پاک-لنکا دوسرا ٹیسٹ ڈرا، بارش جیت گئی

1 1,051

کولمبو میں پاک-سری لنکا دوسرے ٹیسٹ کو مصباح کی جرات مندانہ ڈکلیئریشن بھی ثمر آور نہ بناسکی اور بارش جیت گئی۔ یوں سری لنکا کو سیریز میں 1-0 کی ناقابل شکست برتری حاصل ہو گئی ہے۔ سنہالیز اسپورٹس کلب کی ’فیصل آبادی‘ پچ میں اتنے رنز تھے کہ دو بلے باز ڈبل سنچری کے قریب تک پہنچ گئے، ایک تو بدقسمت کمار سنگاکارا تھے جو سیریز میں دوسری بار چند رنز سے ڈبل سنچری بنانے سے محروم رہ گئے اور دوسرے پاکستان کے نائب کپتان محمد حفیظ تھے جو محض 4 رنز کے فرق سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے۔

کولمبو میں زمین پر ’مردہ پچ‘ اور آسمان پر بادلوں کی حکمرانی رہی (تصویر: AFP)
کولمبو میں زمین پر 'مردہ پچ' اور آسمان پر بادلوں کی حکمرانی رہی (تصویر: AFP)

اس میچ کا ایک دن سے زائد کا کھیل بارش کی نذر ہوا، لیکن آخری روز توقعات سے کہیں زیادہ دلچسپ ثابت ہوا۔ پاکستان کے لیے ایک لحاظ سے مایوس کن امر یہ رہا کہ وہ پہلے سیشن میں کوئی وکٹ حاصل نہ کر پایا اور یہیں سے سری لنکا کو میچ بچانے کا بھرپور موقع مل گیا۔ اگر پاکستان کھانے کے وقفے سے پہلے کچھ وکٹیں گرا دیتا اور اسے فالو آن پر مجبور کرتا تو ممکن تھا کہ وہ بقیہ کھیل میں مزید بہتر باؤلنگ کے ذریعے میچ اننگز سے جیت جاتا یا معمولی ہدف کا تعاقب کرتا۔ بہرحال اس وکٹ پر تو یہ خام خیالی ہی تھی لیکن وقفے کے فوراً بعد پاکستانی گیند بازوں خصوصاً جنید خان کی فارم واپس آئی اور پاکستان نے 21 رنز پر سری لنکاکی آخری 5 وکٹیں ہتھیا لیں اور پہلی اننگز میں 160 رنز کی برتری حاصل کر لی۔ اُس وقت دن میں تقریباً 60 اوورز کا کھیل باقی تھا اور پاکستان نے تیز رفتار کھیل کا مظاہرہ کر کے چائے کے وقفے کے فوراً بعد اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور دن کے بقیہ 37 اوورز میں سری لنکا کو جیتنے کے لیے 261 رنز کا مشکل ہدف دیا۔ ابتدا میں تو سری لنکا اس ہدف کو حاصل کرنے کے ارادے کے ساتھ میدان میں اترا، اور تھارنگا پرناوتنا اور تلکارتنے دلشان کی تیز رفتار بلے بازی ان ارادوں کی غماز تھی لیکن دلشان کی وکٹ گرنے کے بعد اس نے تعاقب نہ کرنے کا سوچا اور جب دن کے آخری 15 اوورز کے آغاز پر امپائر نے پوچھا کہ کیا وہ ہدف کا تعاقب کرنا چاہیں گے تو مہیلا جے وردھنے نے بخوشی میچ کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور ڈرا پر ہی اکتفا کیا۔ یوں پاکستان کی ایک سیشن کی شاندار کارکردگی بھی میچ کو نتیجہ خیز نہ بنا پائی۔ اگر پاکستان پہلے سیشن میں یہ کارنامہ انجام دے دیتا تو ہو سکتا ہے میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔

میچ کے پہلے روز پاکستان نے سری لنکا کے ٹاس جیت کر بیٹنگ دینے کے فیاضانہ فیصلے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بیٹنگ لائن اپ جو پورے دورے میں مسلسل ناکام ثابت ہوئی پہلی بار حریف گیند بازوں پر حاوی دکھائی دی۔ مہیلا جے وردھنے نے ’بلے بازوں کی جنت‘ پر ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کر کے پاکستان کو سیریز میں اپنا اعتماد بحال کرنے کا سنہرا موقع فراہم کیا ۔ زیر عتاب مہمان بلے باز بھی گویا اس موقع کے منتظر تھے، اوروہ رنز پر اس طرح لپکے جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔

سری لنکا کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے پاکستان کی بیٹنگ کو کمزور جانا اور سمجھا کہ وہ ابتدا ہی میں اسے دباؤ میں لا کر سیریز میں فیصلہ کن برتری حاصل کرنا چاہتا تھا اور محمد حفیظ، اظہر علی اور توفیق عمر کی عمدہ بلے بازی نے اس کے ’پلان اے‘ کو تو ناکام بنا دیا ہے خصوصاً ان تینوں بلے بازوں نے جس رفتار کے ساتھ رنز بنائے ہیں اس کی ماضی قریب میں پاکستانی بیٹنگ لائن اپ سے امید نہیں کی گئی۔ وہ ٹیم جو ٹیسٹ میں اپنے ’ٹک ٹک‘ انداز کے باعث بدنام ہے نے پہلے روز 3.71 کے اچھے اوسط کے ساتھ رنز بنائے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے روز کے اختتام پر 334 رنز کا بھاری مجموعہ اسکور بورڈ پر جگمگا رہا ہے۔

توفیق عمر کی برق رفتار بیٹنگ کی بدولت اوپنرز نے 78 رنز کا عمدہ آغاز فراہم کیا جس کے بعد سری لنکن باؤلرز اور فیلڈرز کی طویل ’خواری‘ کا آغاز ہوا اور وہ پورے دن کی دوڑ دھوپ اور کوششوں کے باوجود ایک وکٹ حاصل نہ کر پائے۔توفیق نے74 گیندوں پر 65 رنز بنائے۔

دورۂ سری لنکا میں مسلسل جدوجہد کرنے والےپاکستان کے تجربہ کار آل راؤنڈر محمد حفیظ نے اس موقع کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اک ایسے وقت میں جب کرکٹ حلقوں میں یہ بات بہت زیادہ گردش کر رہی تھی کہ حفیظ کی فارم کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹیم سے باہر کر دینا چاہیے، انہوں نے ایک شاندار اننگز کھیل کر ناقدین کے منہ بند کر دیے۔ کسی حد تک خوش قسمتی بھی ان کے ساتھ رہی، وہ ایک مرتبہ نو بال پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے اور ایک مرتبہ امپائر نے انہیں آؤٹ قرار نہیں دیا لیکن وہ اس سے پہلے ہی اعتماد کی بحالی کے لیے کافی رنز بنا چکے تھے۔

محمد حفیظ کیریئر کی بہترین اننگز کو ڈبل سنچری میں نہ بدل پائے اور وکٹ گنوا بیٹھے (تصویر: Getty Images)
محمد حفیظ کیریئر کی بہترین اننگز کو ڈبل سنچری میں نہ بدل پائے اور وکٹ گنوا بیٹھے (تصویر: Getty Images)

البتہ پاکستان کی جوابی کارروائی کے سرخیل محمد حفیظ کیریئر کی بہترین اننگز کو ڈبل سنچری میں نہ بدل پائے ۔ وہ صرف 4 رنز کے فاصلے سے اپنی پہلی ڈبل سنچری سے محروم ہو گئے۔ میچ کے دوسرے روز حریف گیند باز رنگانا ہیراتھ کی گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھا کر یہ سنگ میل عبور کرنے کی کوشش کرنا انہیں بہت مہنگا پڑ گیا اور اتنی طویل اننگز کے بعد وہ کف افسوس ملتے ہوئے میدان سے باہر آئے۔ اگر حفیظ 200 رنز بنانے میں کامیاب ہو جاتے تو پاکستان کی تاریخ کے 19 ویں بلے باز بن جاتے جنہوں نے کم از کم ایک مرتبہ ڈبل سنچری ضرور بنائی ہے۔(ڈبل سنچری کے قریب آ کر اس سے محروم ہو جانے والے پاکستانی بلے بازوں کی فہرست

