سری لنکا تین سال بعد بالآخر کامیاب، مصباح الیون کی پہلی سیریز ناکامی

0 1,042

سری لنکا نے پالی کیلے ٹیسٹ کے آخری روز ہدف کے تعاقب کا خطرہ مول لینے کے بجائے سیریز کے نتیجے کو ترجیح دی اور تیسرا ٹیسٹ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوا تاہم اور سری لنکا کو تین سال بعد ایک تاریخی سیریز جتوا گیا اور پاکستان کو دو سال بعد پہلی سیریز شکست سے نواز گیا۔

گزشتہ دونوں ٹیسٹ میچز کے مقابلے میں گیند بازوں کو پالی کیلے انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں ایک زیادہ مددگار پچ میسر آئی جس کے نتیجہ خیز ہونے کی قوی امید تھی لیکن بارش کے باعث دوسرے دن کا پورا کھیل ضایع ہونے اور بعد ازاں سخت دھوپ کے باعث پچ بلے بازوں کے لیے مددگار و سازگار ہوتی چلی گئی اور جس پچ پر پہلے روز 13 وکٹیں گریں آخری روز، جب وکٹیں گرنے کا سب سے زیادہ امکان ہوتا ہے، صرف 4 کھلاڑی ہی آؤٹ ہو سکے۔

اسد شفیق کو 75 اور 100* رنز کی اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا (تصویر: AFP)
اسد شفیق کو 75 اور 100* رنز کی اننگز کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا (تصویر: AFP)

سری لنکا نے آخری روز 270 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 195 رنز بنائے اور دن کی تکمیل سے 8 اوورز قبل ہی ہدف کے تعاقب سے ہاتھ اٹھا لیا۔ یہ اگست 2009ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف 2-0 کی جیت اور بعد ازاں عظیم گیند باز مرلی دھرن کی ریٹائرمنٹ کے بعد سری لنکا کی پہلی سیریز فتح تھی۔

پاکستان، کو دو سال سے کوئی سیریز نہ ہارنے کے ریکارڈ کے باعث، توقع تھی کہ وہ محدود اوورز کے مرحلے کے مقابلے میں یہاں زیادہ اچھی کارکردگی دکھائے گا لیکن گال میں پہلے ٹیسٹ کی بھاری شکست کا گھاؤ اتنا کاری ثابت ہوا کہ آخری ٹیسٹ تک نہ بھر پایا۔ گو کہ کولمبو اور پھر پالی کیلے میں پاکستان نے مصباح الحق کی زیر قیادت بہتر انداز میں سیریز میں واپسی کی، لیکن دونوں جگہ قسمت نے اُس کی یاوری نہ کی۔ کبھی امپائر اپنے فیصلوں کے ذریعے پاکستان کی راہ میں حائل ہو جاتے تو کبھی بارش آڑے آ جاتی۔ پھر بھی ٹیسٹ سیریز کا نتیجہ کئی لحاظ سے ٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز سے بہتر رہا کیونکہ چند نوجوان کھلاڑیوں نے بہت ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جنید خان نے پہلی اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ اظہر علی اور اسد شفیق نے دوسری اننگز میں نازک موقع پر شاندار سنچریاں اسکور کیں۔ اسد شفیق نے پہلی اننگز میں بھی 75 رنز کی کارآمد اننگز کھیلی تھی۔ ان دونوں کے علاوہ عدنان اکمل کی جرات مندی بھی ایک مثال رہی۔پہلی اننگز میں وہ ایک اٹھتی ہوئی گیند اپنے انگوٹھے پر لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے، جس کے بارے میں بعد ازاں علم ہوا کہ ہڈی میں فریکچر ہو گیا ہے۔ وہ وکٹ کیپنگ کے لیے میدان میں نہ اترے اور ان کی جگہ توفیق عمر نے فرائض سنبھالے لیکن چوتھے روز کے اختتامی لمحات میں جب سعید اجمل کی صورت میں پاکستان کی آٹھویں وکٹ گری تو وہ میدان میں آئے اور 96 گیندوں پر 4 چوکوں کی مدد سے 35 رنز کی دلیرانہ اننگز کھیلی۔ انہوں نے نویں وکٹ پر اسد شفیق کے ساتھ مل کر قیمتی 81 رنز جوڑے جس کی وجہ سے میچ برابری کی سطح پر پہنچا ورنہ پاکستان کے ہارنے کے آثار نمایاں تھے۔

