واٹمور بایو مکینکس لیب کی جلد تکمیل کے خواہشمند

ماضی میں کئی باؤلرز کو باؤلنگ ایکشن کو جانچنے اور بہتر بنانے کے لیے آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں واقع بایو مکینکس لیب کا استعمال کیا گیا، جن میں شعیب اختر اور پڑوسی ممالک کے ہربھجن سنگھ و متیاہ مرلی دھرن نمایاں تھے جن کے ایکشن کی جانچ کی گئی۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے متعدد پاکستانی گیند بازوں کے باؤلنگ ایکشن کو مشتبہ قرار دیا گیا تو سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نسیم اشرف نے لاہور میں حیاتی میکانیات (بایومکینکس) کی تجربہ گاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ’انڈور پریکٹس ایریا‘ کو مختص کیا گيا اور 30 سے 40 ملین روپے کی لاگت سے 16 سے زائد کیمرے اور دیگر مشینری خریدی گئی لیکن نئے چیئرمین اعجاز بٹ کے آتے ہی یہ منصوبہ ’سرخ فیتے‘ کی نذر ہو گیا۔

لیکن اب پاکستان کے نئے کوچ ڈیو واٹمور بایومکینکس لیبارٹری کے قیام کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں تاکہ نہ صرف غیر قانونی باؤلنگ ایکشن کی جانچ کی جا سکے بلکہ بلے بازوں کی تکنیک کو بھی بہتر بنانے میں مدد حاصل ہو۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے باخبر ذرائع نے ’کرک نامہ‘ کو بتایا ہے کہ واٹمور نے بورڈ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تجربہ گاہ کے قیام کو حتمی شکل دیں۔ اگر اس تجربہ گاہ کو مکمل طور پر فعال کر دیا گیا تو پاکستان ٹیسٹ کھیلنے والا تیسرا ملک ہوگا جس میں حیاتیاتی میکانیات کی لیبارٹری موجود ہوگی۔ اس وقت صرف آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ ہی ایسے ملک ہیں جہاں ایسی تجربہ گاہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے ”واٹمور عام کوچز سے مختلف ہیں جو وڈیو تجزیہ کار کے ساتھ مل کر صرف وقت گزاری نہیں گزارتے بلکہ انہیں ایک سائنٹیفک کوچ کہا جا سکتا ہے، اور وہ این سی اے میں بایومکینکس آلات کی حالت دیکھ کر کافی پریشان ہو گئے ہیں۔“
اس مجوزہ تجربہ گاہ میں پاکستان اپنے گیند بازوں کے ایکشن کو بہتر بنانے پر کام کر سکتا ہے اور یہ جان سکتا ہے کہ ان کے باؤلنگ ایکشن میں کیا مسائل ہیں؟ یوں ان کی رفتار بڑھانے یا ایکشن بہتر بنانے پر کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ تجربہ گاہ صرف گیند بازوں کے لیے نہیں بلکہ بلے بازوں کے لیے کارآمد ہو سکتی جس کے ذریعے وہ اپنی بیٹنگ تکنیک کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اگر چیئرمین ذکا اشرف فوری طور پر اس تجربہ گاہ کی منظوری دیں تو اس منصوبے کی تکمیل اور فعالیت میں چار سے پانچ ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈیو واٹمور اپنے جنوبی افریقی دوستوں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو اس کام میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ فعال ہونے کی صورت میں نہ صرف پاکستان بلکہ قریبی ممالک جیسے بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی اپنے گيند بازوں کے باؤلنگ ایکشن جانچنے کے لیے اس تنصیب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