[آج کا دن] تاریخی بنگلور ٹیسٹ، اقبال قاسم اور توصیف احمد کی یادیں

روایتی حریف پاکستان و ہندوستان کل ڈھاکہ میں آمنے سامنے ہوں گے اور دونوں ممالک میں کرکٹ کا جنون ایک مرتبہ پھر سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ یہ عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں ٹکراؤ کے بعد دونوں ٹیموں کا پہلا آمنا سامنا ہے لیکن اس مقابلے سے قطع نظر آج یعنی 17 مارچ وہ تاریخی دن ہے، جسے بلاشبہ پاکستان کرکٹ تاریخ کے سنہرے ترین ایام میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے، یہ دن ہے سرزمینِ ہند پر پاکستان کی پہلی ٹیسٹ سیریز فتح کا۔ پاکستان نے 1987ء میں آج ہی کے روز آج ہی کے روز بنگلور کے میدان میں عظیم فتح حاصل کی تھی۔
عمران خان کی زیر قیادت پاکستانی دستہ پانچ ٹیسٹ میچز کی سیریز کے آخری میچ کے آخری روز یعنی آج کے دن گھر کے شیروں کو انہی سرزمین پر 16 رنز سے شکست دی۔ بھارت میں صف ماتم بچھی اور پاکستان میں خوشیوں کے شادیانے بجے اور ہر شادیانے کی دھن پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیف سلیکٹر اور ماضی کے عظیم اسپنر اقبال قاسم کے گن ہی گارہی تھی۔ پاکستانی تو پاکستانی خود ہندوستانی بھی یہ کہنے پر مجبور تھے کہ بنگلور ٹیسٹ کا ہیرو بلا شبہ اقبال قاسم ہے اور آج بھی جب اس یادگار مقابلے کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے اقبال قاسم کا نام ذہن میں آتا ہے۔ آج سے 25 سال بعد بھی ہر جگہ ان کا استقبال 'بنگلور کے ہیرو' کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے کرک نامہ نے اقبال قاسم اور ان کا بھرپور ساتھ دینے والے اسپنر توصیف احمد سے خصوصی گفتگو کی ہے تاکہ اس عظیم دن کی یادوں کو بھی تازہ کیا جائے اور ان دونوں کھلاڑیوں کو شایان شان خراج تحسین بھی پیش کیا جاسکے۔
اقبال قاسم
جی آج بھی وہ میچ میرے ذہن میں بالکل اسی طرح تروتازہ ہے جیسے میں ابھی پاکستانی ٹیم کو روایتی حریف بھارت کے خلاف ناقابل یقین فتح دلواکر میدان سے باہر آیا ہوں۔ میں درحقیقت بھارت جانے والے دستے میں شامل نہیں تھا بلکہ بعد میں ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔ تیسرے اور چوتھے ٹیسٹ میں میری کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں تھی، جس وجہ سے مجھے پانچویں ٹیسٹ میں شاید شامل نہیں کیا جانا تھا جبکہ وکٹ بھی بظاہر فاسٹ بولرز کے لیے سازگار نظر آرہی تھی تاہم مدثر نذر اور جاوید میانداد نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ یہ وکٹ اسپنرز کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوگی اور پھر ان کی کوششوں سے بالکل آخری لمحات میں میں اس ٹیم میں شامل کیا گیا۔ ان توقعات کے باعث مجھ پر اچھی کارکردگی پیش کرنے کا مزید دباؤ آ گیا۔ بھارتی اسپنر منندر سنگھ کی 27 رنز کے عوض 7 وکٹوں کی زبردست کارکردگی کے باعث ہماری ٹیم پہلی اننگز میں محض 116 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ اب کیونکہ اُن کے اسپنر نے اچھی باؤلنگ کی تھی، اس لیے مجھ پر اور توصیف پر بھاری ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ہم بھی کچھ ایسی ہی کارکردگی دہرائیں۔ ہم نے بھی اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا اور 5، 5 بھارتی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھاتے ہوئے بھارت کو 145 رنز کے مجموعے پر ڈھیر کردیا، جس وجہ سے وہ محض 29 رنز کی برتری ہی حاصل کر پایا۔ وہ وکٹ بلے بازوں کے لیے کسی بھی طور پر سازگار نہیں تھی تاہم دوسری اننگز میں ہمارے بلے بازوں نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی۔ مجھے بھی مڈل آرڈر میں کھیلنا پڑا، پاکستان نے دوسری اننگز میں 249 رنز اسکور کیے جس وجہ سے بھارت کو فتح کے لیے 220 رنز کا ہدف ملا۔ چوتھی اننگز تھی اس لیے ہم پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا کیونکہ ہدف کچھ زیادہ بڑا نہ تھا۔ 15 کے اسکور پر وسیم اکرم نے سری کانتھ اور امرناتھ کو آؤٹ کردیا۔ کرن مورے اور دلیپ وینگسارکر کو توصیف احمد نے پویلین واپس بھیجا۔ اظہر الدین اور سنیل گاوسکر کی شراکت خطرناک ہوتی جارہی تھی جسے اظہر کی وکٹ کی ساتھ میں نے ختم کیا۔ شاستری اور کپیل دیو کی وکٹیں بھی میں نے کھسکا کر بھارت کو پریشر میں لے لیا تاہم سنیل گاوسکر بدستور ہمارے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے پھر کچھ نیوٹرل امپائرنگ نہ ہونے کے باعث بھی سپورٹ انہیں مل رہی تھی۔ تاہم رضوان الزمان نے میری گیند پر پر سنیل گاوسکر کا ناقابل یقین کیچ تھام نہ صرف گاوسکر کو نروس نائنٹیز میں جا لیا بلکہ ہمیں بھی میچ میں واپس لے آئے۔ آخری دو وکٹیں توصیف نے حاصل کیں اور یوں ہم یہ میچ 16 رنز سے جیت گئے جو تاریخ میں امر ہو گئے۔
کیونکہ اس زمانے میں شاید پاک بھارت اتنا دوستانہ نہیں تھا اس لیے وہ میچ انتہائی عصاب شکن اور سخت تناؤ کے ماحول میں کھیلا گیا تھا۔ بھارتی سرزمین پر ہمارا کوئی سپورٹر نہیں تھا، ان کے امپائروں اور شائقین کی جانب سے کوئی سپورٹ نہ تھی۔ ایسے میں پانچ میچز کی سیریز کے فیصلہ کن میچ کا دباؤ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا اور جب ہم یہ سیریز جیتے تو بس زبان پر اللہ کا ذکر و شکر رواں ہوگیا۔ آج بھی اس لازوال پرفارمنس پر میں ہمہ وقت اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں جس نے مجھ سے ناقابل یقین کارکردگی دکھواکر پاکستان کو بھارتی سرزمین پر سیریز جتوائی۔
اقبال قاسم نے اس میچ کی پہلی اننگز میں 19 رنز اور 5 وکٹوں کی پرفارمنس دی جبکہ دوسری اننگز میں ان کے 26 قیمتی رنز اور بھارت کے چاروں ٹاپ کلاس بیٹسمینوں کی وکٹیں بلاشبہ ایک کارنامہ تھیں تاہم اس میچ میں کا مین آف دی میچ کا ایوارڈ بھارتی اوپنر سنیل گاوسکر کو دیا گیا جنہوں نے پہلی اننگز میں ایک اور دوسری اننگز میں 96 رنز بنائے۔ یہ گاوسکر کے ٹیسٹ کیریئر کا آخری مقابلہ تھا۔ اس حوالے سے اقبال قاسم سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میچ میں پاکستان کے لیے فتح گر کارکردگی دکھانا میرے لیے مین آف دی میچ کے ایوارڈ سے کہیں زیادہ اہم تھا اور وہ پرفارمنس ایسے وقت پیش کی جب پوری پاکستانی قوم کے ہاتھ فتح کے لیے بلند ہو رہے تھے۔ اس لیے میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کہ میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز کس کو ملا۔ اس زمانے میں نیوٹرل امپائروں کا بھی رواج نہیں تھا اس لیے مقامی امپائرز ہی یہ فریضہ انجام دیتے تھے جس وجہ سے کچھ فیصلے بھارت کے حق میں چلے گئے تاہم الحمد للہ میچ کا نتیجہ ہمارے حق میں رہا۔ اگر مین آف دی میچ کا ایوارڈ مجھے مل جاتا تو یقینی طور پر میری خوشی دگنی ہوجاتی لیکن پھر بھی کہوں گا کہ پاکستان کو میچ جتوانا اس اعزاز سے کہیں زیادہ اہم تھا۔
