بڑے بے آبرو ہو کر .... آسٹریلیا کو 4-0 سے شکست
ایک روزہ کی عالمی درجہ بندی میں آسٹریلیا اِس وقت سرفہرست ہے، اور اسی اعلیٰ مقام کے باعث قوی امید تھی کہ وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں انگلستان کی فتوحات کا سلسلہ روکے گا لیکن انگلش سرزمین پر وہ ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو گیا اور پچھلے تمام مقابلوں کی طرح آخری ایک روزہ میں بھی بدترین شکست سے دوچار ہوکر سیریز 4-0 سے ہار گیا۔ اگر پانچ میں سے ایک مقابلہ بارش کی نذر نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ اس کی شکست کا مارجن 5-0 ہوتا اور عالمی نمبر ایک پوزیشن انگلستان کے پاس ہوتی تاہم انگلستان نے آخری ایک روزہ میں 7 وکٹوں کے واضح مارجن سے کامیابی حاصل کر کے اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔
اس شکست کا بھیانک پس منظر یہ ہے کہ کوئی ایک مقابلہ بھی ایسا نہیں رہا جس میں آسٹریلیا میں جیت کی لگن نظر آئی ہو، تمام ہی مقابلے انگلستان نے با آسانی جیتے۔ انگلستان نے لارڈز میں پہلا ایک روزہ 15 رنز سے، اوول میں دوسرا 6 وکٹوں، ٹرینٹ برج کا ون ڈے بارش کی نذر ہوا، چوتھا مقابلہ 8 اور اولڈ ٹریفرڈ میں ہونے والا یہ آخری مقابلہ با آسانی 7 وکٹوں سے جیتا۔
اس عبرت ناک شکست کی بدولت انگلستان نے نہ صرف سال 2011ء کے اوائل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 6-1 کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لیا ہے بلکہ دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کی بادشاہت کو بھی لبِ گور تک پہنچا دیا ہے۔ سیریز میں ہار کے بعد آسٹریلیا 119 پوائنٹس پر آ گرا ہے جبکہ سیریز کے آغاز سے قبل اس کے پوائنٹس کی تعداد 123 تھی۔ یوں ناٹنگھم کی بارش نے کچھ عرصے کے لیے اس کی نمبر ایک پوزیشن بچا لی ہے۔ لیکن جنوبی افریقہ پر اس کی برتری اب محض ایک پوائنٹ کی رہ گئی ہے جبکہ انگلستان جو سیریز سے قبل پانچویں نمبر پر تھا، اور پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں سیریز سے پہلے چھٹی پوزیشن پر، اب ایک تاریخی فتح کے بعد 118 پوائنٹس حاصل کر کے تیسری پوزیشن پر پہنچ چکا ہے۔ گو کہ اس کے اور جنوبی افریقہ کے پوائنٹس برابر ہیں لیکن اعشاریہ کے معمولی فرق سے جنوبی افریقہ کو برتری حاصل ہے اور یوں اب جنوبی افریقہ اور انگلستان کے درمیان نہ صرف ٹیسٹ بلکہ ایک روزہ سیریز بھی دونوں طرز کی کرکٹ میں عالمی نمبر ایک پوزیشن پر قبضہ کرنے کی مہم بن چکی ہے۔
بہرحال، ذکر ہو رہا تھا انگلستان-آسٹریلیا کے آخری ایک روزہ کا جہاں آسٹریلیا کی نہ صرف گیند بازی بلکہ بیٹنگ بھی مکمل طور پر ناکام رہی۔ بارش سے متاثرہ مقابلہ جو 32 اوورز فی اننگز تک محدود کیا گیا ، انگلستان نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بلے بازی کی دعوت دی تو اس کے لیے وکٹوں کو روکنا ناممکن ہو گیا۔ گو کہ انگلستان نے ابتدائی لمحات میں چند آسان کیچ چھوڑ کر اس کے اوپنرز کو مواقع دیے لیکن وہ اس کا فائدہ اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور جب 11 ویں اوور میں ڈیوڈ وارنر 32 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے تو گویا بند ٹوٹ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد پیٹر فورسٹ دوسرا رن لینے کی کوشش میں رن آؤٹ ہو گئے اور میتھیو ویڈ محض ایک گیند بعد جیمز ٹریڈویل کی ایک گیند کو آگے بڑھ کر میدان بدر کرنے کی لاحاصل کوشش میں وکٹوں کے پیچھے کریگ کیزویٹر کے اسٹمپ کا نشانہ بن گئے۔ سب سے بڑا دھچکا آسٹریلیا کو اگلے اوور میں پہنچا جبکہ مائیکل کلارک پوائنٹ پر کھڑے حریف فیلڈر ایون مورگن کے ہاتھوں میں گیند دینے اور رن دوڑنے کی بے وقوفانہ کوشش میں براہ راست تھرو کا نشانہ بن گئے۔ 55 پر آسٹریلیا اپنے 4 اہم بلے بازوں سے محروم ہو چکا تھا۔
