واٹمور کی تقرری خوش آئند ہے، کوچنگ کڑا امتحان ہوگی: وقار یونس
جب گزشتہ سال ماہِ اگست میں وقار یونس پاکستان کی ڈولتی ہوئی کشتی کوئی بیچ منجدھار میں چھوڑ گئے تھے تو چیئرمین ذکا اشرف کی نو آموز قیادت کا پہلا امتحان پاکستان کے لیے ایک ایسے مناسب کوچ کا اہتمام کرنا تھا جو فتوحات کی راہ پر ٹیم کے سفر کو جاری رکھ سکے اور بالآخر کئی ماہ کی کوششوں کے بعد پاکستان نے معروف کوچ ڈیو واٹمور کو دو سالہ معاہدے کے تحت نیا کوچ مقرر کر دیا۔ ماضی میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کوچنگ کے ذریعے شہرت پانے والے ڈیو آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور پہلے بھی پاکستان کے کوچ کے لیے امیدوار رہ چکے ہیں لیکن اُس وقت بورڈ کی نظر انتخاب جیف لاسن پر پڑی تھی تاہم اس مرتبہ وہ عبوری کوچ محسن خان کی تمام تر کامیابیوں اور کوششوں کے باوجود یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ڈیو واٹمور کی تقرری کو اُن کے پیشرو وقار یونس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک اچھا فیصلہ اور خوش آئند امر قرار دیا ہے۔ وقار یونس نے نجی وجوہات کی بناء پر کوچ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد محسن خان کی بطور عبوری کوچ تقرری کے ساتھ ساتھ بورڈ نے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں ہفتے کے اوائل میں ڈیو واٹمور کی نامزدگی عمل میں آئی۔ اس حوالے سے وقار یونس نے معروف کرکٹ ویب سائٹ پاک پیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واٹمور کا برصغیر کی ٹیموں کی کوچنگ کرنے کا تجربہ اُنہیں اس عہدے کے لیے موزوں ترین امیدوار بناتا ہے اور سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد اب وہ دنیائے کرکٹ کے سب سے کڑے امتحان یعنی پاکستان کی کوچنگ میں کودے ہیں۔
بین الاقوامی کیریئر میں 789 وکٹیں سمیٹنے والے وقار یونس کا کہنا ہے کہ ”ڈیو کے ریکارڈ پر 1996ء میں سری لنکا کی عالمی کپ فتح اور بنگلہ دیش کی پہلی ٹیسٹ فتح سمیت متعدد کارنامے ہیں۔ واٹمور برصغیر کے کلچر کو بھی سمجھتے ہیں، سری لنکن پس منظر بھی رکھتے ہیں، اور میرے خیال میں اُن کی تقرری خوش آئند ہے اور امید کرتا ہوں کہ وہ اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔“ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ”واٹمور سخت گیر رویہ رکھتے ہیں، وہ محنت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے ان کے ماتحت کھلاڑیوں کے لیے معاملات آسان نہیں ہوں گے، لیکن اِس وقت ٹیم کے اراکین سیکھنا اور سخت محنت کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور جب میں کوچ تھا تو کچھ نے تو بہت سخت محنت کی تھی۔ اس لیے مجھے پورا یقین ہے کہ کھلاڑیوں کی نظریں اب واٹمور کے ساتھ مل کر ٹیم کو آگے بڑھانے پر مرکوز ہوں گی۔“
قومی کرکٹ ٹیم کے باؤلنگ کوچ عاقب جاوید کے استعفے کے بعد یہ عہدہ خالی ہونے کے باوجود وقار یونس اس میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ”میں نے اپنی ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ہیڈ کوچ کا عہدہ چھوڑا تھا اور فی الوقت خود کو باؤلنگ کوچ نہیں کی حیثیت سے کام کرتے نہیں دیکھنا چاہتا۔“ عاقب جاوید اب متحدہ عرب امارات کے کوچ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔
پاکستان نے ہیڈ کوچ کے علاوہ بطور فیلڈنگ کوچ بھی ایک غیر ملکی جولین فاؤنٹین کو مقرر کیا ہے، یوں یہ بحث فطری طور پر جنم لے رہی ہے کہ کیا پاکستان کا اگلا باؤلنگ کوچ بھی غیر ملکی ہوگا؟ اس حوالے سے وقار یونس کا کہنا ہے کہ ”اس حوالے سے کرکٹ بورڈ کو واٹمور سے ضرور مشاورت کرنی چاہیے۔ ڈیو کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے اور انہی کی سفارش پر باؤلنگ کوچ مقرر کرنا چاہیے۔“
واٹمور کی زیر قیادت پاکستان کا پہلا امتحان 11 مارچ سے ایشیا کپ میں شروع ہو رہا ہے جہاں پاکستان افتتاحی مقابلے میں میزبان بنگلہ دیش کے مدمقابل ہوگا۔ سیریز میں پاکستان کا ٹکراؤ بھرپور فارم میں موجود سری لنکا اور عالمی چیمپئن و روایتی حریف بھارت سے بھی ہوگا۔
یہ انٹرویو پاک پیشن انتظامیہ کی جانب سے کرک نامہ کو خصوصی طور پر ارسال کیا گیا ہے اور ان کی اجازت سے ترجمہ کر کے قارئین کی نذر کیا گیا ہے۔ انٹرویو کی فراہمی پر ہم پاک پیشن انتظامیہ کے مشکور ہیں۔