توصیف احمد
اس تاریخی مقابلے میں اقبال قاسم کا ساتھ دوسرے گیند باز توصیف احمد نے میچ میں 9 وکٹیں حاصل کر کے دیا۔ توصیف احمد نے اس میچ کے حوالے سے اپنی جو یادیں اور تحفظات بتائے وہ نذرِ قارئین ہیں۔
بھارت کے خلاف بھارت میں فتح یقینی طور پر ہر ٹیم کے لیے کسی خواب سے کم نہیں ہے اور آج بھی جب بنگلور ٹیسٹ کا ذکر آتا ہے مجھے وہی خوشی محسوس ہوتی ہے جو آج سے 25 سال قبل اس وقت محسوس ہورہی تھی جب ہم نے یہ یادگار فتح حاصل کی تھی۔ ہم اس میچ کی وکٹ صحیح طرح سمجھ نہیں سکے تھے اس لیے اس میچ میں اضافی فاسٹ بولر سلیم جعفر کو شامل کیا گیا جنہوں نے وہ پورا میچ ایک گیند پھینکے بغیر کھیلا۔ ہم پر اس میچ کی پہلی اننگز میں جلد آؤٹ ہونے کے بعد دباؤ بھی بہت زیادہ تھا کہ جلد سے جلد بھارتی ٹیم کو آؤٹ کیا جائے جسے میں نے اور اقبال قاسم نے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور اللہ کا کرم ہے کہ ہم نے حریف ٹیم کو بھی زیادہ بڑا اسکور نہیں کرنے دیا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ پاکستان کی دوسری اننگز میں میرے اور سلیم یوسف کے درمیان 49 رنز کی شراکت نے بھی پاکستان کے اسکور کو مستحکم کیا حالانکہ اس شراکت میں میرے رنز دس ہی تھے۔ لیکن وہ رفاقت بھی پاکستان کی فتح کا ایک اہم سبب تھی۔ ان دنوں ٹیسٹ میں آرام کا ایک دن ہوا کرتا تھا، تو ایک دعوت میں ہماری ملاقات سابق بھارتی اسپنر بشن سنگھ بیدی سے ہوگئی جس سے میں نے اور اقبال قاسم نے ان سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں وکٹ میں ٹرن تو ہے ہی بس آپ لوگ اپنی لائن و لینتھ پر قابو رکھیے گا اور ہم نے ویسا ہی کیا جس پر ہمیں تواتر سے وکٹیں ملتی رہیں ہم نے جب یہ بات بھارتی ذرائع ابلاغ کوبتائی تو وہاں کی عوام اور میڈیا بیدی کے خلاف ہوگیا لیکن انہوں نے سب کو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ میں طویل عرصے سے بھارتی اسپنرز کو یہ مشورہ دے رہا ہوں انہوں نے تو اس کو سنا تک نہیں اگر اقبال اور توصیف نے میری پانچ منٹ کی ملاقات میں ایک بات پر عمل کردیا تو یقیناً وہ شاباش کے مستحق ہیں۔
ویسے اس میچ میں مجھ پر زیادہ دباؤ نہیں تھا کیونکہ میں پہلے سے ہی پاکستانی ٹیم میں شامل تھا تاہم اقبال قاسم پر بہت زیادہ پریشر تھا کیونکہ وہ بعد میں آکر ٹیم میں شامل ہوئے تھے اتفاق سے ہم دونوں کا کمرہ ایک ہی تھا اور ہم بنگلور ٹیسٹ کے ہر دن کے اختتام پر خود کو اپنے کمرے میں محصور کرلیتے تھے اور آپس میں مشورے کرتے رہتے تھے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ ساری دنیا بالخصوص پورے پاکستان کی نگاہیں ہم پر تھیں، اس لیے شکست کی صورت میں سارا ملبہ بھی ہم پر ڈالا