گیل، سنیل اور روچ نے نیوزی لینڈ کو زیر کر لیا
2010ء کے اواخر میں دورۂ سری لنکا میں کرس گیل نے 333 رنز کی تاریخی اننگز کھیلی اور شاید یہ بات ان کے علم میں بھی نہ ہوگی کہ انہیں ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ کے ساتھ مڈبھیڑ کے باعث ڈیڑھ سال کے طویل عرصے کے لیے ٹیسٹ کرکٹ سے محروم ہونا پڑے گا۔ گو کہ اس میں گیل کا چنداں نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس عرصے میں دنیا بھر کی کرکٹ لیگز میں ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا لیکن ویسٹ انڈیز کو ضرور نقصان ہوا جو چند فتوحات کے علاوہ ہمیشہ اہم مواقع پر مقابلے اپنے ہاتھوں سے گنواتا رہا لیکن ۔۔۔۔ طویل عرصے بعد واپسی کے بعد انہوں نے پہلے ہی مقابلے میں اپنی اہمیت جتا دی۔ انہوں نے 150 اور 64 رنز کی بہترین اننگز کھیل کر ٹیم کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیاجبکہ سنیل نرائن اور کیمار روچ کی تباہ کن گیند بازی نے کھیل کے دوسرے اہم شعبے میں ویسٹ انڈیز کی قیادت کی اور 9 وکٹوں کی فتح کے ساتھ میزبان ٹیم نے سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل کر لی۔
یہ اپریل 1996ء کے برج ٹاؤن ٹیسٹ کی فتح کے بعد ویسٹ انڈیز کی نیوزی لینڈ کے خلاف پہلی جیت ہے۔ 16 سال کے درمیانی عرصے میں ویسٹ انڈیز نے بلیک کیپس کے خلاف 10 ٹیسٹ میچز کھیلے اور پانچ میں شکست کا منہ دیکھا اور پانچ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئے۔ اس لیے 9 وکٹوں کی یہ جامع فتح ایک تاریخی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
ویسٹ انڈیز کے عظیم بلے باز ویوین رچرڈز سے منسوب نارتھ ساؤنڈ، اینٹیگا کے خوبصورت میدان میں کھیلے گئے میچ میں آخری روز بھی فیصلہ متوقع نہ تھا اور مقابلے کو فیصلہ کن بنانے ویسٹ انڈیز کی جانب سے کسی معجزاتی کارکردگی کی توقع تھی اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ خصوصاً نو بالز کے حوالے سے جدوجہد کے باوجود روچ کی تباہ کن باؤلنگ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ پہلے سیشن میں 2 وکٹیں گرنے کے بعد انہی کی گیند بازی کی بدولت ویسٹ انڈیز نے کھانے کے وقفے کے بعد نیوزی لینڈ کی پوری اننگز کی بساط لپیٹ دی۔ 102 رنز کے معمولی ہدف کے سامنے گیل کا طوفان ایک مرتبہ پھر گھوما اور فتح میزبان ٹیم کی جھولی میں آ گری۔
فیصلہ کن لمحات میں مقابلے کو گرفت لینے میں ناکامی کے باعث ویسٹ انڈیز کچھ عرصے سے فتوحات سمیٹنے میں ناکام رہا ہے، گو کہ انفرادی سطح پر کارکردگی کئی مقامات پر بہت عمدہ رہی ہے لیکن وہ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر پائی۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے دو بڑے ناموں کرس گیل اور نوجوان سنیل نرائن کی شمولیت کے باعث لگتا ہے کہ ٹیم کے ’اجزائے ترکیبی‘ میں یہ کمی پوری ہو گئی ہے۔
نیوزی لینڈ، جو محدود اوورز کے مرحلے میں خدشات سے کہیں بری طرح ناکام ہوا ، نے گو کہ ٹیسٹ میں جم کر مقابلہ کیا لیکن کلیدی لمحات پر وہ گرفت کمزور کر بیٹھا ۔ مثال کے طور پر پہلے روز 97 رنز کی افتتاحی شراکت اور 223 رنز پر محض 2 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ جب نیوزی لینڈ توقعات سے کہیں بہتر پوزیشن پر تھا تو یک بیک مقابلہ اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ سنیل نرائن نے حریف قائد روز ٹیلر کو بولڈ کیا تو اننگز کے بہترین بلے باز مارٹن گپٹل 97 کے انفرادی اسکور پر انتہائی ناقص اسٹروک کھیلتے ہوئے پویلین لوٹ گئے۔ رہی سہی کسر اگلے بلے باز نیل ویگنر کے آؤٹ ہونے نے پوری کر دی۔ ویسٹ انڈیز کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے ’شایان شان‘ اک بڑا مجموعہ اکٹھا کرنے کی تمام تر امیدیں ختم ہو گئیں۔ اگر آخری وکٹ پر ڈوگ بریسویل اور کرس مارٹن کے درمیان 42 رنز کی شراکت قائم ہوئی جس نے اسکور کو 351 رنز تک پہنچایا۔
سنیل نرائن کی 5 وکٹوں کے علاوہ دو، دو شکار کیمار روچ اور روی رامپال کو ملے جبکہ ایک وکٹ ڈیرن سیمی کو حاصل ہوئی۔
