محمد عرفان قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی کے لیے پر تولنے لگے
کرکٹ کا حسن تیز باؤلرز ہیں، اور ان میں سے کئی تو بلے بازوں کے لیے دہشت کی علامت بھی رہے ہیں خصوصاً طویل قامت کے حامل باؤلرز ہمیشہ بلے بازوں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بنتے رہی ہیں۔ پاکستان میں وسیم اکرم سے لے کر شبیر احمد اور محمد زاہد اور ویسٹ انڈیز میں جوئیل گارنر سے لے کر میلکم مارشل اور پھر کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی واش تک، جہاں جہاں طویل قامت کے تیز باؤلرز نے قدم رکھا، بلے بازوں کو تگنی کا ناچ نچا کر دکھایا۔ اس وقت دنیائے کرکٹ میں طویل قامت کے دو باؤلرز ہیں جن کا مستقبل روشن ہے۔ ایک بھارت کے ایشانت شرما اور دوسرے پاکستان کے محمد عرفان۔
کرک نامہ کو بذریعہ ٹیلی فون خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے محمد عرفان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کی نمائندگی کا موقع ملنے پر غیر متاثر کن کارکردگی پیش کرنے کے باوجود جلد ہی قومی کرکٹ ٹیم میں مستقل حیثیت حاصل کر لیں گے اور اپنے آئیڈیل وسیم اکرم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے لیے فتوحات سمیٹنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
محمد عرفان کا تعلق پاکستان کی تاریخ کے تیز ترین گیندبازوں میں سے ایک محمد زاہد کے قصبے گگو منڈی سے ہے اور وہ 'سوئنگ باؤلنگ کے شہنشاہ' وسیم اکرم کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور ان کی اب بھی خواہش ہے کہ وہ وسیم اکرم سے باؤلنگ کے گر سیکھیں۔ اس وقت کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے باؤلنگ کوچ کے فرائض انجام دینے والے وسیم اکرم پوری دنیا خصوصاً پاکستان کے تیز باؤلرز کے لیے ایک مقناطیسی کشش رکھتے ہیں اور تقریباً تمام ہی نوجوان تیز باؤلرز کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ اتنے بڑے باؤلر سے کچھ سیکھ سکیں۔ عرفان نے کہا کہ ”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ستمبر 2010ء میں مجھے قومی اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا، جس سے چند ماہ قبل میں تربیت کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں موجود تھا جب وسیم اکرم پہلی مرتبہ میری موجودگی میں وہاں آئے۔ وہ مجھ سے مل کر کافی خوش ہوئے اور کہا کہ تمہارا قد تو مجھ سے بھی لمبا ہے، تم بیٹسمینوں کے لیے کافی پریشانی کا سبب بن سکتے ہو۔ پھر انہوں نے مجھے چند ٹپس دیں جس سے میری باؤلنگ میں کافی بہتر ی آئی جبکہ اس مختصر سی ملاقات میں انہوں نے میرے باؤلنگ ایکشن میں بھی کچھ بہتری کروائی۔ اس کے علاوہ ابھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام لگنے والے فاسٹ باؤلرز کیمپ میں سرفراز نواز نے بھی مجھے کافی مفید مشورے دیئے ہیں جبکہ وقار یونس نے قومی ٹیم کی کوچنگ کے دوران بھی مجھ پر کافی محنت کی۔“
محمد عرفان، جو پاکستان کی جانب سے دو ایک روزہ مقابلے کھیل چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ ٹیم سے باہر ہونے پر افسردہ ضرور ہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سخت محنت ایک مرتبہ پھر انہیں بین الاقوامی کرکٹ میں واپس لے آئے گی۔
