[اقتباسات] کھلاڑیوں کی خود کشی کا خطرہ

14 1,069

ایشیا کپ سے اخراج کے بعد ہم فوری طور پر انگلستان روانگی کے لیے تیار تھے۔ انگلش کرکٹ بورڈ نے کمالِ مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف ہماری ہوم سیریز کی میزبانی کی، جس کے بعد ہمیں مزید قیام کرنا تھا اور انگلستان کے خلاف کھیلنا تھا۔ ہم نے آسٹریلیا کے خلاف دو ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے اور دونوں جیتے۔ کیونکہ میں نے ٹیسٹ نہیں کھیلنے تھے، اس لیے میں درمیانی عرصے میں وطن واپس آ گیا اور انگلستان کے خلاف کھیلنے کے لیے دوبارہ واپس گیا، اور یہ وہ موقع تھا جب برطانوی کے خبری چینل میچ فکسنگ کے الزامات نشر کر رہے تھے۔ ایک مرتبہ پھر تمام معاملات بگڑ گئے۔ مجھے نئے لڑکوں سے یہ توقع نہ تھی۔ ’میں سوچ ریا سی کہ کس قسم دے لڑکے نیں؟‘ (ترجمہ: میں سوچ رہا تھا کہ کس قسم کے لڑکے ہیں؟) انہیں اپنے کھیل اور اپنے ملک کی نمائندگی پر فخر نہیں تھا؟ یہ بڑی مایوس کن صورتحال تھی۔ میچ فکسنگ کے مستقل الزامات بہت پریشان کن تھے کہ کبھی کبھار مجھے ایسا لگتا میں میدان میں ننگا کھڑا ہوں۔ یہ ٹیم میں ویسی واپسی نہیں تھی جس کا میں خواہشمند تھا۔ بجائے اپنے کھیل کا لطف اٹھانے کے، مجھے اپنی ٹیم کے بارے میں فضول باتیں سننے کو ملیں۔ میں شدت سے خواہشمند تھا کہ ہم اچھا کھیلیں، خصوصاً عالمی کپ کی تیاری میں، لیکن میں حوصلے پست ہونے کے خلاف بھی جدوجہد کر رہا تھا۔ میں نے نوجوان کھلاڑیوں کی رہنمائی کی کوششیں شروع کر دیں لیکن اب مجھے معلوم نہ تھا کہ کس پر اعتماد کیا جائے اور کس پر نہیں۔ میری ٹیم میرے سامنے بکھر رہی تھی۔

لارڈز میں ایک ون ڈے میچ کے دوران پال کولنگ ووڈ میرے قریب آیا اور کہا ’شعیب، کیا تم اندھے ہو؟ تمہاری پوری ٹیم میچ فکسنگ میں ملوث ہے!‘

مجھ مشتعل مزاج کا جواب تھا ’پال، اگر تم کچھ جانتے ہو تو مجھے بتاؤ۔‘

اس نے جواب دیا، ’شعیب ہم نے بطور کھلاڑی ہمیشہ تمہاری عزت کی ہے کیونکہ تم نے کبھی کھیل کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا، لیکن تمہاری ٹیم کرتی ہے۔‘

میرا مسلسل یہی جواب تھا کہ کون ہے ایسا؟ اس کا لہجہ واضح طور پر تلخ تھا اور یہ دعویٰ اس کی زبان پر تھا کہ میں بالکل اندھا ہوں۔ بعد ازاں میں نے مایوسی کے عالم میں نیٹ سیشن کے دوران دیکھا کہ جوناتھن ٹراٹ نے وہاب ریاض کے منہ پر تھپڑ مارا اور اسے ’فکسر‘ کہا۔ ٹیم انتظامیہ پولیس کے پاس شکایت درج کرانا چاہتی تھی لیکن اس لیے نہ کی کہ معاملات مزید خراب ہو جاتے اور ہو سکتا تھا دورے کا ہی خاتمہ ہو جاتا –جو ویسے ہی کچے دھاگے سے بندھا ہوا تھا۔ انگلش کھلاڑی واضح طور پر غصے میں تھے اور ہمیں کھیل کے دوران ’فکسر‘ کہتے رہے۔ بڑے نازک حالات میں ہم کھیلے وہ ٹورنامنٹ۔ میری صرف ایک خواہش تھی کہ بس ہم جیت جائیں۔ ہمیں بہت زیادہ امید ہو گئی تھی جب سیریز 2-2 سے برابر ہوئی۔ میں خود سے کہتا رہا کہ اپنی پوری جان لڑا دو اور پریشان مت ہو، لیکن یہ مشکل تھا۔ میری خواہش تھی کہ ہم جیت جاتے تو ہماری بدنامی تھوڑی کم ہو جاتی۔