جواب میں ویسٹ انڈیز کا آغاز ہی ایسا تھا کہ نیوزی لینڈ کے معمولی ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ اوپنرز کرس گیل اور کیرن پاول کے درمیان 254 رنز کی رفاقت نے گویا مقابلے کا فیصلہ کر دیا۔ گیل کی 206 گیندوں پر 17 چوکوں اور 4 چھکوں سے مزین 150 رنز کی اننگز نے سب سے زیادہ ڈیرن سیمی کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیریں، جو ڈیڑھ سال سے اس ’قیمتی ہیرے‘ سے محروم تھے۔ بہرحال، دوسرے اینڈ سے کیرن پاول کی 134 رنز کی اننگز بھی بہت عمدگی سے کھیلی گئی۔ انہوں نے 288 گیندوں پر 22 چوکوں اور 1 چھکے کی مدد سے اپنے کیریئر کی پہلی سنچری اسکور کی۔
گو کہ ویسٹ انڈیز کے سب سے قابل بھروسہ بلے باز شیونرائن چندرپال پہلی گیند پر صفر کے ساتھ پویلین لوٹے لیکن اسد فدادین کے 55، نارسنگھ دیونرائن کے 79 اور آخر میں ڈیرن سیمی کے 50 رنز نے اک بہت بڑا مجموعہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی اور ویسٹ انڈیز نے 522 رنز بنا کر 171 رنز کی شاندار برتری حاصل کر لی۔
کرس مارٹن نے تین، ڈوگ بریسویل اور کین ولیم سن نے 2،2 اور نیل ویگنر اور ڈینیل ویٹوری نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
اک بڑی برتری کے بوجھ تلے ابتدا میں نیوزی لینڈ کا دوسرا آغاز بھی بہتر اورنسبتاً تیز رفتار تھا البتہ اسے اوپنر ڈیوڈ فلن کو 47 کے مجموعے پر کھونا پڑا جس کے بعد مارٹن گپٹل اور برینڈن میک کولم کے درمیان عمدہ شراکت داری کا آغاز ہوا۔ دونوں نے دوسری وکٹ پر 123 رنز جوڑے اور اسکور کو 170 رنز تک پہنچایا یعنی نیوزی لینڈ نے صرف ایک وکٹ کے نقصان پر ویسٹ انڈیز کی برتری کا خاتمہ کر دیا۔ یہ بہت ہی عمدہ پوزیشن تھی کیونکہ یہ میچ کا چوتھا دن تھا اور یہاں سے بلیک کیپس بلے بازوں کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ کم از کم دوسرے روز چائے کے وقفے تک میچ کو لے جا سکتے تھے لیکن ایک مرتبہ پھر سنیل نرائن نے مقابلے کا پانسہ پلٹ دیا۔ انہوں نے مارٹن گپٹل کو آؤٹ کر کے مقابلے کو دلچسپ مرحلے میں داخل کر دیا۔ رہی سہی کسر آخری لمحات میں اب کیمار روچ کے ہاتھوں برینڈن میک کولم کے بولڈ نے پوری کر دی جو سنچری کی جانب رواں دواں تھے۔ گپٹل نے 151 گیندوں پر 67 جبکہ میک کولم نے 139 گیندوں پر 84 رنز بنائے۔ یہ کرارے دھچکے فیصلہ کن ثابت ہوئے اور ویسٹ انڈیز پانچویں روز آخری دھکا دینے کے عزم کے ساتھ میدان میں اترا۔
آخری روز نیوزی لینڈ کی جانب سے سب سے بھاری ذمہ داری کپتان روز ٹیلر پر عائد تھی کہ وہ اپنی مثال پیش کرتے ہوئے ٹیم کے گرتے ہوئے جذبے کو سہارا دیں اور وہ کارنامہ کر دکھائیں جس کی توقع ہے لیکن پانچویں روز گرنے والی سب سے پہلی وکٹ اُنہی کی تھی جب وہ کیمار روچ کی اندر آتی ہوئی گیند پیڈ پر لگنے کے باعث ایل بی ڈبلیو قرار دیے گئے۔ نظرثانی کا فیصلہ بھی اُن کی مدد نہ کر سکا اور ٹیلر کو بوجھل قدموں کے ساتھ پویلین لوٹنا پڑا۔ بیٹنگ لائن اپ میں پڑنے والی اسی دراڑ پر زور ڈال کر ویسٹ انڈیز نے دیوار ڈھانے کی کارروائی کر ڈالی اور یکے بعد دیگرے کین ولیم سن، نیل ویگنر اور ڈین براؤنلی تیز گیند بازوں کے نشانے بنے اور پوری ٹیم محض 272 رنز پر ڈھیر ہو گئی یعنی صرف 102 رنز کے اضافے سے 9 وکٹیں گر گئیں۔
کیمار روچ نے محض 60 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ پہلی اننگز کے ہیرو سنیل نرائن کو 3 وکٹیں ملیں۔ روی رامپال نے دو بلے بازوں کو شکار کیا۔
102 رنز کے آسان ہدف پر کرس گیل تیزی سے جھپٹے اور 49 گیندوں پر 2 چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 64 رنز کے ساتھ معاملے کو مزید آسان کر دیا۔ کیرن پاول کے ساتھ انہوں نے 77 رنز کی ابتدائی شراکت داری قائم کی۔ بعد ازاں اسد فدادین نے فاتحانہ اسٹروک کھیل کر میچ کا فیصلہ کر دیا۔
گو کہ میچ میں تین کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت عمدہ رہی لیکن ’مرد میدان‘ کا قرعہ سنیل نرائن کے نام نکلا۔
اب دونوں ٹیمیں 2 اگست سے کنگسٹن، جمیکا میں دوسرے ٹیسٹ میں آمنے سامنے ہوں گی، جہاں نیوزی لینڈ کی صلاحیتوں کا ایک اور امتحان ہوگا کہ آیا وہ مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہے یا زوال کی مزید گہرائیوں میں گرے گا۔