[اعداد وشمار] حالیہ کارکردگی، پاکستان ٹیسٹ میں بھی سب سے آگے

0 1,019

میں نے اپنی گزشتہ تحریر میں عالمی کپ کے بعد ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی کو اچھی طرح جانچا و پرکھا اور اعداد و شمار کی بنیاد پر پاکستان کو سال گزشتہ کی بہترین ایک روزہ ٹیم قرار دیا اور آج اب یکم جنوری 2011ء سے تادمِ تحریر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی ٹیسٹ میں کارکردگی کا جائزہ لوں گا، جس میں بلاشبہ پاکستان نے سالِ گزشتہ میں عظیم کارنامے انجام دیے ہیں۔ جس میں عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف تاریخی کلین سویپ اور سری لنکا کے خلاف زبردست سیریز فتوحات بھی شامل ہیں۔

انگلستان کے خلاف کلین سویپ کو عالمی کپ 1992ء کے بعد پاکستان کا سب سے عظیم کارنامہ سمجھا جا رہا ہے (تصویر: AFP)
انگلستان کے خلاف کلین سویپ کو عالمی کپ 1992ء کے بعد پاکستان کا سب سے عظیم کارنامہ سمجھا جا رہا ہے (تصویر: AFP)

اگر اعداد و شمار کو ملاحظہ کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یکم جنوری 2011ء سے اب تک طویل طرز کی کرکٹ میں میں سب سے عمدہ کارکردگی پاکستان نے پیش کی ہے۔ جس نے اِس عرصے میں 13 ٹیسٹ مقابلے کھیلے اور سب سے زیادہ یعنی 9 میں فتوحات حاصل کیں اور سب سے کم یعنی صرف ایک میں شکست اٹھائی۔ یوں پاکستان کا فتح/شکست کا تناسب 9.00 بنتا ہے جو دنیا کی تمام ٹیسٹ ٹیموں سے بہتر ہے۔ پاکستان نے اس عرصے میں واحد شکست دورۂ ویسٹ انڈیز میں کھائی جہاں پاکستان نے کیربین سرزمین پر پہلی بار سیریز جیتنے کا سنہری موقع گنوایا اور گیانا ٹیسٹ میں 40 رنز کی شکست نے ان کے سفید دامن پر ایک دھبہ ڈال دیا۔ تاہم اس کے بعد پاکستان فتوحات کی راہ پر ایسا گامزن ہوا کہ سری لنکا اور پھر عالمی نمبر ایک انگلستان بھی ان کے سامنے نہ جم سکا۔ سال کی سب سے عمدہ فتح پاکستان نے حال ہی میں انگلستان کے خلاف متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں حاصل کی جہاں کھیلے گئے تینوں ٹیسٹ میچز پاکستان نے جیتے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ انگلستان کو کلین سویپ سے دوچار کیا۔ مصباح الحق نے وہ کارنامہ کر ڈالا جسے عمران خان اور پاکستان کے دیگر لیجنڈری کپتان بھی نہ انجام نہ دے سکے۔

مذکورہ عرصے کے دوران پاکستان اور جنوبی افریقہ ہی ایسی ٹیمیں ہیں جنہوں نے کوئی سیریز نہیں ہاری، باقی تمام ٹیمیں کم از کم ایک سیریز ضرور ہاری ہیں۔ پاکستان نے 6 میں سے 5 سیریز جیتی ہیں اور صرف ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک سیریز برابری کی بنیاد پر ختم ہوئی تھی۔

دوسری جانب بھارت، جو ایک سال قبل ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست تھا، نے سال 2011ء کے آغاز سے اب تک سب سے زیادہ 15 ٹیسٹ کھیلے ہیں اور صرف 3 جیت پایا ہے جبکہ 8 میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ انتہائی مایوس کن کارکردگی کسی بھی نمبر ایک ٹیم کے شایانِ شان نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ بھارت کو پہلے انگلستان کے خلاف کلین سویپ کے ساتھ اپنی پہلی پوزیشن اور بعد ازاں آسٹریلیا کے ہاتھوں وائٹ واش کی وجہ سے دوسری پوزیشن سے بھی محروم ہونا پڑا۔ جی ہاں، اس عرصے میں بھارت نے بیرون ملک مسلسل آٹھ ٹیسٹ میچز میں شکست کھائی اور انگلستان و آسٹریلیا کے دوروں پر ہندوستانی ٹیم کسی ایک ٹیسٹ میں بھی فتحیا ب نہ ہوسکی۔

