[کچھ یادیں کچھ باتیں] طلائی گھڑی کسے ملی؟

0 1,127

1973ء میں جب انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی تو کراچی ٹیسٹ کے دوران ایک نہایت انوکھا اور دلچسپ ریکارڈ بنا۔ اس ریکارڈ کا ایک کردارپاکستان کے سابق کپتان اورمحمد برادران حنیف محمد، صادق محمد، وزیرمحمد اور رئیس محمد کے بھائی مشتاق محمد بھی تھے۔ اپنے ایک اخباری انٹرویو میں وہ اس دلچسپ ٹیسٹ کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس زمانے میں کھلاڑیوں کو بہت زیادہ انعامات اور معاوضے وغیرہ نہیں ملا کرتے تھے۔ مین آف دی میچ ایوارڈ اور وننگ بونس وغیرہ کا تصور نہیں تھا۔ بڑی بڑی کاروں کا انعام میں مل جانا ایک خواب تو ہوسکتا تھالیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ صرف ٹیسٹ میچ کی فیس جو غالباً اس وقت پانچ ہزارروپے تھی، اسی پر اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ ایسی صورت حال میں اگر کوئی تجارتی ادارہ کسی خاص ٹیسٹ میں خاص انعام کا اعلان کرتا تو یہ کھلاڑیوں کے لئے نہایت دلکشی کا باعث ہوتا۔

میچ میں تین کھلاڑی 99 کے اسکور پر آؤٹ ہوئے، آخر سب سے بہترین اننگز کا انعام کسے ملا؟ (تصویر: Getty Images)
میچ میں تین کھلاڑی 99 کے اسکور پر آؤٹ ہوئے، آخر سب سے بہترین اننگز کا انعام کسے ملا؟ (تصویر: Getty Images)

24 تا 29 مارچ 1973ء کو انگلستان کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے قبل لندن واچ کمپنی نے اعلان کیا کہ اس ٹیسٹ میں دونوں ٹیموں کی جانب سے ہر اس کھلاڑی کو ایک قیمتی رسٹ واچ بطور انعام دی جائےگی جو سنچری بنائے گا اورایک گولڈن واچ اس کھلاڑی کو دی جائے گی جو سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلے گا۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں انعامات کاتصورنہ ہووہاں یہ اعلان ہم سب کھلاڑیوں کے لئے ایک دلکش انفرادی ہدف کا باعث تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیتااور بیٹنگ شروع کی۔ پہلے صادق محمد 89 کے ہندسے پر، پھرماجدخان جو ہمارے کپتان تھے بدقسمتی سے 99 کے ہندسے پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ ان سمیت ٹیم کے تمام ممبران کو بے حد افسوس ہوا کہ ماجدخان اور صادق محمد اتنے قریب پہنچ کربھی گھڑی کے انعام سے محروم ہوچکےتھے۔ سب کی نظریں میری جانب مرکوز ہوگئیں کیونکہ میں بھی اس وقت تک 70 کے ہندسے کو عبور کرچکا تھا۔ لیکن حیرت انگیزطورسے میں بھی 99 رنز کے انفرادی اسکور پر اس وقت رن آؤٹ ہوگیا جب میں سوواں رن لینے بھاگ رہاتھا۔ دو کھلاڑیوں کا میچ کے ایک ہی اننگز میں ’نروس نائنٹیز‘ کے بے رحم پنجوں میں پھنسنا واقعی نہایت حیران کن امر تھا۔ پاکستان کی اننگز ختم ہوگئی اور کوئی کھلاڑی سنچری نہ بنا سکا۔ لندن واچ کمپنی والوں کی قسمت زوروں پرتھی کہ ان کی تین گھڑیاں بچ گئیں۔

جب انگلستان کی باری آئی تو کرکٹ کی تاریخ کا تہلکہ ہی مچ گیاجب انگلستان کے افتتاحی بلے باز ڈینس ایمس بھی نروس نائنٹیز کا شکارہوگئے۔ کسی ایک ٹیسٹ میں تین کھلاڑیوں کا سنچری سے چند قدم کے فاصلے پر آؤٹ ہونا ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ بن گیا۔ اس کے بعد برنوی کپتان ٹونی لویز بھی 88 کے انفرادی اسکور پرانتخاب عالم کی باؤلنگ پر آصف اقبال کےہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے تو انگلستان کی جانب سے بھی سنچری بنانے کی امید ختم ہوگئی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے بلےبازوں کے اعصاب پر گھڑی جیتنے کی کوشش بھاری پڑرہی تھی۔ قصہ مختصر، پورا میچ بغیر کسی بلے باز کی انفرادی سنچری اور ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگیا۔ میچ کے آخری دن شام کوایک مقامی ہوٹل میں لندن واچ کمپنی والوں نے عشائیے کا اہتمام کیا تھا جس میں انہیں گھڑیاں بطورانعام دینی تھیں۔ تقریب میں انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہ انعام تو کوئی حاصل نہ کرسکا جو سنچری بنانے پر ملنا تھا۔ ہاں البتہ ایک گولڈن رسٹ واچ ضرور انعام میں دینی ہے جو سب سے بڑی انفرادی اننگزکھیلنے والےکھلاڑی کوملےگی۔ لیکن یہاں پھر ایک مسئلہ تھا کہ میچ کے تین کھلاڑی 99 کے سکور پر آؤٹ ہوئے تھے اور یہی سب سے بڑی انفرادی اننگز تھی۔ پورے ہال میں تجسس کاعالم تھا کہ انعام کا فیصلہ کیسے ہوگا اور انعام بالآخر ملے گا کسے؟ مجھے؟ ماجد خان کو؟ یا ڈینس ایمس کو؟۔

پھر جیسے ہی لندن واچ کمپنی انتظامیہ نے جیتنے والے کھلاڑی کا نام لیا تو میری خوشی اور حیرت قابل دیدتھی کیونکہ انتظامیہ نے مجھے اس گولڈن واچ کا حقدارٹھہرایا تھا۔ انتظامیہ نے مجھے یہ انعام دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ قوانین کے اعتبار سے یقیناً مشتاق محمد بھی ماجدخان اور ڈینس ایمس کی طرح 99 کے ہندسے پر آؤٹ ہوئے ہیں لیکن جیوری نے فیصلہ دیا ہے حسابی رو سے مشتاق محمد ساڑھے 99 کے اسکور پر آؤٹ ہوئے ہیں کیونکہ وہ سوواں رن لینے کی کوشش میں اس وقت رن آؤٹ ہوئے جب وہ پچ کا آدھے سے زیادہ فاصلہ طے کرچکے تھے۔ جیوری کے اس انوکھے فیصلے سے سب لوگ بےحد محظوظ ہوئے۔ مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کیونکہ وہ گولڈن واچ واقعی نہایت خوبصورت تھی اور اس کی اس وقت تقریباً 5 ہزارروپے مالیت تھی۔