سرفراز احمد، پاکستان کی وکٹ کیپر تلاش مکمل؟

2 1,030

پاکستان عرصہ دراز سے ایک اچھے وکٹ کیپر کی تلاش میں ہے۔ 90ء کی دہائی کے وسط سے لے کر اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں تک یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو راشد لطیف اور معین خان کے اعلیٰ پائے کے وکٹ کیپرز میں سے ایک کو باہر بٹھانا پڑتا تھا لیکن اس کے بعد ایسا قحط الرجال آیا کہ پاکستان کے پاس سوائے کامران اکمل کے وکٹ کیپر کے لیے کوئی اور آپشن ہی نہیں تھا۔ گو کہ کامران کی بیٹنگ کی صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، انہوں نے پاکستان کی چند انتہائی یادگار فتوحات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن ان کی وکٹ کیپنگ کی ناقص صلاحیت سب پر آشکار ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو چند تاریخی شکستیں بھی سہنا پڑی ہیں۔

مستقل مواقع دینے کی صورت میں ہی سرفراز اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھا پائیں گے (تصویر: AFP)
مستقل مواقع دینے کی صورت میں ہی سرفراز اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھا پائیں گے (تصویر: AFP)

دور جدید کی کرکٹ میں وکٹ کیپرز کا کردار ماضی سے کہیں زیادہ اہم ہے کیونکہ امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام (ڈی آر ایس) کو اپنانے کے بعد وکٹ کیپر ہی وہ سب سے اہم کھلاڑی ہے جو درست ترین فیصلے کی جانب ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کی رہنمائی کر کے ان کے ’ریویو‘ کو کارآمد بنا سکتا ہے۔ دوسری جانب وکٹ کیپر کی سستی یا کیچ چھوڑنے سے بحیثیت مجموعی ٹیم کے مورال پر جتنا برا اثر پڑتا ہے، وہیں اس کی اچھی کارکردگی بھی پوری ٹیم کے حوصلوں کو بلند کرتی ہے۔ چاہے وہ اپنے بلے سے کچھ رنز بنا پائے یا نہیں لیکن وکٹوں کے پیچھے رنز بچانے اور وکٹیں سمیٹنے کی صلاحیت ہی میچ میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے عظیم آسٹریلوی کھلاڑی این چیپل نے یہ تک کہہ ڈالا کہ ”اگر کامران اکمل ڈان بریڈمین جتنی اچھی بلے بازی کریں تب بھی وہ اتنے رنز نہیں بنا سکتے جتنے کا خسارہ ٹیم کو ان کی وکٹ کیپنگ کی وجہ سے سہنا پڑتا ہے۔“

پاکستان کے آخری ماہر وکٹ کیپر راشد لطیف نے بھی بارہا کامران اکمل کو باہر کرنے اور ان کی جگہ سرفراز احمد اور سلمان احمد کو مواقع دینے کا مطالبہ کیا اور خصوصی طور پر انہوں نے ایشیا کپ 2008ء کی ٹیم سے سرفراز احمد کے اخراج کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ سرفراز کو ٹیم سے باہر نکالنا اس کے اعتماد کو کم کرنے کے مترادف ہے۔

کامران اکمل کے جانشیں کی حیثیت سے ملک میں سب سے پہلے 25 سالہ سرفراز احمد کا نام آتا ہے جن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ اب تک ایک ٹیسٹ اور 18 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایشیا کپ کے فائنل میں اپنے کیریئر کا بہترین اسکور 46 رنز بنایا اور پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان 200 رنز بھی حاصل کرتا دکھائی نہ دیتا تھا، یہ سرفراز کی ذمہ دارانہ بلے بازی اور آخری اوورز میں 19 رنز سمیٹنا ہی تھا جس نے فیصلہ کن حیثیت حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان سنسنی خیز معرکے کے بعد 2 رنز سے فتح یاب ٹھیرا۔

ٹیسٹ میں سرفراز کو واحد موقع اُس وقت دیا گیا جب کامران اکمل نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی بدترین کارکردگی دکھائی یعنی 2010ء کے سڈنی ٹیسٹ میں، جہاں کامران اکمل کے مسلسل موقع گنوانے کے باعث پاکستان جیتا ہوا ٹیسٹ ہار بیٹھا۔ کامران پر زبردست تنقید کے باعث پاکستان کو ہوبارٹ ٹیسٹ کے لیے خصوصی طور پر سرفراز احمد کو کراچی سے طلب کرنا پڑا لیکن یہ ان کا واحد ٹیسٹ قرار پایا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان ذوالقرنین حیدر اور سلمان احمد کو تو آزما چکا ہے لیکن سرفراز کو دوبارہ کبھی ٹیسٹ کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ علاوہ ازیں ایک روزہ کرکٹ میں ذوالقرنین کو آزمانے کے ساتھ ساتھ خود کامران کو واپس ٹیم میں بھی طلب کیا گیا جبکہ کبھی کبھار تو ان کے بھائی عمر اکمل کو متبادل وکٹ کیپر کے طور پر کھلایا گیا لیکن سرفراز کو بہت کم مواقع دیے گئے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا۔

اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ بھی لیا جائے تو پاکستان گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے اسپنرز پر بہت زیادہ بھروسہ کر رہا ہے اور ان کی کارکردگی بھی اس بھروسے کی بہت بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کے تین کلیدی اسپنرز سعید اجمل، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ حال ہی میں بیک وقت ایک روزہ کرکٹ کے گیند بازوں کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست 10 میں شامل تھے بلکہ سعید اور حفیظ تو اب بھی موجود ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو جلد از جلد کسی ایسے مستقل وکٹ کیپر کی تلاش ہے، جو وکٹوں کے پیچھے خوبی کے ساتھ ذمہ داریاں سنبھال سکے۔ اگر اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ ہمیں وکٹ کیپر درکار ہے اور کچھ دیر کے لیے وکٹ کیپر بیٹسمین کو ذہن سے نکال دیا جائے تو سرفہرست سرفراز احمد ہی ہوں گے۔

یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ سرفراز کی بلے بازی کی صلاحیتیں کامران اکمل کے برابر نہیں ہوں گی لیکن انہوں نے اب تک وکٹ کیپنگ میں کوئی ایسا ’کارنامہ‘ انجام نہیں دیا ہے جس کی بنیاد پر انہیں کامران سے کم صلاحیتوں کا حامل وکٹ کیپر قرار دیا جائے۔

2006ء میں انڈر-19 ورلڈ کپ جیتنے والے پاکستانی دستے کے قائد رہنے والے سرفراز نے حالیہ ایشیا کپ کے فائنل میں اپنی بلے بازی کے جوہر بھی دکھا دیے ہیں اور انتہائی نازک صورتحال میں اپنی اہلیت کو ثابت کیا ہے، جس کی بنیاد پر امید کی جا سکتی ہے کہ سرفراز کو مستقل مواقع دیے جائیں گے اور وہ ایک مرتبہ پھر محض چند مقابلوں کے بعد صرف ’بوقت ضرورت‘ طلب نہیں کیے جائیں گے۔