331 گیندوں پر 20 چوکوں اور ایک چھکے سے مزین 196 رنز کی یہ اننگز حفیظ کو تاعمر یاد رہے گی تاہم رنگانا ہیراتھ کی ایک گیند کو آگے بڑھے کے سویپ کرنے کی کوشش انہیں بہت مہنگی پڑ گئی اور وہ اپنی لیگ اسٹمپ گنوا بیٹھے۔ حفیظ کی اس اننگز میں 1 چھکا اور 20 چوکے شامل تھے اور یہ 427 منٹ پر محیط رہی۔

اس اننگز کے دوران حفیظ نے اظہر علی کے ساتھ پہلی اننگز میں 287 رنز کی شراکت داری قائم کی اور دوسری وکٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی رفاقت کا اعزاز بھی حاصل نہ کرپائے جو 291 رنز ہے اور ظہیر عباس اور مشتاق محمد کے پاس ہے۔ اظہر علی اپنے کیریئر کے بہترین اسکور یعنی 157 پر ہی آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے 295 گیندوں پر محض 9 چوکوں کی مدد سے یہ اننگز تراشی اور 458 منٹ تک کریز پر قابض رہے۔

پاکستان نے مصباح الحق کے ناقابل شکست 66 رنز کی بدولت 551 رنز کا ہمالیہ جیسا مجموعہ تو اکٹھا کر لیا لیکن بارش اتنا کھیل ضایع کر چکی تھی کہ جب انہوں نے اننگز ڈکلیئر کی تو تیسرے روز کا پہلا سیشن چل رہا تھا۔ سری لنکا کی جانب سے رنگانا ہیراتھ نے 3 جبکہ سورج رندیو اور اینجلو میتھیوز نےایک، ایک وکٹ حاصل کی۔ سری لنکا نے پہلی اننگز کا آغاز کیا اور ابتداء میں آؤٹ آف فارم تھارنگا پرناوتنا کی وکٹ گرنے کے باوجود معاملہ سنبھال لیا۔ تلکارتنے دلشان اور کمار سنگاکارا نے اس ہموار وکٹ پر رنز کے انبار لگا دیے۔ دونوں نے دوسری وکٹ پر پاکستانی گیند بازوں کا وہی حال کیا جو کچھ دیر قبل ان کے سری لنکن ساتھی پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھوں سہہ رہے تھے۔ دونوں نے دوسری وکٹ پر 225 رنز جوڑے اور پھر چوتھے روز کی شام پاکستان نے ایک ہی ہلے میں اس کی چار وکٹیں کھڑکا دیں۔ پہلے دلشان 121 پر جنید خان کی دوسری وکٹ بنے۔ 195 گیندوں پر کھیلی گئی یہ اننگز پاکستانی باؤلرز کا سخت امتحان تھی۔ اس کے بعد جنید نے کچھ ہی دیر بعد حریف قائد مہیلا جے وردھنے کو صفر پر ٹھکانے لگا دیا۔ سعید اجمل نے تھیلان سماراویرا کو صفر پر ایل بی ڈبلیو کیا تو سری لنکا کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ بالآخر عبد الرحمن نے 278 کے مجموعے پر نائٹ واچ مین سورج رندیو کی وکٹ حاصل کی تو امپائر نے چوتھے روز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اک مردہ پچ پر جنید خان کی عمدہ باؤلنگ نے مقابلے کے تن مردہ میں روح پھونک دی، لیکن ٹیسٹ پھر بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا (تصویر: AFP)
اک مردہ پچ پر جنید خان کی عمدہ باؤلنگ نے مقابلے کے تن مردہ میں روح پھونک دی، لیکن ٹیسٹ پھر بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا (تصویر: AFP)