اگر بلے بازی کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ عرصے کے دوران پاکستان کی بیٹنگ نے سرفہرست انگلستان اور جنوبی افریقہ کے بعد سب سے زیادہ مضبوط کارکردگی دکھائی ۔ پاکستانی بلے بازوں نے 37.04 رنز فی وکٹ کا زبردست اوسط حاصل کیا، لیکن زمبابوے کے بعد پاکستان ہی ایک ایسی ٹیم ہے جس کا فی اوور رنز بنانے کا اوسط محض 2.79 رہا جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے بلے بازوں نے وکٹ پر ٹھیرنا تو سیکھ لیا ہے، لیکن حریف گیند بازوں پر غلبہ پانا نہیں۔ پھر بھی کیونکہ تمام تر کارکردگی کا انحصار نتائج پر ہوتا ہے اس لیے پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی کو بھی زبردست قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہاں پر میں کرک نامہ کے شائقین کے لیے ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ بھارت جس کی بیٹنگ لائن اپ کا شمار دنیا کے بہترین سلسلوں میں ہوتا ہے ان کا فی وکٹ اوسط صرف 29.16 رنز ہے جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بھارتی بلے بازوں کے لیے وکٹ پر ٹھیرنا بہت مشکل رہا ہے خصوصاً انگلستان و آسٹریلیا کی گیند بازوں کے لیے مددگار پچوں پر تو اُن کے چھکے چھوٹ گئے اور اس پورے عرصے میں سوائے راہول ڈریوڈ کے کوئی بھارتی بلے باز قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکا۔

آئیے نیچے دیے گئے جدول میں مزید حقائق ملاحظہ کرتے ہیں:

یکم جنوری 2011ء سے 25 مارچ 2012ء تک تمام ٹیسٹ ٹیموں کی کارکردگی بلحاظ بیٹنگ

ٹیم مقابلے فتوحات شکستیں برابر فتح/شکست تناسب اوسط رنز فی اوور بہترین مجموعہ کمترین مجموعہ
13 9 1 3 9.00 37.04 2.79 594 99
12 7 3 2 2.33 35.07 3.46 659 47
11 6 3 2 2.00 42.79 3.53 710 72
9 4 2 2 2.00 37.56 3.42 580 96
15 3 8 4 0.37 29.16 3.21 631 158
9 3 3 2 1.00 28.14 3.12 495 110
10 2 4 4 0.50 27.66 2.95 590 134
12 1 5 6 0.20 29.68 2.99 483 82
4 1 3 0 0.33 27.36 2.78 412 51
5 0 4 1 0.00 27.37 3.15 350 135

اگر گیند بازی کا جائزہ لیا جائے تو اس شعبے میں بھی پاکستان سرفہرست رہا ہے۔ اعداد و شمار کا قابل ذکر ترین حصہ یہ ہے کہ پاکستان کے گیند بازوں نے سب سے کم یعنی 24.76 کے اوسط سے وکٹیں حاصل کیں جو دنیا کی تمام ٹیموں میں سب سے عمدہ اوسط ہے۔ دوسری جانب بھارت کے گیند باز بنگلہ دیش اور سری لنکا کے بعد سب سے زیادہ مہنگے ثابت ہوئے۔

یکم جنوری 2011ء سے 25 مارچ 2012ء تک تمام ٹیسٹ ٹیموں کی باؤلنگ کارکردگی

ٹیم مقابلے باؤلنگ اوسط رنز فی اوور
13 24.76 2.76
12 26.81 3.11
11 27.77 3.00
9 26.73 3.20
15 39.39 3.42
9 31.64 3.05
10 33.00 3.21
12 43.70 3.27
4 38.93 3.37
5 48.56 3.22

بحیثیت مجموعی 2011ء کے آغاز سے لے کر اب تک پاکستان کے بلے بازوں اور گیند بازوں دونوں نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو مندرجہ بالا دونوں جدول میں اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر یہی کارکردگی پاکستان اگلے دو سالوں تک مستقل پیش کرنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ بلاشبہ عالمی درجہ بندی میں سرفہرست آ سکتا ہے۔

مصنف کا تعارف: شفقت ندیم سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹویٹر (@Shafqatcricket) پر کرکٹ کے حوالے سے ایک معروف نام ہیں، آپ کرک نامہ پر ”گیارہویں کھلاڑی“ کے نام سے تحاریر و معلومات کا سلسلہ پیش کرتے ہیں۔ آپ انہیں یہاں پر فالو کر سکتے ہیں اور کرکٹ کی تازہ ترین معلومات اور ریکارڈز سے آگہی حاصل کر سکتے ہیں۔