ایشیا کپ: بنگلہ دیش کے نئے دور کا آغاز؟

0 1,003

’بابائے کرکٹ‘ انگلستان کے مقبوضہ علاقوں میں جیسے جیسے یہ کھیل مقبولیت پاتا گیا، وہاں سے بھی عظیم ٹیمیں ابھرنے لگیں۔ ابتدائی طور پر تو آسٹریلیا اور انگلستان ہی کرکٹ کھیلتے تھے لیکن پھر ایک ایک کر کے جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز، بھارت اور نیوزی لینڈ ان صفوں میں شامل ہوتے گئے اور بعد ازاں پاکستان، سری لنکا اور زمبابوے نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں اپنا مقام حاصل کیا۔ یہاں تک کہ 1999ء میں بنگلہ دیش نے عالمی کپ کے دوران پاکستان کے خلاف یادگار فتح حاصل کی تو کرکٹ حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا کہ بنگلہ دیش کو ٹیسٹ رکنیت فراہم کی جائے جو کافی عرصے سے محض 9 ممالک تک محدود تھی اور بالآخر 2000ء میں بنگلہ دیش کو ٹیسٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی اور وہ آئی سی سی کا دسواں مستقل رکن بن گیا۔

عالمی چیمپئن بھارت کے خلاف شاندار کارکردگی بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کی اہلیت کی عکاس تھی (تصویر: AFP)
عالمی چیمپئن بھارت کے خلاف شاندار کارکردگی بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کی اہلیت کی عکاس تھی (تصویر: AFP)

گو کہ بنگلہ دیش نے اپنے بین الاقوامی سفر کا آغاز 1986ء کے ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف پہلے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے سے کیا تھا اور اس کے بعد ملک کے شہری علاقوں میں کرکٹ مشہور ہوتی چلی گئی اور اس نے ملک کے مشہور ترین کھیل فٹ بال کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لیکن یہ 1999ء میں پہلی بار عالمی کپ میں جگہ پانے کے بعد پاکستان کے خلاف تاریخی فتح تھی جو ایک سنگ میل ثابت ہوئی اور ایک ہی سال میں بنگلہ دیش ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔

لیکن بدقسمتی سےاس کے بعد ٹیم وابستہ توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ اپنے پیشرو ممالک سری لنکا اور زمبابوے نے کہیں کم عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل اپنے کثیر وسائل بنگلہ دیش پر صرف کر رہی ہے، جو ان وسائل سے کہیں زیادہ ہیں جو اس نے ماضی میں سری لنکا اور زمبابوے پر لگائے تھے۔ سری لنکا نے جلد ہی عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا لیا لیکن زمبابوے کی کرکٹ 1999ء کے بعد سیاسی و حکومت زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور اب ایک مرتبہ پھر ’کرکٹ بے بی‘ بن چکی ہے۔ لیکن پے در پے شکستوں نے بنگلہ دیش ٹیم کے مورال کو بہت پست کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ کرکٹ گروؤں کے ماتھے پر بھی شکنیں نمودار ہونے لگی ہیں اور چند حلقوں کی طرف سے تو مکمل رکنیت واپس لینے کے مطالبے بھی سامنے آئے ہیں۔

12 سالہ تاریخ میں کھیلے گئے 73 ٹیسٹ میں سے بنگلہ دیش صرف تین میں ہی فتوحات حاصل کر پایا ہے جبکہ ڈرا مقابلوں کی تعداد بھی محض 7 ہے یعنی کہ اسے 63 ٹیسٹ مقابلوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ان تین فتوحات میں سے بھی ایک زمبابوے اور دو داخلی تنازعات کے شکار ویسٹ انڈیز کے خلاف تھیں۔ شکست خوردہ مقابلوں کی تقریباً نصف تعداد ایسی ہے جن میں بنگلہ دیش کو اننگز سے ہارنا پڑا۔ گو کہ ایک روزہ میں صورتحال کچھ بہتر نظر آتی ہے لیکن اس میں بھی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کی شدید کمی دکھائی دیتی ہے۔