دوسری اننگز میں اسد شفیق اور اظہر علی کی تعریف کرنا گویا 'سورج کو چراغ دکھانے' کے مترادف ہے۔ دونوں بلے بازوں نے ماضی قریب میں انضمام الحق -یونس خان اور محمد یوسف –یونس خان کی جوڑیوں کی یاد تازہ کردی۔ گو کہ اظہر پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن اسد شفیق وہاں بھی 75 رنز بنا کر سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ البتہ دوسری اننگز میں تو دونوں نے کمال ہی کر دیا۔ 176 رنز پر چار وکٹیں گرنے کے بعد، جبکہ پاکستان ویسے ہی پہلی اننگز میں 111 رنز کے خسارے میں تھے، دونوں نے پانچویں وکٹ پر 100 رنز کی شراکت داری بھی قائم کی اور بعد ازاں اسد شفیق نے چوتھے دن کے آخری اور پانچویں دن کے پہلے سیشن میں عدنان اکمل کے ساتھ نویں وکٹ پر 81 رنز جوڑ کر پاکستان کے لیے میچ بچانا ممکن بنایا ورنہ 2-0 کی شکست واضح نظر آ رہی تھی۔

اس شاندار بلے بازی کی بدولت سری لنکا کو آخری روز بچنے والے 71اوورز میں 270 رنز کا ہدف ملا ۔ پاکستان کو امید تھی کہ وہ پہلی اننگز میں جنید خان اور سعید اجمل کی عمدہ کارکردگی کو دہراتے ہوئے دیکھے گا لیکن سری لنکا اتنا ’تر نوالہ‘ نہیں تھا۔ ابتدا میں تیز کھیلنے کے بعد چائے کے وقفے پر چندیمال کی وکٹ گرتے ہی اس نے ہدف کا تعاقب چھوڑ دیا اور جیسے ہی مقابلہ حتمی مرحلے میں داخل ہوا سری لنکا نے ہاتھ اُٹھا لیا اور یوں آخری میچ ڈرا پر ختم ہوا۔ سری لنکا کے لیے سیریز کے ہیرو کمار سنگاکارا 74 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے جبکہ اس پہلی اننگز میں ناکام رہنے والے دنیش چندیمال نے بھی پچ کے رویے میں آنے والی اچانک تبدیلی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور 65 رنز بنا کر میچ بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے دوسری وکٹ پر کمار سنگاکارا کے ساتھ مل کر 88 رنز کا اضافہ کیا۔ ان کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان نے سعید اجمل کی بدولت یکے بعد دیگرے تین وکٹیں تو حاصل کر لیں لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

قبل ازیں پہلے روز ابر آلود موسم اور پچ کے گیند بازوں کے لیے کچھ سازگار نظر آنے کے باعث مہیلا جے وردھنے نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا اور نوجوان آل راؤنڈر تھیسارا پیریرا محدود اوورز کے بعد ٹیسٹ میں بھی پاکستانی بلے بازوں پر قہر بن کر ٹوٹے۔ اور ابتداء میں محمد حفیظ، توفیق عمر اور اظہر علی کی قیمتی وکٹیں لے اڑے۔ درمیان میں دوسرے اینڈ سے یونس خان بھی صفر پر پویلین لوٹے اور 56 پر پاکستان اپنے ابتدائی چاروں بلے بازوں سے محروم ہو چکا تھا۔ مرد بحران مصباح الحق نے اسد شفیق کے ساتھ 85 رنز جوڑے لیکن پاکستان کو بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب 162 کے مجموعی اسکور پر عدنان اکمل زخمی ہوئے۔ وہ ایک اٹھتی ہوئی گیند کو پیچھے کھیلنے کی کوشش میں اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے زخمی کر بیٹھے اور میدان سے باہر چلے گئے۔ ان کے زخمی ہونے سے بھی پاکستان کے حوصلے کافی پست ہوئے کیونکہ وکٹوں کے پیچھے ذمہ داری سنبھالنے کا اہم ترین کام ناتجربہ کار ہاتھوں میں چلا گیا۔ پاکستان کو بائے کی صورت میں کئی قیمتی رنز بھی سری لنکا کو دینے پڑے جس کی وجہ سے باؤلرز پر دباؤ آیا۔ بہرحال، اب تمام تر ذمہ داری اسد شفیق پر تھی جنہوں نے 75 رنز بنا کر اور آخری بلے بازوں کو استعمال کر کے پاکستان کو 200 سے آگے پہنچایا اور بعد ازاں پوری ٹیم 226 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی۔

