[آج کا دن] ’حسرت ان غنچوں پہ‘ محمد زاہد کا جنم دن

9 1,125

”روایتی طور پر گیند بازوں کے لیے مددگار گابا، برسبین کی پچ پر مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ مجھے اس نوجوان پر نظر رکھنا ہوگی۔ پھر جب میں نے اس کی باؤلنگ کا سامنا کیا تو بلاشبہ وہ میرے کیریئر کا تیز ترین اسپیل تھا۔ گو کہ میں اچھی فارم میں تھا لیکن گیند اتنی تیز تھی کہ پلک جھپکتے میں وکٹ کیپر کے دستانوں میں ہوتی۔ وہ وکٹ حاصل کرنے کے لیے بے تاب لگتا تھا اور میں اس سوچ میں تھا کہ اگر ایک بھی گیند ہدف پر آ گئی تو قوی امکان ہے کہ وہ وکٹ لے اڑے ۔“

یہ الفاظ تھے ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز آل راؤنڈر کارل ہوپر کے، جنہوں نے جنوری 1997ء میں سہ فریقی کارلٹن اینڈ یونائیٹڈ سیریز کے ایک میچ میں پاکستان کے اس گیند باز کا سامنا کیا جسے بلاشبہ کرکٹ تاریخ کے تیز ترین، اور شاید بدقسمت ترین بھی، گیند بازوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں! گگو منڈی ایکسپریس محمد زاہد! اُن کے حوالے سے یہ بات ہوپر نے اُس زمانے میں کہی تھی جب خود ویسٹ انڈیز میں کورٹنی واش اور کرٹلی ایمبروز جیسے کھلاڑی تھے جبکہ پاکستان کے پاس وقار یونس جیسا پائے کا تیز رفتار باؤلر تھا۔

دیکھا جائے تو پاکستان خصوصاً سرزمینِ پنجاب نے دنیائے کرکٹ کو کئی برق رفتار گیند بازوں سے نوازا ہے۔ فضل محمود، عمران خان اور سرفراز نوازسے لے کر وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر تک، دنیا کے ان تمام بہترین باؤلرز نے پنجاب کی دھرتی پر ہی جنم لیا۔ ان تمام باؤلرز کو جو چیز دنیا کے دیگر باؤلرز سے ممتاز کرتی تھی وہ ان کی رفتار اور سوئنگ کرنے کی صلاحیتیں تھیں۔ رفتار کے معاملے میں پاکستان کو 90ء کی دہائی میں "وقار یونس کے پڑوسی" کی خدمات بھی ملیں، محمد زاہد وقار کی جنم بھومی بورے والا کے قریبی قصبے گگومنڈی سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے ہم نے انہیں "وقار کا ہمسایہ" کہا ہے۔

آج اپنی 36 ویں سالگرہ منانے والے زاہد نے دنیائے کرکٹ میں اپنی آمد کا اعلان ہی ہنگامہ خیز انداز میں کیا تھا اور پہلے ہی ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے 11 بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر تہلکہ مچا دیا تھا۔ وہ پاکستان کی کرکٹ تاریخ کے پہلے اور اب تک کے واحد گیند باز ہیں جنہیں کیریئر کے پہلے ہی ٹیسٹ میں 10 یا اس سے زائد وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف اس شاندار ٹیسٹ ڈیبیو کے بعد وہ اپنے پہلے دورے ہی میں زخمی ہو گئے۔ وسیم اور وقار یونس کی عدم موجودگی میں سری لنکا میں ذمہ داری ان کے نوجوان کاندھوں پر تھی اور کمر کی تکلیف کی تکلیف کے باوجود انہیں اس بوجھ کو سہارنا پڑا یہاں تک کہ وہ یہ تکلیف شدیدہو گئی اور معاملہ بعد ازاں آپریشن تک پہنچ گیا۔ ایک ایسا آپریشن جس نے اُن کے کیریئر کا ہی خاتمہ کر ڈالا۔ گو کہ وہ ایک سال بعد آسٹریلیا کے خلاف پشاور ٹیسٹ میں ضرور کھیلے، جہاں شعیب اختر اور ان کے نوآموز باؤلنگ اٹیک کے خلاف آسٹریلین بلے بازوں خصوصاً مارک ٹیلر نے رنز کے انبار لگا دیے۔ مارک ٹیلر نے پچ اور امپائروں کی مدد سے ٹرپل سنچری بھی بنائی۔ گو کہ میچ بے نتیجہ رہا لیکن بعد ازاں پاکستان سیریز گنوا بیٹھا اور یوں رنز کے انبار میں زاہد کی کمر مزید بوجھ تلے دب گئی۔

وہ کمر کی تکلیف کے باعث 5 سال کے طویل عرصے کے لیے قومی کرکٹ ٹیم سے باہر ہو گئے۔ انہیں ایک مرتبہ پھر کرکٹ کے میدانوں میں جلوہ گر ہونے کا موقع ضرور ملا لیکن نہ وہ رفتار تھی اور نہ وہ لائن لینتھ، صرف زاہد کا ایک سایہ تھا جو نصف دہائی کے بعد کرکٹ میدانوں پر چھایا، حقیقی زاہد کی جھلک پھر کبھی دیکھنے کو نہ ملی۔

زاہد کے مختصر کیریئر کا خاتمہ ایک بڑا المیہ تھا۔ ناقص باؤلنگ ایکشن میں بہتری نہ کرنے اور کمر میں تکلیف کی شکایت کے باوجود ٹیم انتظامیہ نے ان کی کوئی مدد نہ کی اور سری لنکا میں ان پر باؤلنگ کا سخت بوجھ ڈالا گیا۔ یوں مستقبل کے اس سپر اسٹار کھلاڑی کے کیریئر کے خاتمے میں انتظامیہ بھی برابر کی شریک تھی۔ زاہد صرف 5 ٹیسٹ اور 11 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کے بعد ہمیشہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹ سے باہر ہو گئے۔

ہماری نظر میں محمد زاہد کے مختصر ترین کیریئر کا عروج اس وقت ہوا جب 1997ء کے اوائل میں آسٹریلیا میں کھیلی گئی سہ فریقی سیریز میں انہوں نے اپنے وقت کے دنیا کے بہترین بلے باز برائن لارا کو ناکوں چنے چبوائے۔ لارا بجلی کی کوند کی طرح لپکتی ہوئی تین گیندیں نہ کھیل پانے کے بعد چوتھی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے۔ اس پر برائن لارا نے انہیں دنیا کا تیز ترین باؤلر قرار دیا تھا۔

زاہد کے کیریئر کے افسوسناک انجام کے بعد پاکستان کے منظرنامے پر شعیب اختر ابھرے، وہی گیند باز جنہوں نے کرکٹ تاریخ کی تیز ترین گیند پھینکنے کا اعزاز حاصل کیا اور شعیب خود کہہ چکے ہیں کہ زاہد ان سے کہیں زیادہ تیز رفتار تھے۔ بہرحال، زاہد کا مختصر کیریئر اور اس زمانے میں رفتار ناپنے والے آلات کی عدم دستیابی کے باعث اُن کی پھینکی گئی گیندوں کی رفتار ایک راز ہی رہی۔

حسرت ان غنچوں پہ جو بِن کھلے مُرجھا گئے