محدود طرز کی کرکٹ میں بنگلہ دیش کا کمزور ترین پہلو بیرون ملک کارکردگی دکھانے میں ناکامی ہے۔ 2001ء میں اپنے پہلے دورۂ زمبابوے میں اسے نہ صرف دونوں ٹیسٹ بلکہ تینوں ایک روزہ مقابلوں میں بھی بدترین شکست ہوئی۔ پھر ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بھی دونوں مقابلے اننگز کے مارجن سے ہارا لیکن اس کے بعد ہوم گراؤنڈ پر زمبابوے جیسے کمزور حریف کے ہاتھوں ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں سیریز میں شکست ’خطرے کی گھنٹی‘ تھی۔ بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا اور ایک روزہ کرکٹ میں اکا دکا اچھی کارکردگی کے علاوہ بنگلہ دیش کسی کو بھی متاثر کرنے میں ناکام رہا۔

کارکردگی کے عدم تسلسل کی واضح مثال عالمی کپ 2011ء ہے۔ ٹیم نے ایک جانب آئرلینڈ اور نیدرلینڈز کے علاوہ انگلستان کے خلاف تاریخی فتح حاصل کی تو دوسری جانب ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے خلاف بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف مقابلے میں بنگال کے بلے باز صرف 58 رنز پر ڈھیر ہو گئے جو اس کا تاریخ کا کمترین مجموعہ ہے۔ تسلسل میں یہی کمی ہے جو چند ایک مقابلوں میں فتوحات کے بعد شائقین کرکٹ کو ملنے والے حوصلوں کو مزید پست کر دیتی ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔ ایشیا کپ 2012ء ایک ایسے ٹورنامنٹ کی صورت میں سامنے آیا جس میں بنگلہ دیش مکمل طور پر مختلف روپ میں نظر آیا ہے۔ اس نے افتتاحی میچ میں پاکستان کے خلاف سخت ترین مزاحمت کی اور اگر پاکستان عمر گل اور سعید اجمل جیسے عالمی معیار کے گیند بازوں کا حامل نہ ہوتا تو بنگلہ دیش وہ مقابلہ با آسانی جیت جاتا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش نے عالمی چیمپئن بھارت کے خلاف تاریخی فتح سمیٹی اور پھر سری لنکا کو بھی ہرا کر فائنل تک رسائی حاصل کی جہاں سنسنی خیز معرکہ آرائی کے بعد وہ صرف دو رنز سے شکست کھا کر ایشین چیمپئن بننے سے محروم ہو گیا۔

اس مسلسل اچھی کارکردگی کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ ایشیا کپ بنگلہ دیش کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس کے بلے بازوں، گیند بازوں حتیٰ کہ فیلڈرز نے بھی انتہائی عمدہ کارکردگی پیش کی اور شائقین و ماہرین کرکٹ کو مایوس نہیں کیا۔

پھر بنگلہ دیش میں شائقین کرکٹ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ جس کا اظہار حالیہ ایشیا کپ ہی سے ہو گیا ہوگا کہ جس میں صرف بنگلہ دیش کے نہیں بلکہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں بھی شائقین کی بڑی تعداد میدان میں موجود رہی۔ اس لیے اگر بنگلہ دیش فتوحات کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا تو اس سے ملک میں کرکٹ کے بڑھتے ہوئے جذبے کو سخت ٹھیس پہنچنے کا امکان ہے۔

ویسے کیا ایسا لگتا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کے عروج کی جانب سفر کا آغاز ہے؟ بالکل یہ ممکن ہے کہ منزل کا پہلا پڑاؤ ہو لیکن اس کے لیے بنگلہ دیش کو کچھ بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔ ایک تو اپنے مقامی کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط تر بنانا ہوگا اور خصوصاً فرسٹ کلاس کرکٹ کو مستحکم کرنا ہوگا تاکہ اصل کرکٹ یعنی ٹیسٹ میں بنگلہ دیش کو بنیاد ملے۔ اس کے علاوہ ایک اچھی کوشش حالیہ ’بنگلہ دیش پریمیئر لیگ‘ ہے جس کے نتیجے میں مقامی کھلاڑیوں کو کئی معروف و مضبوط کرکٹرز کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل رہا ہے اور یہ ان کے اعتماد میں زبردست اضافے کا باعث ہے۔ کئی ماہرین تو اس وقت بھی کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کی ٹیم میں یکدم بہتری آنے کا ایک سبب ’بی پی ایل‘ ہے جس نے کھلاڑیوں کے اعتماد میں گوناگوں اضافہ کیا ہے۔