پہلے ہی روز پاکستان کے آل آؤٹ ہو جانے سے پچ کے رویے کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، جو گیند بازوں کے لیے انتہائی سازگار نظر آ رہی تھی اور جواب میں پاکستان نے 44 پر سری لنکا کے تینوں ابتدائی بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ پویلین لوٹنے والے کھلاڑیوں میں اوپنر دنیش چندیمال کے علاوہ ان فارم کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کی قیمتی وکٹیں بھی شامل تھیں۔ میچ پاکستان کی گرفت میں آ چکا تھا لیکن اگلے روز موسلا دھار بارش نے میدان کو گھیر لیا۔ پورے دن بارش کی آنکھ مچولی جاری رہی جودن بھرجاری رہی اور پورے دن کا کھیل ضایع ہوگیا۔ سری لنکا کو درکار آرام مل چکا تھا اور وہ تیسرے روز اس آسانی کے ساتھ میدان میں اترا کہ کسی کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ میچ اسی پچ پر کھیلا جا رہا ہے۔ دھوپ نے پچ کا چلن ہی بدل دیا اور پاکستان پہلے سیشن میں تمام تر کوشش کے باوجود کوئی وکٹ حاصل نہ کر پایا اور بالادست پوزیشن گنوا بیٹھا۔

سنگاکارا اور مہیلا کے ٹھکانے لگانے کے باوجود پاکستان کو اس مرتبہ سیریز میں ناکامیوں کا منہ دیکھنے والے تھارنگا پرناوتنا اور تھیلان سماراویرا کی غیر متوقع کارکردگی کو بھگتنا پڑا جنہوں نے چوتھی وکٹ پر 143 رنز کا اضافہ کیا اور تقریباً پاکستان کے اسکور کو جا لیا۔ سماراویرا 160 گیندوں پر 73 رنز بنانے کے بعد سعید اجمل کی دوسری وکٹ بنے۔ پاکستان نے کچھ وقفے سے تین مزید وکٹیں حاصل کر لیں اور جب سری لنکا کی برتری محض 10 رنز کی تھی تو اس کے 7 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ اس موقع پر تھیسارا پیریرا کے بلے نے جادو جگایا جنہوں نے نووان کولاسیکرا کے ساتھ مل کر آٹھویں وکٹ پر 84 رنز بنا کر پاکستان کے حوصلے پست کر دیے۔ پیریرا نے 86 گیندوں پر 3 چھکوں اور 4 چوکوں سے مزید 75 رنز کی غیر متوقع اننگز کھیلی جبکہ کولاسیکرا نے 33 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اور سری لنکا کی پہلی اننگز 337 رنز یعنی پاکستان پر 111 رنز کی فیصلہ کن برتری کے ساتھ ختم ہوئی۔

پاکستان کی جانب سے جنید خان نے 70 رنز دے کر 5 جبکہ سعید اجمل نے 66 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔ عمر گل اور محمد سمیع کو ایک، ایک وکٹ ملی لیکن دونوں بہت مہنگے ثابت ہوئے اور 4 سے زائد رنز فی اوور کی اوسط سے رنز کھائے۔

اظہر علی نے ٹیسٹ کیریئر کی چوتھی سنچری اسکور کی اور پاکستان کے لیے میچ بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا (تصویر: Getty Images)
اظہر علی نے ٹیسٹ کیریئر کی چوتھی سنچری اسکور کی اور پاکستان کے لیے میچ بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا (تصویر: Getty Images)