عرفان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ ڈیو واٹمور کے ساتھ نیشنل کوچنگ سینٹر میں ہونے والے سیشن میں قومی کوچ نے مجھے کہا کہ تمہیں انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے جلد میدان میں اتار دیا گیا تھا، تم پر مزید محنت کرنی چاہیے تھی لیکن مجھے آج بھی افسوس ہے کہ میں موقع ملنے کے باوجود کچھ زیادہ اچھی کارکردگی پیش نہیں کرسکا۔ دراصل میں کافی لمبا سفر کرکے انگلستان پہنچا تھا، جس وجہ سے تھکا ہوا تھا، لیکن میں اسے بہانے کے طور پر پیش نہیں کر رہا، میں درحقیقت شرمندہ ہوں کہ نہ صرف میں اس وقت کے کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس اور دیگر کھلاڑیوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکا بلکہ میں نے قوم کو بھی مایوس کیا۔ لیکن اب میں نے فٹنس اور باؤلنگ پر بھرپور محنت کر رہا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ ڈومیسٹک ون ڈے کرکٹ ٹورنامنٹ کے محض چار میچوں میں میں نے 15 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اب امید ہے کہ جلد پاکستانی ٹیم میں واپس آؤں گا اور میری واپسی قومی ٹیم کے مستقل فاسٹ باؤلر کی حیثیت سے ہوگی۔
تقریباً 7 فٹ قد کے حامل محمد عرفان کو انڈین پریمیئر لیگ کی ٹیم کولکتہ نائٹ رائیڈر نے اپنے کیمپ میں شامل کیا تھا اور اس وقت پاکستان ٹیم کے موجود کوچ ڈیو واٹمور، جو اس وقت کولکتہ کے کوچ تھے، محمد عرفان سے کافی متاثر ہوئے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ نائٹ رائیڈرز کو عرفان کی خدمات حاصل کرنے کا موقع ملے۔
اس حوالے سے عرفان کا کہنا تھا کہ ”مجھے یاد ہے کہ سری لنکا میں کولکتہ نائٹ رائیڈر کے لگنے والے کیمپ میں مجھے ڈیو واٹمور سمیت متعدد کھلاڑیوں نے میری کارکردگی کو سراہا تھا، لیکن وہ ماضی کا قصہ ہے لیکن اب جبکہ ایک مرتبہ پھر پاکستانی کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں شمولیت کے اشارے مل رہے ہیں تو میری کوشش ہوگی کہ اچھی کارکردگی پیش کرکے نہ صرف پاکستانی ٹیم میں جگہ بناؤں بلکہ کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی نمائندگی کا جو موقع ضایع ہو گیا تھا، اسے بھی حاصل کرسکوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اب بھی کولکتہ نائٹ رائیڈر کی انتظامیہ سے روابط ہیں۔“
تیز باؤلرز کی یارکرز بلے بازی کی دنیا کے بڑے بڑے بتوں کو زمین چاٹنے پر مجبور کرتے رہے ہیں اور تاریخ کے تمام عظیم تیز باؤلرز اس گیند پر مکمل عبور رکھتے تھے اور محمد عرفان کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے اس گیند پر خصوصی محنت کی ہے۔ ”یارکرز کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور تیز باؤلرز کے لیے تو یہ گیند خاص ہتھیار ہوتی ہے، میں پہلے یارکر کرتا تھا تو درست ترین جگہ پر نہیں پڑتا تھا لیکن ابھی تربیتی کیمپوں میں اور ڈومیسٹک سیزن میں نے اپنی یارکرز اور ان سوئنگ گیندوں پر کافی محنت کی ہے۔ آؤٹ سوئنگ پر مجھے پہلے ہی عبور حاصل تھا جبکہ وسیم اکرم اور وقار یونس سے ملنے والی ریورس سوئنگ کی ٹپس نے میری صلاحیتوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اب میں نئے اور پرانے دونوں گیندوں سے حریف بلے بازوں کو پریشان کرسکتا ہوں۔“
جس طرح ہر گیند باز کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص کرکٹر کو ضرور آؤٹ کرے، بالکل اسی طرح محمد عرفان نے بھی آنکھوں میں ایک خواب سجا رکھا ہے کہ وہ کسی میچ میں بھارت کے لٹل ماسٹر سچن تنڈولکر اور ماسٹر بلاسٹر وریندر سہواگ کو پویلین واپس بھیجیں۔
حال ہی میں قومی کرکٹرز کے لیے مرکزی معاہدوں (سینٹرل کانٹریکٹ) کی فہرست میں محمد عرفان کا نام نہیں تھا جس پر ان کا کہنا ہے کہ بورڈ نے جن کھلاڑیوں کو معاہدے سے نوازا ہے، وہ اس کے مستحق تھے۔ میں سخت محنت کروں گا تاکہ اگلی مرتبہ میں کانٹریکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤں۔