بنگلہ دیش کا مجوزہ دورۂ پاکستان؛ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

1 1,072

گو کہ بنگلہ دیش 80ء کی دہائی میں بین الاقوامی کرکٹ کے منظرنامے پر ابھرا تھا لیکن 1999ء تک وہ نمایاں ہو کر سامنے نہیں آ سکا یہاں تک کہ اس نے عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کیا اور پاکستان کے خلاف مقابلہ جیت کر ماہرین کرکٹ کو حیرت زدہ کر دیا۔ یہی فتح تھی جس نے بنگلہ دیش کو بعد ازاں ٹیسٹ کھیلنے والا دسواں ملک بنایا۔

گو کہ 1971ء میں قیام بنگلہ دیش سے قبل، سرزمین بنگال پر کافی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی گئی اور پاکستان نے کئی یادگار مقابلے ڈھاکہ میں کھیلے، لیکن اس کے باوجود مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں کرکٹ کو بڑے پیمانے پر فروغ نہیں مل سکا اور صرف چند ہی نام قومی سطح پر سامنے آ سکے۔ یہاں تک کہ سقوط ڈھاکہ رونما ہوا، جس کے بعد فطری طور پر دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات سردمہری کا شکار ہو گئے اور یہ تلخی کرکٹ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ 12 سالوں میں صرف دو مرتبہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے، جن میں سے ایک دورہ چند ماہ قبل اس خفیہ شرط کے ساتھ کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش جواب میں پاکستان میں ایک سیریز کھیلے گا تاکہ یہاں کے میدانوں کی رونقیں بحال ہوں۔ جبکہ بنگلہ دیش نے آخری مرتبہ 2008ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد مارچ 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گرد حملے کے باعث پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ مکمل طور پر بند ہو گئی۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کو حفاظتی انتظامات کی بھرپور یقین دہانی کروائی لیکن اس کے باوجود دورے کے امکانات فی الحال نظر نہیں آتے (تصویر: AFP)
پاکستان نے بنگلہ دیش کو حفاظتی انتظامات کی بھرپور یقین دہانی کروائی لیکن اس کے باوجود دورے کے امکانات فی الحال نظر نہیں آتے (تصویر: AFP)

کرکٹ تعلقات میں سردمہری کے باوجود پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ سطح پر ہمیشہ بنگلہ دیش کے موقف کی حمایت کی ہے اور 2000ء میں جب اسے ٹیسٹ ملک کا درجہ دیا گیا تھا تو پاکستان سرفہرست حامیوں میں شامل تھا۔

پاکستان کرکٹ کے چیئرمین ذکا اشرف نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پہلا ہدف ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی قرار دیا تھا اور اسی مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو بنگلہ دیش کے اضافی دورے پر بھی بھیجا۔

پاکستان کے اس کامیاب دورۂ بنگلہ دیش کے بعد گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کا ایک وفد پاکستان آیا اور یہاں کے حفاظتی انتظامات کے معائنے کے بعد مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ جس کے بعد توقع ہو چلی تھی کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ ایک مرتبہ پھر بحال ہو جائے گی لیکن ۔۔۔۔ پھر ایشیا کپ کے فوراً بعد بنگلہ دیش نے قلابازی کھاتے ہوئے اپنا موقف بدل دیا اور مختلف حیلے بہانے کرنے لگا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی شکست نے منظرنامہ بدل دیا ہے۔ بہرحال، گو کہ اب تک بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کی جانب سے باضابطہ طور پر اس امر کا اعلان نہیں کیا گیا کہ مجوزہ دورۂ پاکستان منسوخ ہو چکا لیکن ذرائع کے مطابق جتنی بھی خبریں سامنے آئی ہیں ان سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ایسے کسی دورے کا امکان نہیں ہے۔

اس امر سے قطع نظر کہ بنگلہ دیش جیسی دوسرے درجے کی ٹیم کے دورۂ پاکستان نے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی راہ کس قدر ہموار ہوگی، اگر یہ مجوزہ دورہ منسوخ ہوا تو یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی بہت بڑی سفارتی شکست ہوگی۔ بہرحال، اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی مکمل بحالی کا انحصار امن و امان کی صورتحال کی بہتری پر ہے جو بلاشبہ اب تک اتنی اچھی نہیں ہے۔

پاکستانی کرکٹ حلقے اس نئی صورتحال سے خوش نہیں ہیں، ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑتادکھائی دیتا ہے اور اس کے نقصانات صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ سب سے پہلے تو پاکستان آئی سی سی کی نائب صدارت کے معاملے پر بنگلہ دیش کی حمایت سے ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ آئندہ دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ سیریز کا انعقاد بہت مشکل ہو جائے گا۔

ویسے غور طلب امر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے رویے میں اچانک تبدیلی کیوں کر آئی؟ ہمارے خیال میں اس کا سب سے بڑا محرک بنگلہ دیشی حکومت ہے جو اس وقت پاکستان مخالف عوامی لیگ کے پاس ہے اور وہ ہر گز نہیں چاہے گی کہ ان کے کسی عمل سے پاکستان کو فائدہ پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بجائے پاکستان کے ساتھ کھیلنے کے بھارت سے سیریز کو ترجیح دی ہے۔ ذرائع کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش رواں سال بھارت کا دورہ کرے گا۔ اس طرح پاکستان کو 'دودھ میں سے مکھی کی طرح' نکالا جا سکتا ہے۔

اب 'پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ' کہ آئندہ چند روز میں پاک-بنگلہ کرکٹ تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ جو کچھ بھی ہو بقول ذکا اشرف کے پاکستان میں سیریز کے انعقاد کا فیصلہ 'آخری گیند' پر ہی ہوگا۔