اب پاکستانی بلے بازوں کو بہت ذمہ داری سے کھیلنے کی ضرورت تھی، کیونکہ پہلی اننگز کا خسارہ مقابلے کو حریف کے پلڑے میں جھکا چکا تھا، لیکن توفیق عمر ابتدا ہی میں ایک مرتبہ پھر امپائر کے ناقص فیصلے کا شکار ہو گئے اور 16 رنز پر ہی پاکستان کی پہلی وکٹ گر گئی۔ محمد حفیظ نے اظہر علی کے ساتھ 94 رنز کا اضافہ کیا۔ حفیظ ، جو گزشتہ میچ کی کارکردگی کو دہرانا چاہتے تھے، 52 رنز بنانے کے بعد دلہارا فرنینڈو کی پہلی وکٹ بنے۔ بہرحال پاکستان بہتر پوزیشن میں تھا جس نے محض دو وکٹوں کے نقصان پر خسارہ پورا کر لیا آنے والے سینئر بلے باز اپنی ذمہ داری اچھی طرح نہ نبھا سکے اور یکے بعد دیگرے یونس خان اور مصباح الحق کی وکٹیں گرنے کے باعث پاکستان نازک پوزیشن میں آ گیا۔ اس کی برتری محض 65 رنز کی تھی جب وکٹ پر بلے بازوں کی آخری، اور ناتجربہ، جوڑی اظہر علی اور اسد شفیق کی صورت میں موجود تھے۔ زخمی عدنان اکمل کے بھی میدان میں آنے کے امکانات کم تھے جبکہ ٹیل اینڈرز کا حال تو سب پر عیاں ہے۔

خیر، دونوں نے اپنی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھائی اور پانچویں وکٹ پر 100 رنز کی قیمتی شراکت قائم کر کے پاکستان کو شکست کے دہانے سے کھینچ لیا۔ اظہر علی 284 گیندوں پر 136 رنز کی شاندار و یادگار اننگز کھیلنے کے بعد فرنانڈو ہی کے ہاتھوں وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوئے۔

پھر ٹیل اینڈرز کے لڑھکنے کی باریاں آئیں جوایک کے بعد ایک کر کے نکلتے چلے گئے یہاں تک کہ 299 پر سعید اجمل کی صورت میں آٹھویں وکٹ بھی گر گئی۔اس موقع پر عدنان اکمل جرات مندی کامظاہرہ کر کے ٹوٹے ہوئے انگوٹھے کے ساتھ میدان میں اترے اور اسد شفیق کے ساتھ81 رنز کی ناقابل شکست رفاقت قائم کر کے میچ کو سنسنی خیز مرحلے میں داخل کر دیا۔

رنگانا ہیراتھ سب سے کامیاب باؤلر رہے جنہوں نے 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ غیر متوقع طور پر تین وکٹیں دلہارا فرنانڈو کو بھی ملیں۔ ایک وکٹ کولاسیکرا نے حاصل کی۔

پانچویں روز کے پہلے سیشن میں جیسے ہی اسد شفیق نے کیریئر کی دوسری سنچری مکمل کی مصباح الحق نے بلے بازوں کو واپس بلا لیا اور سری لنکا کو دن کے بقیہ 71 اوورز میں 270 رنز کا ہدف دیا جو وہ مکمل نہ کر پایا۔

اسد شفیق کو دونوں اننگز میں شاندار بیٹنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ کمار سنگاکارا سیریز میں زبردست بلے بازی کے باعث مین آف دی سیریز قرار پائے۔

یہ مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستان کی پہلی سیریز شکست تھی، گو کہ جو میچ اس سیریز میں پاکستان ہارا اس میں قیادت حفیظ نے کی تھی کیونکہ مصباح ایک میچ کی پابندی کے باعث نہیں کھیلے تھے، لیکن 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل والی بدنام زمانہ سیریز کے بعد پاکستان کی یہ پہلی ہار بہت کڑوی ثابت ہوگی۔

اب قومی ٹیم اگلے ماہ آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں محدود اوورز کی سیریز کی تیاری کرے گی جبکہ سری لنکا اپنے ہی وطن میں بھارت کی میزبانی کرے گا جو پانچ و ن ڈے مقابلے کھیلنے کے لیے چند روز میں پہنچے گا۔