’متنازع جشن‘ رام دین پر میچ فیس کا 20 فیصد جرمانہ عائد

2 1,027

سر ویوین رچرڈز کی تنقید کا بر سرعام میں جواب دینے پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر دنیش رام دین پر 20 فیصد میچ فیس کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ ایجبسٹن، برمنگھم میں انگلستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تیسرا ٹیسٹ مکمل ہونے پر آئی سی سی میچ ریفریروشن مہاناما نے کہا ہے کہ ”ہم سنگ میل عبور پر اس کی خوشی منانے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن کسی کو بھی اس موقع کو اپنے کسی ناقد پر حملہ کرنے یا دنیا کو کوئی پیغام پہنچانے کے لیےاستعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ رام دین نے اس واقعے سے سبق سیکھ لیا ہے اور ہم آئندہ بین الاقوامی کرکٹ میں رام دین اور دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے بھی خوشی مناتے یا اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ایسی کوئی حرکت نہیں دیکھیں گے۔“

دنیش نے سنچری کے جشن کو ایک جانب رکھتے ہوئے پہلے ناقد کو جواب دینا ضروری سمجھا (تصویر: Getty Images)
دنیش نے سنچری کے جشن کو ایک جانب رکھتے ہوئے پہلے ناقد کو جواب دینا ضروری سمجھا (تصویر: Getty Images)

دنیش رام دین نے آخری ٹیسٹ کے چوتھے روز جب اپنی سنچری مکمل کی تو بجائے دور جدید کے دیگر بلے بازوں کے اچھلنے، کودنے، چیخنے، چلانے یا دانت دکھانے کے انتہائی سنجیدہ چہرے کے ساتھ پہلے بلّا پھینکا، پھر دستانے اُتارے، اور پاجامے کی بائیں جیب میں سے ایک کاغذ کا پرزہ نکال کر میڈیا باکس کی جانب لہرایا جس پر لکھا تھا 'Yea, Viv, talk nah' یعنی ’ہاں، ویو، بول نا‘۔ یوں انہوں نے کیریئر کی دوسری سنچری بنا کر ویسٹ انڈیز کے لیجنڈری بلے باز ویوین رچرڈز کی اُس تنقید کا جواب دیا جو انہوں نے بی بی سی ریڈیو کے خصوصی پروگرام میں کی تھی۔ اتنے واضح اور براہ راست جواب کا تو ویوین کو اندازہ بھی نہ ہوگا لیکن چند سیکنڈز کی یہ حرکت تہلکہ مچا چکی۔ یہاں تک کہ دنیش رام دین کو خود معاملے میں کود کر کہنا پڑا ہے کہ وہ اور ٹیم کے تمام اراکین سر ویوین اور ویسٹ انڈیز کے دیگر لیجنڈری کھلاڑیوں کی دل سے عزت کرتے ہیں اور اس کا مقصد ان کی تذلیل نہیں تھا۔ سر ویو نے میرے بارے میں ذرائع ابلاغ پر کچھ کہا اور میں حد سے زیادہ جذباتی ہوگیا اور یہ حرکت کر بیٹھا۔

رام دین نے کہا کہ ویوین رچرڈز کے تبصرے نے انہیں کافی اذیت پہنچائی تھی لیکن میں نے سخت محنت کی اور تنقید کو غلط ثابت کیا۔ ٹیسٹ کی عالمی نمبر ایک ٹیم کے خلاف اسی کے میدان پر تنقید کا جواب میرے بلے نے دے دیا تھا اور مجھے کاغذ لہرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے میں صورتحال واضح کرنے کے لیے سر ویوین رچرڈز سے ملنے کا خواہشمند ہوں۔