جا سکتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے دوران اقبال قاسم، جو میرے سینئر بھی تھے، نے مجھے بہت زیادہ سپورٹ کیا اور مفید مشورے بھی دیئے ہمیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ عموماً پاکستانی کھلاڑیوں کے کیریئر بھارتی دورے کے بعد اختتام پذیر ہوجاتے ہیں اس لیے دباؤ کی شدت بھی بڑھ گئی تھی تاہم اللہ کا شکر ہے کہ ایک اینڈ سے اقبال قاسم اور دوسرے اینڈ سے میں بھارتی بیٹسمینوں کو پویلین بھیجتے رہے ایک موقع پر جب سنیل گاوسکر اور اظہر الدین وکٹ پر جم رہے تھے ایسے میں اقبال قاسم نے اظہر الدین کو جس طرح اپنی ہی گیند پر کیچ آؤٹ کرکے پویلین واپس بھیجا وہ لمحہ ناقابل فراموش ہے۔ اس کے بعد جب انہوں نے سنیل گاوسکر کی اہم وکٹ گرائی تب ملنے والی خوشی کبھی لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ بلا شبہ وہ میچ میری زندگی کا سب سے بڑا میچ تھا۔
مین آف دی میچ کا ایوارڈ سنیل گاوسکر کو دیئے جانے پر میں بالکل خوش نہیں ہوں کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سنیل ایک بڑا کھلاڑی ہے لیکن اس میچ میں اقبال قاسم نے جن سنسنی خیز لمحات میں پاکستان کو فتح دلوائی تھی اس پر بہترین کھلاڑی کا اعزاز اقبال قاسم کو ہی دیا جانا چاہیے تھا۔ سنیل گاوسکر کی کارکردگی میں بھارتی امپائرز کے جانبدارانہ فیصلوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا۔ گو کہ میچ منتظمین نے اقبال قاسم کی جرات مندانہ کارکردگی کو تسلیم نہیں کیا لیکن آج بھی پوری دنیا اقبال قاسم ہی کو بنگلور کا ہیرو سمجھتی ہے۔
تاریخی مقابلے کا اسکور کارڈ
بھارت بمقابلہ پاکستان
پانچواں ٹیسٹ
13 تا 17 مارچ 1987ء
ایم چناسوامی اسٹیڈیم، بنگلور، بھارت
نتیجہ: پاکستان 16 رنز سے فتح یاب
میچ کے بہترین کھلاڑی: سنیل گاوسکر (بھارت)
سیریز کے بہترین کھلاڑی: عمران خان (پاکستان)
پاکستان (پہلی اننگز) | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
رمیز راجہ | ک وینگسارکر ب کپل | 22 | 27 | 4 | 0 |
رضوان الزماں | ب کپل | 0 | 1 | 0 | 0 |
سلیم ملک | ب منندر | 33 | 60 | 5 | 0 |
جاوید میانداد | ک شاستری ب منندر | 7 | 32 | 1 | 0 |
منظور الہی | ک اظہر ب منندر | 0 | 3 | 0 | 0 |
عمران خان | ک امرناتھ ب منندر | 6 | 19 | 1 | 0 |
وسیم اکرم | ب منندر | 0 | 3 | 0 | 0 |
سلیم یوسف | ک و ب شاستری | 0 | 8 | 0 | 0 |
اقبال قاسم | ب منندر | 19 | 28 | 3 | 0 |
توصیف احمد | ناٹ آؤٹ | 15 | 72 | 0 | 0 |
سلیم جعفر | ک وینگسارکر ب منندر | 8 | 50 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 2، ل ب 1، ن ب 3 | 6 | |||
مجموعہ | 49.2 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 116 |
بھارت (گیند بازی) | اوور | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
کپل دیو | 11 | 2 | 23 | 2 |
راجر بنی | 3 | 0 | 25 | 0 |
مہندر امرناتھ | 3 | 1 | 7 | 0 |
منندر سنگھ | 18.2 | 8 | 27 | 7 |
روی شاستری | 11 | 1 | 19 | 1 |
شیولعل یادیو | 3 | 0 | 12 | 0 |
بھارت (پہلی اننگز) | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
سنیل گاوسکر | ب توصیف | 21 | 73 | 2 | 0 |
