بنگلہ دیش کا دورۂ پاکستان مؤخر کیا جائے: فیکا کا آئی سی سی سے مطالبہ

2 1,016

ایک جانب جہاں پاکستان میں کرکٹ کے چاہنے والوں کی دلی تمنا ہے کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آئے، وہیں مختلف حلقوں کی جانب سے پاکستان میں کسی سیریز کے انعقاد پر خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں اور وہ بے جا بھی نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں کرکٹ مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائی۔ 2002ء میں نیوزی لینڈ ٹیم کی قیام گاہ کے باہر ہونے والے دھماکوں سے لے کر 2009ء میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملے تک ایک طویل عرصہ ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے عالمی برادری گومگو کی کیفیت کا شکار رہی لیکن بالآخر 2009ء میں مہر ثبت کر دی گئی کہ پاکستان بین الاقوامی کرکٹ کے لیے موزوں مقام نہیں ہے۔

مارچ 2009ء: لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا خاتمہ کر دیا (تصویر: AFP)
مارچ 2009ء: لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا خاتمہ کر دیا (تصویر: AFP)

اس صورتحال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی سر توڑ کوششیں رنگ لائی ہیں اور اگلے ماہ پاکستان و بنگلہ دیش کے دوران ایک روزہ مقابلوں کی ایک سیریز کے انعقاد کے روشن امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے سربراہ مصطفیٰ کمال کی زیر صدارت گزشتہ ہفتے ایک نو رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور حفاظتی انتظامات پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔

لیکن بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا رویہ اس معاملے میں بہت عجیب دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتی ہے کہ اگر کوئی ٹیم پاکستان میں کھیلنا چاہتی ہے تو وہ منع نہیں کرے گا لیکن اپنے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کو بنیاد پر اس نے کہا ہے کہ وہ میچ آفیشلز یعنی امپائروں کو وہاں نہیں بھیجے گا، اس لیے اسے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی کہ اگر حفاظتی خدشات کے پیش نظر کسی ملک میں جہاں نیوٹرل امپائروں کو بھیجنا ممکن نہ ہو، وہاں مقامی امپائروں کو میچ سنبھالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

اور یہی وہ نقطہ ہے جسے بین الاقوامی کرکٹرز کی انجمن فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (فیکا) نے اٹھایا ہے، جس کا کہنا ہے کہ جہاں نیوٹرل امپائروں کو بھیجنا ممکن نہیں، وہاں کرکٹ سیریز کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے۔

فیکا کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق چیف ایگزیکٹو ٹم مے نے آئی سی سی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی انجمن کو اپنے قوانین میں ترمیم کے بجائے پاکستان میں مجوزہ سیریز کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے بورڈ کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق آئی سی سی کو رپورٹس ملی ہیں کہ پاکستان اب بھی دورہ کرنے کے لیے محفوظ نہیں ہے، اس لیے کسی ٹیم کو وہاں کا دورہ کرنے کی اجازت دینا میرے لیے حیران کن امر ہے۔ اگر آئی سی سی سمجھتا ہے کہ پاکستان 'نیوٹرل' امپائروں کے لیے غیر محفوظ ہے تو وہ بنگالی کھلاڑیوں کے لیے کیسے محفوظ ہو سکتا ہے۔ ٹم مے نے کہا کہ فیکا نے پاکستان میں حفاظتی صورتحال پر اپنی رپورٹ بھی تیار کی ہے اور اس کے نتائج بھی ملک میں نامساعد صورتحال کو ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے کھلاڑیوں اور عوام کی بین الاقوامی کھیل سے وابستگی کا احساس ہے اور امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں جلد بین الاقوامی کرکٹ واپس آئے گی لیکن ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین بھی کرنا ہے اور ہماری پہلی ترجیح ہے کہ شرکا، ٹیم عہدیداران اور دیگر افراد محفوظ رہیں۔

ٹم مے 2002ء میں پاکستان میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آنے والی ٹیم کا حصہ تھے، جس کی رپورٹ کے بعد آسٹریلیا نے پاکستان کے دورے پر آنے سے انکار کر دیا تھا اور تین ٹیسٹ میچز کی سیریز سری لنکا اور متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی۔