پاکستان میں فی الفور بین الاقوامی کرکٹ واپس نہیں آ سکتی: جیفری بائیکاٹ

0 1,009

پاکستان کرکٹ بورڈ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی میں کامیاب تو نہیں ہو سکا، لیکن اس نے معاملے کو دنیائے کرکٹ کے 'گرما گرم' ایشوزمیں سے ایک ضرور بنا دیا ہے۔ گو کہ ملک میں ایسے وقت میں دیگر ٹیموں کی واپسی کی توقع کرنا عبث ہے جبکہ امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، لیکن اس کے باوجود پی سی بی کی سر توڑ کوششیں اس سمت میں جلد ہی کسی مثبت پیشرفت کے امکان کو تازہ کیے ہوئے ہیں۔

اگر پاکستان دیگر ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کو کھیلتے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا (تصویر: Getty Images)
اگر پاکستان دیگر ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کو کھیلتے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا (تصویر: Getty Images)

انگلستان کے سابق کپتان اور معروف تبصرہ نگار نے بھی انہی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں ایک اور ٹیم پر حملہ ہو گیا تو آنے والےکئی سالوں تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکے گا۔ اس لیے موجودہ حالات میں 'اوکھلی میں سر دینا' ایک بے وقوفانہ حرکت ہوگی کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان دنیائے کرکٹ میں تنہا ہو سکتا ہے۔

معروف ویب سائٹ کرک انفو کے پروگرام 'Bowl at Boycs' میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جیف بائیکاٹ نے کہا کہ پاکستان بہت اچھے کھلاڑیوں کی سرزمین ہے اور وہ بلاشبہ عالمی کرکٹ کی بڑی ٹیموں میں سے ایک ہے۔ لیکن پاکستان کے حوالے سے تمام تر خیر خواہی بھی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے اور اب بھی دورۂ پاکستان اور وہاں کرکٹ کھیلنے کے بارے میں ذہنوں میں بہت سے خدشات موجود ہیں۔

بائیکاٹ نے کہا کہ یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ کھلاڑیوں اور دیگر حکام کی حفاظت فوج کرے گی کیونکہ فوج کو اس وقت سری لنکا کے کھلاڑیوں کو بچانے کے لیے بھی موجود ہونا چاہیے تھے جب انہیں گولیاں ماری جا رہی تھیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے مجوزہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے کہا، جو اب ملتوی کر دیا گیا ہے، کہ اس مرتبہ بہت اعلی حفاظتی انتظامات کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن یہ سب کچھ تو پچھلی مرتبہ ہونا چاہیے تھا۔ اگر صاف الفاظ میں کہا جائے تو پاکستان میں اس وقت زبردست شورش برپا ہے اور اگر پاکستان دیگر ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کو کھیلتے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی ٹیموں کی آمد پاکستان میں نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کتنا اہم ہے۔ اپنے عزم و حوصلے کو تقویت بخشنے والی کرکٹ نہ دیکھنے کے باعث نوجوان کھیل میں دلچسپی ختم کر کے کسی اور جانب متوجہ ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ اہم ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کرکٹ کھیلے۔ نوجوانوں کے لیے اپنے ہیروز اور قومی کرکٹ ٹیم کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہےکہ لوگ جمع ہوں اور میچز کا لطف اٹھانے کے لیے جائیں۔ ہم میں سے کوئی بھی فرد کسی پاکستانی کے منہ سے یہ جملہ نہیں سننا چاہتا "بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہو رہی؟ نہ ہو، میری دلچسپیاں کچھ اور ہیں۔" اس لیے بہرحال یہ بات تو اپنی جگہ مسلّم ہے کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جائے، لیکن شائقین اسے پاکستانی کرکٹ انتظامیہ کی وجہ سے غلط ڈھنگ اختیار کرتے دیکھنا نہیں چاہتے۔

بائیکاٹ نے کہا کہ پاکستان کرکٹ کے کئی مثبت پہلو ہیں، میں کئی سابق و موجودہ کھلاڑیوں، انفرادی شخصیات اور منتظمین کو جانتا ہوں اور ہم سب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی چاہتے ہیں، لیکن یہ کام کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کا ہے کہ وہ اس مرتبہ بین الاقوامی سیریز کو زیادہ بہتر انداز سے منظم منعقد کریں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال سیکورٹی فورسز اور منتظمین کے لیے بہت کٹھن مرحلہ ہے لیکن ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے درست ترین وقت کا تعین کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان نے 2009ء کے اوائل سری لنکا کو مکمل یقین دہانی کے بعد دورے کے لیے قائل کیا تھا لیکن بدقسمتی سے لاہور میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران نامعلوم دہشت گردوں نے ٹیم کے قافلے پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار جاں بحق اور سری لنکن ٹیم کے متعدد اراکین زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کاخاتمہ ہو گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ کی کئی ماہ کی کوششوں کے بعد بنگلہ دیش نے دورۂ پاکستان پر رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن گزشتہ روز ڈھاکہ کی عدالت عالیہ کے حکم امتناعی کے باعث اب بنگلہ دیشی ٹیم اگلے ایک ماہ تک پاکستان کا دورہ نہیں کر سکتی۔ اس صورتحال نے پاکستان میں بین الاقوامی کی ممکنہ واپسی کے امکانات ایک مرتبہ پھرختم کر دیے ہیں۔