہوگا۔ اور اس کی کوششیں ہوں گی کہ کسی طرح آخری میچ میں فتح حاصل کر کے کلین سویپ کی ہزیمت سے بچے اور پھر ٹی ٹوئنٹی میں اچھی کارکردگی دکھا کر ٹیسٹ سیریز کی یادگار فتح کا مزا کرکرا نہ ہونے دے۔

پاکستان بمقابلہ انگلستان

تیسرا ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ

18 فروری 2012ء

بمقام: دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم، دبئی، متحدہ عرب امارات

نتیجہ: انگلستان 9 وکٹوں سے فتح یاب

میچ کے بہترین کھلاڑی: کیون پیٹرسن

پاکستان رنز گیندیں چوکے چھکے
محمد حفیظ ایل بی ڈبلیو ب فن 29 28 3 0
عمران فرحت ک کیزویٹر ب فن 9 10 2 0
اظہر علی ک کیزویٹر ب براڈ 5 13 0 0
اسد شفیق رن آؤٹ 18 39 2 0
مصباح الحق ک سوان ب براڈ 1 6 0 0
عمر اکمل ک پٹیل ب براڈ 50 92 1 0
شاہد آفریدی ب اینڈرسن 51 55 3 1
عدنان اکمل ب فن 9 22 0 0
عمر گل ناٹ آؤٹ 27 27 1 2
سعید اجمل ب اینڈرسن 4 5 0 0
اعزاز چیمہ رن آؤٹ 5 4 0 0
فاضل رنز ل ب 11، و 2، ن ب 1 14
مجموعہ 50 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر 222

 

انگلستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
جیمز اینڈرسن 10 0 52 2
اسٹیون فن 10 1 24 3
اسٹورٹ براڈ 10 2 42 3
گریم سوان 10 0 44 0
سمیت پٹیل 8 1 37 0
روی بوپارا 2 0 12 0

 

انگلستانہدف: 223 رنز رنز گیندیں چوکے چھکے
ایلسٹر کک ک عدنان ب سعید 80 98 9 1
کیون پیٹرسن ناٹ آؤٹ 111 98 10 2
ایون مورگن ناٹ آؤٹ 24 32 2 1
فاضل رنز ل ب 3، و 4، ن ب 4 11
مجموعہ 37.2 اوورز میں 1 وکٹ کے نقصان پر 226

 

پاکستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
عمر گل 7 0 59 0
اعزاز چیمہ 6.2 0 40 0
سعید اجمل 10 1 40 1
محمد حفیظ 6 0 32 0
شاہد آفریدی 8 0 52 0