عالمی کپ اور قضیہ نوآموز ٹیموں کا
آئی سی سی ورلڈ کپ دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے نئے اور تیز تر فارمیٹ کی روز بروز بڑھتی مقبولیت کے باوجود یہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا سب سے بڑا اور اہم ٹورنامنٹ ہے۔ 2011ء کے عالمی کپ کی میزبانی کرکٹ کی دنیا کے سب سے بڑے مرکز یعنی برصغیر کو سونپی گئی اور ہمیشہ کی طرح ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایٹ اراکین کو بھی عالمی کپ میں شریک کیا گیا۔ لیکن نو آموز ٹیموں کی مسلسل ناقص کارکردگی کے باعث مختلف حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ اٹھ رہا ہے کہ آئی سی سی عالمی کپ میں محض بڑی ٹیموں کو جگہ دے اور ٹیموں کی تعداد کو مزید کم کیا جائے۔
عالمی کپ 2007ء ویسٹ انڈیز میں کل 16 ٹیموں نے شرکت کی تھی اور اس مرتبہ یعنی 2011ء میں آئی سی سی نے یہ تعداد کم کر کے 14 کر دی تاہم اب بھی کمزور ٹیموں کی شمولیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ دلائل سے بھرپور ان سوالات پر آئی سی سی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں ہونے والے 2015ء کے عالمی کپ کے لیے شریک ٹیموں کی تعداد کم کر کے 10 کر دے گا۔
آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اب ٹی ٹوئنٹی وہ فارمیٹ ہے جس کے ذریعے ہم عالمی سطح پر کرکٹ کو فروغ دے سکتے ہیں۔ 50 اوورز کا فارمیٹ زیادہ مہارت طلب کرتا ہے اور اس کے لیے صف اول کی ٹیمیں ہی مناسب ہیں۔
آئی سی سی نے عالمی کپ 2015ء کے لیے چار ٹیموں کو خارج کرنے کا ازالہ کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں 4 مزید ٹیموں کی شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 16 ٹیموں پر مشتمل ایونٹ ہو جائے گا۔
اس فیصلے پر ایسوسی ایٹ ممالک کینیڈا، کینیا، افغانستان، نیدرلینڈز اور دیگر کی جانب سے تو ردعمل آیا ہی ہے لیکن چند معروف کھلاڑیوں نے بھی ایسوسی ایٹ ٹیموں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ان میں معروف انگلش اسپنر گریم سوان، آسٹریلوی تیز باؤلر شان ٹیٹ اور جنوبی افریقی وکٹ کیپر اے بی ڈی ویلیئرز شامل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ایسوسی ایٹ ٹیمیں اپ سیٹس کرتی رہی ہیں اور تقریباً ہر عالمی کپ میں ان سے منسوب کوئی نہ کوئی اپ سیٹ ضرور ہے۔ چاہے وہ 1983ء میں زمبابوے کے ہاتھوں آسٹریلیا کو ہونے والی ہزیمت آمیز شکست ہو، 1992ء کے عالمی کپ میں زمبابوے کے ہاتھوں انگلستان کو درپیش ہار ہو یا 1996ء میں کینیا کی ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح، 1999ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان کے خلاف جیت ہو یا 2003ء میں کینیا کے ہاتھوں سری لنکا کو شکست یا پھر 2007ء میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں بھارت اور آئرلینڈ کو ہاتھوں پاکستان کو ہونے والی ہار ہو، ایسوسی ایٹ اراکین کی ان فتوحات نے ثابت کیا ہے کہ وہ معروف ٹیموں کو شکست دینے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ مندرجہ بالا میں سے کئی اپ سیٹ ٹورنامنٹ کے نتیجے پر اثر انداز ہوئے خصوصاً 2003ء میں کینیا پہلی ایسوسی ایٹ ٹیم بنا جس نے عالمی کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی جبکہ 2007ء میں بھارت کو بنگلہ دیش اور پاکستان کوآئرلینڈ کے ہاتھوں شکست نے ٹورنامنٹ سے ہی باہر کر دیا تھا۔ تاہم اس امر سے بھی انکار نہیں کہ کئی باؤلنگ اور بیٹنگ کے عالمی ریکارڈز انہی کمزور ٹیموں کے خلاف قائم ہوئے۔
بھارت نے گزشتہ عالمی کپ میں 413 رنز بنا کر عالمی کپ میں سب سے بڑا اسکور برمودا کے خلاف بنایا تو 1996ء میں سری لنکا نے کینیا کے خلاف 398 رنز بنائے۔ دوسری جانب سب سے مختصر اننگز بھی انہی ایسوسی ایٹ اراکین کے کے کھاتے میں ہیں جیسا کہ کینیڈا 36 رنز، نمیبیا 45 رنز، اسکاٹ لینڈ 68 اور کینیا کے آج نیوزی لینڈ کےخلاف بنائے گئے 69 رنز۔ بڑے مارجن کے لحاظ سے بھی تمام فتوحات ایسوسی ایٹ ٹیموں ہی کے خلاف حاصل کی گئیں۔ اس میں بھارت کی برمودا کے خلاف 257 رنز، آسٹریلیا کی نمیبیا کے خلاف 256 رنز، سری لنکا کی برمودا کے خلاف 243 رنز، آسٹریلیا کی نیدرلینڈز کے خلاف 229 رنز اور جنوبی افریقہ کی نیدرلینڈز کے خلاف 221 رنزکے بڑے مارجنز سےحاصل کی گئی فتوحات شامل ہیں۔
ان دلائل کو مدنظر رکھا جائے تو آئی سی سی کا فیصلہ اتنا غلط بھی نہیں دکھائی دیتا۔ لیکن حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ عالمی کپ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کرکٹ دنیا کے کئی ممالک میں مقبول کھیل نہیں ہے اور عالمی کپ میں شرکت نہ صرف ایسوسی ایٹ ٹیموں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتی ہے بلکہ ان کے ممالک میں کرکٹ کو فروغ بھی ملتا ہے اور پھر وہ اس کے حق میں گزشتہ عالمی کپ ٹورنامنٹس میں ایسوسی ایٹ ٹیموں کی اپ سیٹ فتوحات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
اگر صورتحال کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک جانب ایسوسی ایٹ ٹیموں کی شرکت کے حامی افراد کے پاس ٹھوس دلائل ہیں وہیں ان کی مخالفت کرنے والے حلقے بھی مضبوط دلائل رکھتے ہیں۔ کرکٹ کے حوالے سے فیصلے تو بہرحال بین الاقوامی کرکٹ کونسل ہی نے کرنے ہیں اور وہ جو بھی فیصلہ کریں انتہائی سوچ بچار کے بعد اور کرکٹ کے حق میں کریں۔
اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
اپنی رائے کا اظہار نیچے تبصرے میں کیجیے کہ آپ آئی سی سی کے اس فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