ڈومیسٹک سیزن میں کارکردگی قومی ٹیم میں واپسی کی راہ ہموار کرے گی: فیصل اقبال

0 1,016

پاکستان طویل عرصے سے مڈل آرڈر میں، خصوصاً نمبر چار پر، بلے بازی کرنے والے ایک مستعد کھلاڑی کی تلاش میں ہے، اگر گزشتہ دو سال کی کارکردگی کو پرکھا جائے تو یقینی طور پر ہمیں اس نمبر پر موجود کسی بلے باز کی کارکردگی میں تسلسل نظر نہیں آئے گا۔ اس کے برعکس اگر ڈومیسٹک سرکٹ پر نظر دوڑائیں تو بے شمار ایسے بلے باز ملیں گے جن کے بلے تسلسل کے ساتھ رنز اگل رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام فیصل اقبال کا ہے، جو گذشتہ دو سیزن سے اپنی ٹیم پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے لیے مڈل آرڈر بلے باز کی حیثیت سے بڑی اننگز کھیل رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سلیکٹرز کی نگاہ اُن پر نہیں پڑرہی۔

فیصل اقبال نے آخری مرتبہ 2010ء کے اوائل میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی (تصویر: AFP)
فیصل اقبال نے آخری مرتبہ 2010ء کے اوائل میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی (تصویر: AFP)

2010ء میں آسٹریلیا کے تباہ کن دورے میں آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے فیصل اقبال کے حوصلے طویل عرصے سے نظر انداز کیے جانے کے باوجود پست نہیں ہوئے اور ان کا کہنا ہے کہ ڈومیسٹک سرکٹ میں مستقل کارکردگی ان کی قومی ٹیم میں دوبارہ واپسی کی راہ ہموار کرے گی۔

فیصل اقبال نے 2000ء میں اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا اور اب تک 26 ٹیسٹ اور 18 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیل چکے ہیں تاہم انضمام الحق، یونس خان اور محمد یوسف کی موجودگی کے باعث وہ ٹیم میں مستقل مقام نہ پا سکے۔ بلے بازی ان کی رگوں میں شامل ہے کیونکہ وہ پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین بلے باز جاوید میانداد کے بھانجے ہیں اور ان کے انداز میں میانداد کی جھلک بھی نظر آتی ہے تاہم مختلف حلقوں میں یہ بات گردش کرتی رہی ہے کہ عظیم بلے باز سے یہی تعلق انہیں مستقل نظر انداز کرنے کا سبب ہے کیونکہ چند حلقے ان کی شمولیت کو اقرباء پروری سمجھتے ہیں تاہم فیصل اقبال نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی کارکردگی کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی پہچان آپ ہیں۔

گزشتہ روز فیصل اقبال نے کرک نامہ سے خصوصی گفتگو میں اپنی کارکردگی اور پاکستان کی نمائندگی کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نہ صرف گزشتہ دو ڈومیسٹک سیزنز سے مستقل رنز اسکور کر رہا ہوں بلکہ بین الاقوامی کرکٹ لیگز میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی ہے جن میں حالیہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے 7 مقابلوں میں ایک سنچری اور تین نصف سنچریوں کی مدد سے بنائے گئے 700 رنز بھی شامل ہیں جبکہ امریکہ میں ہونے والی لیگ میں بھی میری کارکردگی نمایاں تھی۔ رواں سیزن میں میں نے پے در پے دو نصف سنچریاں اسکور کرکے اپنی ٹیم کے لیے فتح گر اننگز کھیلی ہیں اور مجھے امید ہے کہ یہ کارکردگی میری قومی دستے میں واپسی کی راہ ہموار کرے گی۔ بین الاقوامی کرکٹ لیگ کھیلنے کے تجربے کے حوالے سےفیصل اقبال نے کہا کہ لیگز میں بین الاقوامی کوچز کے ساتھ کام کرنے سے کافی فائدہ ہوا ہے اور بلے بازی کی مہارت میں مزید بہتری آئی ہے۔ دوسری جانب قائد اعظم ٹرافی اور پنٹاگولر کپ کے ساتھ ساتھ قومی ون ڈے کپ میں بھی میری کارکردگی سب کے سامنے ہے اور میرا تسلسل بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ سلیکٹرز میری کارکردگی کو دیکھ رہے ہیں، میں نے حال میں جتنی بڑی اننگز کھیلی ہیں، اس وقت سلیکٹرز بھی میدان پر موجود تھے اور یقینی طور پر مجھے اس کا فائدہ ہوگا۔ ویسے جس طرح سینئر کھلاڑیوں کو دوبارہ موقع دیا گیا ہے اسی طرح مجھے بھی دوبارہ پاکستانی دستے میں شامل کرکے ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ضرور ملے گا۔

26 ٹیسٹ اور 18 ایک روزہ مقابلے کھیلنے والے فیصل اقبال نے کہا کہ پاکستان کے پاس باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے، ڈومیسٹک سرکٹ میں بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جو ہر سیزن میں 1000 سے زائد رنز تسلسل کے ساتھ بنا رہے ہیں جبکہ ایسے باؤلرز بھی ہیں جو 50 سے زائد وکٹیں تواتر سے حاصل کر رہے ہیں تو یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمارے پاس کھلاڑی نہیں ہیں البتہ انہیں سامنے لانے اور گروم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میری رائے یہی ہوگی کہ اگر تمام ڈومیسٹک میچز براہ راست نشر کیے جائیں تو شائقین و ماہرین کو کئی فتح گر کھلاڑی نظر آئیں گے اور ملکی کرکٹ کے مستقبل کے لیے یہ ایک خوش آئند قدم ہوگا۔

گفتگو کے دوران فیصل اقبال نے ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ بنیادی ذمہ داری بلے بازوں پر عائد ہوگی، اگر وہ بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان اپنی مضبوط باؤلنگ کی بدولت ایشیا کپ جیت سکتا ہے۔

پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے حوالے سے انہوں نے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کے اقدامات کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان کے میدانوں کی رونقیں جلد بحال ہوں گی۔