بریٹ لی بین الاقوامی کرکٹ چھوڑ گئے
اور بالآخر ایک سال بعد دنیائے کرکٹ کے ایک اور برق رفتار گیند باز نے میدان چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا اور'تیز ترین باؤلر' کی جنگ جو تقریباً ایک دہائی جاری رہی بالآخر دونوں طرف سے ہتھیار ڈال دینے کے بعد اختتام کو پہنچی۔ جی ہاں، آپ درست سمجھے ہیں آسٹریلیا کے مایہ ناز کھلاڑی بریٹ لی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
35 سالہ بریٹ لی پہلے رواں سال ستمبر میں ہونے والی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے بعدریٹائرمنٹ کا ارادہ رکھتے تھے لیکن انگلستان کے مایوس کن دورے میں ہونے والی پنڈلی کی تکلیف کے باعث انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں نوجوان باؤلرز کے لیے جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔
وہ آسٹریلیا کی جانب سے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے گیند بازوں میں اپنے پرانے ساتھی گلین میک گرا کے برابر رہے، دونوں نے ملک کی جانب سے 380حریف بلے بازوں کو شکار بنایا تاہم میک گرا کی کیریئر وکٹیں زیادہ ہیں کیونکہ انہوں نے آئی سی سی ورلڈ الیون کی جانب سےبھی ایک وکٹ حاصل کر رکھی ہے یوں ان کی کل وکٹوں کی تعداد 381 بنتی ہے۔ بریٹ لی نے فروری 2010ء میں ہی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا لیکن وہ محدود اوورز کی طرز کی کرکٹ میں آسٹریلیا کی نمائندگی کرتے رہے۔
گزشتہ ہفتے ڈرہم میں انگلستان کے خلاف ایک میچ کے دوران پنڈلی زخمی ہو جانے کے بعد وہ وطن واپس لوٹے اور جمعے کو سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں ایک اجلاس کے دوران ریٹائرمنٹ کا باضابطہ اعلان کیا۔
1999ء میں بھارت کے خلاف باکسنگ ڈے ٹیسٹ (یعنی 26 دسمبر کو شروع ہونے والے روایتی ٹیسٹ مقابلے) سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے بریٹ لی بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند بازوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس فہرست میں ان کا نمبر دسواں ہے۔ اپنے تقریباً 13 سالہ کیریئر میں انہوں نے تینوں طرز کی کرکٹ میں 718 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ 2003ء کے عالمی کپ فاتح دستے کا بھی حصہ تھے اور تین مرتبہ ایشیز جیتنے والی ٹیم کا بھی لیکن ان کے کیریئر کا اختتام بہت ہی بری صورتحال میں ہوا کہ آسٹریلیا کو انگلستان کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں 4-0 کی ذلت آمیز شکست ہوئی۔
تیز گیند بازی کے شعبے میں مستقبل میں اپنے جانشینوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے خصوصی طور پر 19 سالہ پیٹ کمنز کا ذکر کیا، جو اپنے مختصر سے کیریئر میں متعدد مرتبہ زخمی ہو چکے ہیں، البتہ لی کا کہنا تھا کہ وہ بہت باصلاحیت کھلاڑی ہے، اگر 19 سال کی عمر میں مجھ میں اتنی صلاحیت ہوتی تو میں لاکھوں ٹیسٹ وکٹیں لے چکا ہوتا۔
بریٹ لی کی اپنے کیریئر کے ابتدائی ایام میں پاکستان کے شعیب اختر کے ساتھ بڑی مسابقت رہی ہے اور دونوں دنیا کے تیز ترین گیند باز بننے کے لیے بے قرار تھے لیکن دونوں کو بارہا زخمی ہونے نے چین لینے ہی نہ دیا۔ گو کہ زخمی ہونے میں بریٹ لی شعیب اختر کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے لیکن اس کے باوجود وہ متعدد بار ٹخنے، پنڈلی، کہنی، پہلو اور پیر کی تکلیف کا شکار ہوئے یہاں تک کہ 2007ء کا عالمی کپ بھی نہ کھیل پائے جہاں آسٹریلیا نے دوسری مرتبہ اپنے اعزاز کا دفاع کرتے ہوئے مسلسل تیسری دفعہ عالمی اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے تیز سے تیز تر ہونے کی اس دوڑ کو تسلیم کیا کہ ہو سکتا ہے کہ میں نے کچھ پاگل پن دکھایا ہو اور اپنے جسم پر بے جا بوجھ ڈالا ہو لیکن آپ کو اپنی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے لیے آخری حد تک جانا ہوتا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ پنڈلی کے پٹھے کی موجودہ انجری جس شدت کی ہے جو مجھے 20 سالہ کرکٹ کیریئر میں نہیں ہوئی۔
البتہ ان کا کہنا تھا کہ وہ لیگ کرکٹ کے لیے اب بھی دستیاب ہیں اور بگ بیش لیگ اور انڈین پریمیئر لیگ بدستور کھیلیں گے۔