جب الزامات سرعام ہو گئے تو انتظامیہ نے ٹیم کی زباں بندی کر دی۔ ہم قیدیوں کی طرح تھے، جنہیں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہ تھی۔ میں بہت گھبرایا ہوا تھا۔ میں بمشکل ہی واپس آیا اور مختلف واہموں اور وسوسوں میں گھرا ہوا کہ کوئی مجھے اس ہنگامے میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے ڈوپ نتائج کے بارے میں پریشانی لاحق تھی اس لیے میں نے اپنے ہوٹل میں کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کر دیا، اور کوئی بھی مشروب پینے سے پہلے اسے دبا کر دیکھتا کہ اس میں کہیں کسی انجکشن کا سوراخ تو نہیں ہے جس کے ذریعے مشروب میں کچھ ملایا گیا ہو، جو بعد میں میری رگوں میں دوڑنے لگے؟ میں کسی قابل بھروسہ دوست کو پکڑتا اور کسی مخصوص ریستوراں میں جا کر فوری طور پر کھانا کھا کر واپس ہوٹل پلٹتا۔ یہ سب اس لیے کیونکہ ہمارے اردگرد بہت اجنبی لوگ پھر رہے تھے، جنہیں ٹیم اور انتظامیہ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ مجھے چند کھلاڑیوں کے ساتھ وہ گفتگو یاد ہے کہ ہم اس مشتبہ صورتحال سے کتنے پریشان تھے۔ ہمیں یہ تک پریشانی تھی کہ صفائی ستھرائی کرنے والی لڑکیاں ہم پر آبروریزی کی تہمت نہ لگا دیں۔

ہو سکتا ہے آپ کو حیرت ہو رہی ہو لیکن یہی وہ حقیقی صورتحال تھی جس کا ہمیں سامنا تھا۔ ٹیم کے ایک کے بعد دوسرے کھلاڑی پر میچ فکسنگ کے الزامات لگ رہے تھے اور انگلش کھلاڑی ہمارے خلاف کھیلتے ہوئے خوش نہیں تھے۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ دورہ جاری رہے گا یا نہیں، کیونکہ اس کے خاتمے کی افواہیں گردش میں تھیں۔ بالآخر دورہ اس لیے بچ گیا کہ انگلش بورڈ کو مالی طور پر بہت زیادہ نقصان ہو جاتا۔ اور جہاں تک مجھے اپنے بارے میں خطرات لاحق تھے وہ یہ تھے کہ دورہ ختم ہونے کے بعد شاید مجھے دوبارہ کبھی ٹیم میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ خوف کی انتہاؤں پر ہونے کے باوجود ہمیں بہرحال کھیلنا تھا۔

ان تمام مراحل میں آئی سی سی کے زیر نظر تینوں لڑکے اپنے کمروں میں بند رہے اور کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کر دیا۔ ہر کوئی پریشان ہو گیا اور ہمارے سیکورٹی انچارج میجر نجم کو اُن پر نظریں رکھنے کا حکم دیا گیا۔ وہ تیرہ دنوں تک 24 گھنٹے ان کے ساتھ رہے، کہ کہیں وہ کوئی بے وقوفانہ حرکت نہ کر ڈالیں، یہاں تک کہ خود کشی بھی۔ انہوں نے کھلاڑیوں کو پانی پلانے کے لیے واقعتاً جبڑے کھول کر اُن کے منہ میں پانی انڈیلا۔

میجر نجم نے اُن دنوں کے بارے میں اپنا ایک مشاہدہ مجھ سے بھی بیان کیا جو دلچسپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو لڑکے، سلمان بٹ اور محمد عامر، بہت تناؤ میں اور ذہنی طور پر پریشان تھے، جبکہ محمد آصف ان تینوں میں سب سے زیادہ پرسکون تھا۔ مجھے یہ سن کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ آصف ماضی میں بھی غلط کاموں میں پکڑا گیا تھا – وہ مجرمانہ ریکارڈ کا حامل تھا۔ وہ پرسکون رہا اور کہتا رہا، ’چھڈو جی، کوئی مسئلہ نئیں اے۔‘ جب وہ پاکستان آیا تو اس نے دیگر ساتھیوں کے برخلاف اپیل بھی نہیں کی۔

سلمان بٹ نے مجھے بتایا کہ اسے یقین نہیں آ رہا کہ کیا ہورہا ہے اور اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک ڈراؤنے خواب میں ہے۔ میں نے کہا، نہیں، یہ حقیقت ہے اور اگر تم معصوم ہو، تو آئی سی سی کا سامنا کرو، اور سب کو ہلا کر رکھ دو۔ اب تک اس نے میرے مشورے پر عمل نہیں کیا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)