کرس سری کانت | ب توصیف | 21 | 29 | 4 | 0 |
مہندر امرناتھ | ب توصیف | 13 | 78 | 1 | 0 |
دلیپ وینگسارکر | ک منظور ب توصیف | 50 | 84 | 7 | 1 |
محمد اظہر الدین | ک منظور ب اقبال قاسم | 6 | 30 | 0 | 0 |
روی شاستری | ک سلیم ملک ب توصیف | 7 | 15 | 1 | 0 |
کپل دیو | ک سلیم ملک ب اقبال قاسم | 9 | 18 | 2 | 0 |
راجر بنی | ک توصیف ب اقبال قاسم | 1 | 29 | 0 | 0 |
کرن مورے | ناٹ آؤٹ | 9 | 13 | 0 | 1 |
شیولعل یادیو | ب اقبال قاسم | 0 | 6 | 0 | 0 |
منندر سنگھ | ک سلیم یوسف ب اقبال قاسم | 0 | 10 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 4، ل ب 4 | 8 | |||
مجموعہ | 64 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 145 |
پاکستان (گیند بازی) | اوور | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
عمران خان | 5 | 0 | 26 | 0 |
وسیم اکرم | 2 | 0 | 9 | 0 |
اقبال قاسم | 30 | 15 | 48 | 5 |
توصیف احمد | 27 | 7 | 54 | 5 |
پاکستان (دوسری اننگز) | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
رمیز راجہ | ب یادیو | 47 | 94 | 4 | 0 |
جاوید میانداد | ک سری کانت ب شاستری | 17 | 37 | 2 | 0 |
رضوان الزماں | ب شاستری | 1 | 9 | 0 | 0 |
سلیم ملک | ب کپل | 33 | 62 | 4 | 0 |
اقبال قاسم | ک سری کانت ب یادیو | 26 | 47 | 3 | 0 |
عمران خان | ک سری کانت ب شاستری | 39 | 100 | 3 | 0 |
منظور الہی | ک مورے ب منندر | 8 | 53 | 0 | 1 |
وسیم اکرم | ایل بی ڈـلیو ب منندر | 11 | 12 | 1 | 1 |
سلیم یوسف | ناٹ آؤٹ | 41 | 90 | 4 | 0 |
توصیف احمد | ک یادیو ب شاستری | 10 | 62 | 1 | 0 |
سلیم جعفر | ک گاوسکر ب منندر | 0 | 5 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 7، ل ب 8، ن ب 1 | 16 | |||
مجموعہ | 94.5 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 249 |
بھارت (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
کپل دیو | 12 | 2 | 25 | 1 |
منندر سنگھ | 43.5 | 8 | 99 | 3 |
روی شاستری | 24 | 3 | 69 | 4 |
شیولعل یادیو | 15 | 3 | 41 | 2 |
بھارت (ہدف: 221 رنز) | رنز | گیندیں | چوکے | چھکے | |
---|---|---|---|---|---|
سنیل گاوسکر | ک رضوان ب اقبال قاسم | 96 | 264 | 8 | 0 |
کرس سری کانت | ایل بی ڈبلیو ب وسیم اکرم | 6 | 16 | 0 | 0 |
مہندر امرناتھ | ک سلیم یوسف ب وسیم اکرم | 0 | 1 | 0 | 0 |
دلیپ وینگسارکر | ب توصیف | 19 | 66 | 1 | 0 |
کرن مورے | ایل بی ڈبلیو ب توصیف | 3 | 27 | 0 | 0 |
محمد اظہر الدین | ک و ب اقبال قاسم | 26 | 75 | 3 | 0 |
روی شاستری | ک و ب اقبال قاسم | 4 | 27 | 0 | 0 |
کپل دیو | ب اقبال قاسم | 2 | 13 | 0 | 0 |
راجر بنی | ک سلیم یوسف ب توصیف | 15 | 48 | 0 | 1 |
شیولعل یادیو | ب توصیف | 4 | 10 | 1 | 0 |
منندر سنگھ | ناٹ آؤٹ | 2 | 16 | 0 | 0 |
فاضل رنز | ب 22، ل ب 5 | 27 | |||
مجموعہ | 93.5 اوورز میں تمام وکٹوں کے نقصان پر | 204 |
پاکستان (گیند بازی) | اوورز | میڈن | رنز | وکٹیں |
---|---|---|---|---|
وسیم اکرم | 11 | 3 | 19 | 2 |
اقبال قاسم | 37 | 11 | 73 | 4 |
توصیف احمد | 45.5 | 12 | 85 | 4 |