وکٹیں گرنے کا سلسلہ چند لمحات کے لیے تھما لیکن روی بوپارا نے مسلسل دو اوورز میں اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ ہسی کو ٹھکانے لگا کر تمام تر ذمہ داری ٹی ٹوئنٹی کپتان جارج بیلے کے کاندھوں پر ڈال دی جنہوں نے اپنی بساط سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی اور آسٹریلیا کو ایک قابل عزت مجموعے تک پہنچایا۔ جارج بیلے نے 41 گیندوں پر 2 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے 46 رنز بنائے۔ انہوں نے پہلے جیمز پیٹن سن کے ساتھ 34 اور پھر کلنٹ میک کے کے ساتھ مل کر 25 رنز کا اضافہ کیا اور مقررہ 32 اوورز کے اختتام پر اسکوربورڈ پر 145 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔ ابتدا میں وکٹیں گرنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ آسٹریلیا تہرے ہندسے میں بھی نہیں پہنچ پائے گا لیکن اس نے نہ صرف پورے اوورز کھیلے بلکہ 55 پر 4 وکٹیں گرنے کے بعد اگلے 90 رنز تک صرف تین کھلاڑیوں ہی کا نقصان اٹھایا۔
انگلستان کی جانب سے سب سے عمدہ گیند بازی جیمز ٹریڈویل اور روی بوپارا نے کی جنہوں نے 23 اور 8 رنز دے کر دو، دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک وکٹ اسٹیون فن کو ملی۔
ایک آسان ہدف کے تعاقب میں انگلستان نہ صرف پہلے اوور ہی میں اِن فارم این بیل سے محروم ہو گیا بلکہ 10 اوورز کے اختتام سے قبل جوناتھن ٹراٹ کی وکٹ بھی گر گئی تو میچ دلچسپ مرحلے میں جاتا دکھائی دیا۔ 10 ویں اوور میں جب ٹراٹ حریف کپتان مائیکل کلارک کا نشانہ بنے تو انگلستان کا اسکور محض 34 رنز تھا لیکن اس موقع پر کپتان ایلسٹر کک نے ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی اور روی بوپارا کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ پر 92 رنز جوڑ کر میچ اپنے حق میں پلٹا لیا۔
انگلش اننگز کے دوران ایک مرتبہ پھر بارش ہو جانے کے باعث انگلستان کا ہدف 29 اووورز میں 138 رنز کر دیا گیا جو اس نے 28 ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر حاصل کر لیا۔ کک 78 گیندوں پر 58 رنز بنا کر اس وقت بین ہلفناس کی واحد وکٹ بنے جب ہدف محض 12 رنز دور تھا۔ بوپارا 56 گیندوں پر 52 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔
آسٹریلیا کی جانب سے کلنٹ میک کے، بین ہلفناس اور مائیکل کلارک نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
روی بوپارا کو آل راؤنڈ کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ این بیل سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کے بعد سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اس بدترین شکست کے بعد اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے قبل آسٹریلیا کا ایک اور بڑا امتحان باقی ہے۔ اسے اگلے ماہ پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنی ہے۔ جہاں حالات اور کنڈیشنز انگلستان سے کہیں زیادہ مختلف ہوں گے۔ اولڈٹریفرڈ، مانچسٹر میں کھیلے گئے آخری ایک روزہ کے موقع پر درجہ حرارت 13 درجے سینٹی گریڈ تھا جبکہ عرب امارات میں شام کے وقت بھی درجہ حرارت 35 درجے سے اوپر ہی رہے گا۔
دوسری جانب انگلستان اب ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں میں نمبر ون پوزیشن کے لیے جنوبی افریقہ کا مقابلہ کرے گا۔ سیریز کا باضابطہ آغاز 19 جولائی سے اوول میں پہلے ٹیسٹ سے ہوگا۔