پانچویں روز کا آغاز ہوا تو سری لنکا اب بھی فالو آن کے خطرے سے نہیں نکلا تھا اور اب اس کا تمام تر انحصار کمار سنگاکارا پر تھا جنہوں نے پانچویں روز اسی اعتماد کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا اور اینجلو میتھیوز نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ دونوں کھلاڑیوں نے چھٹی وکٹ پر 92 رنز کی شراکت قائم کر کے اہم ترین سیشن نکالا بلکہ میچ پر پاکستان کی مضبوط ہوتی گرفت کو بھی ڈھیلا کیا۔ گو کہ پاکستان نے پہلے سیشن کی ناکامی کے بعد سنگاکارا آؤٹ کرتے ہی تمام وکٹیں سمیٹ لیں لیکن میچ مہمان ٹیم کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ سنگاکارا بدقسمتی سے مسلسل دوسرے میچ میں ’نروس ون نائنٹیز‘ کا شکار ہوئے اور اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر پائے۔ انہوں نے 351 گیندوں پر 15 چوکوں اور ایک چھکے سے سجی 192 رنز کی ایک خوبصورت اننگز کھیلی۔ وہ گال ٹیسٹ میں 199 رنز بنانے کے باوجود ٹیم کے دیگر اراکین کے آؤٹ ہونے کی وجہ سے مایوس واپس لوٹے تھے۔

جنید خان نے ایک مردہ وکٹ پر بہترین باؤلنگ کی اور 73 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جس پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ عبد الرحمن، جو اب تک اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کر پائے تھے، 4 وکٹیں حاصل کر کے سری لنکن اننگز کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک وکٹ سعید اجمل کو حاصل ہوئی جو حیران کن طور پر اس میچ میں ان کی واحد وکٹ تھی۔

سری لنکا کی پہلی اننگز کے اختتام کے وقت آخری روز 60 اوورز کا کھیل باقی تھا، پاکستان نے 18 اوورز کھیلے اور برق رفتار 100 رنز بعد اننگز ڈکلیئر کر کے سری لنکا کو 37 اوورز میں 261 کا ہدف دیا لیکن وہ 86 رنز ہی بنا پایا اور میچ وقت سے قبل ختم کر دیا گیا۔

پاکستان نے ابتدا ہی سے جارحانہ حکمت عملی اپنائی اور 11 ویں اوور میں 51 رنز پر محمد حفیظ (21 رنز) کی وکٹ گرنے کے بعد عبد الرحمن کو تیز رفتار بیٹنگ کے لیے ون ڈاؤن بھیجا گیا جنہوں نے 3 چھکوں اور 3 چوکوں سے محض 22 گیندوں پر 36 رنز بنائے۔ توفیق عمر 57 گیندوں پر 42 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔

ان پانچوں ایام میں جس چیز پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی وہ سنہالیز اسپورٹس کلب کی وکٹ تھی۔ اک ایسا میدان جہاں گزشتہ 5 میں سے 4 مقابلے بے نتیجہ ختم ہوئے، میں پانچ دنوں میں 1128 رنز بنے اور صرف 20 وکٹیں گریں۔ پاکستان جیسی کمزور بیٹنگ لائن اپ نے دونوں مرتبہ اپنی اننگز ڈکلیئر کیں۔ ان 20 میں سے 9 وکٹیں تو آخری روز گریں جب پاکستان نے ایک ہی جھٹکے میں سری لنکا کی آدھی لائن اپ کو گھر کا راستہ دکھایا۔

گو کہ پاکستان میچ جیت کر سیریز کو برابر کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اب وہ جیت بھی نہیں سکتا، کیونکہ صرف ایک مقابلہ باقی ہے اور وہاں فتح بھی سیریز کو برابر ہی کر سکتی ہے، جتوا نہیں سکتی لیکن گال میں عبرتناک شکست کے بعد پاکستان نے کھیل کے تمام شعبوں میں جیسی بہتری دکھائی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصباح الحق کی آمد سے ٹیم میں واضح فرق پیدا ہوا ہے۔ مصباح، جو ایک میچ کی پابندی کے باعث گال میں نہیں کھیل پائے تھے اور ان کی جگہ حفیظ نے قیادت کے فرائض انجام دیے تھے، بہت جارحانہ انداز اپنایا اور پہلی اننگز میں 80 گیندوں پر ناقابل شکست 66 رنز بنائے اور دوسری اننگز میں ان کے ڈکلیئر کرنے کے دلیرانہ فیصلے نے میچ کو دلچسپ مرحلے میں داخل کرنے کی کوشش تو کی۔ بہرحال، اب پاکستان کی نظریں پالی کیلے پر مرکوز ہیں جہاں 8 جولائی کو تیسرا ٹیسٹ شروع ہوگا جس کے ساتھ ہی دورہ اپنے اختتام کو پہنچے گا۔