[ریکارڈز] ایک روزہ کرکٹ کی بہترین اننگز

3 1,033

محدود طرز کی کرکٹ میں 150 سے زائد کی اننگز 'قوی ہیکل باری' سمجھی جاتی ہے، کیونکہ اگر ہر گیند پر ایک رن کے اوسط سے بھی کوئی بلے باز رن بنائے تو اسے اس مجموعے تک پہنچنے کے لیے ایک روزہ مقابلے کی آدھی گیندیں تو کھیلنا ہی پڑیں گی، جو بذات خود ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس لیے ایک روزہ کرکٹ کی تین ہزار سے زائد مقابلوں پر پھیلی وسیع تاریخ کی میں ایسے مواقع بہت ہی کم پیش آئے ہیں جب کوئی بلے باز 150 کا سنگ میل عبور کر گیا ہو۔ اب تک صرف 45 بلے باز ایسے ہیں جنہوں نے کم از کم ایک مرتبہ اس ہندسے کو حاصل کیا ہے۔ جس میں بھارت کے عظیم بلے بازوں وریندر سہواگ اور سچن تنڈولکر کی تاریخی ڈبل سنچری اننگز بھی شامل ہیں۔

ہاشم آملہ 150 سے زائد رنز بنانے والے پانچویں جنوبی افریقی بلے باز ہیں (تصویر: Getty Images)
ہاشم آملہ 150 سے زائد رنز بنانے والے پانچویں جنوبی افریقی بلے باز ہیں (تصویر: Getty Images)

لیکن آج یہ ایک روزہ کرکٹ کی بہترین اننگز کا ذکر کیوں؟ کیونکہ اس فہرست میں ایک تازہ اضافہ ہوا ہے، دور جدید کے ایک زبردست بلے باز ہاشم آملہ کی صورت میں۔ انگلستان کے خلاف جاری سیریز ایک جانب جہاں جنوبی افریقہ کے لیے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے یہیں ٹیسٹ میں عالمی نمبر ایک ہونے کااعزاز حاصل کیا اور اب ایک روزہ میں بھی یہ درجہ حاصل کر کے تاریخ میں پہلی بار تینوں طرز کی کرکٹ میں نمبر ون ٹیم بننا چاہتا ہے، وہیں ہاشم آملہ کے لیے بھی انگلش میدان خوش نصیبی کا پروانہ ہیں۔ انہوں نے ابھی چند ہفتوں قبل انہی میدانوں پر کسی بھی جنوبی افریقی کھلاڑی کی جانب سے تاریخ کی پہلی ٹرپل سنچری بنائی اور آج یعنی منگل 28 اگست کو روزباؤل، ساؤتھمپٹن میں نہ صرف یہ کہ تاریخ میں سب سے زیادہ تیزی سے تین ہزار رنز مکمل کرنے کا نیا ریکارڈ بنایا بلکہ 150 کلب میں بھی شمولیت اختیار کی ہے۔

مستقل ایک روزہ مقابلوں میں 52، 112، 55، 8، 92 اور 76 رنز بنانے کے بعد اب 150 رنز بنا کر ہاشم نے نہ صرف اپنی بھرپور فارم بلکہ کلاس بھی ظاہر کر دی ہے۔ انگلستان کے خلاف سیریز کے جاری دوسرے ایک روزہ مقابلے میں انہوں نے 124 گیندوں پر 16 چوکوں کی مدد سے ایک تاریخی اننگز تراشی۔ وہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر اسٹیون فن کی گیند پر آؤٹ ہوئے۔ ان کی اس اننگز کی بدولت جنوبی افریقہ نے مقررہ 50 اوورز میں 287 کا بہترین مجموعہ حاصل کیا ہے اور اگر انگلستان اس ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو جنوبی افریقہ اسی اننگز کے بل بوتے پر ایک روزہ کرکٹ میں نمبر ایک پوزیشن حاصل کر لے گا۔

ہاشم آملہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ تاریخ کے پانچویں بلے باز ہیں جو کسی ایک روزہ مقابلے میں 150 یا اس سے زائد رنز بنا پائے ہیں۔ ان سے قبل گیری کرسٹن، ہرشل گبز، اینڈریو ہڈسن اور ڈیوڈ کیلاگھن یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔

اگر ہم 150سے زائد رنز کی بہترین اننگز کی بات کریں تو ہمیں سب سے پہلے وریندر سہواگ کی اس اننگز کا ذکر کرنا پڑے گا جو انہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اندور میں بنائی۔ اس تاریخی اننگز میں سہواگ نے 149 گیندوں پر ریکارڈ 25 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے 219 رنز بنائے اور اپنے ہی ہم وطن سچن تنڈولکر کا ریکارڈ توڑ دیا۔ گو کہ ریکارڈ کے اعتبار سے سہواگ ہی سرفہرست ہیں لیکن بہترین اننگز میں سچن تنڈولکر ہی بے مثال ہیں۔ انہوں نے فروری 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف گوالیار میں 200 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔ سچن کا مقابلہ جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف تھا، جس میں دنیا کے بہترین تیز باؤلر ڈیل اسٹین بھی شامل تھے، جس میں انہوں نے محض 149 گیندوں پر تین چھکوں اور 25 چوکوں کی مدد سے 200 رنز بنائے اور آؤٹ بھی نہیں ہوئے۔ یہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ڈبل سنچری تھی اور کم از کم ہی اعزاز تو سچن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

سعید انور کی بھارت کے خلاف چنئی میں کھیلی گئی 194 رنز کی اننگز کو بھلا پاک و ہند میں کون بھول سکتا ہے؟ طویل اننگز کے اس ذکر میں سعید انور کی 194 رنز کی باری کو ایک بہت ہی خاص مقام حاصل ہے ۔ روایتی حریف کے خلاف اسی کی سرزمین پر اِس حال میں ایک ریکارڈ شکن اننگز کھیلنا کہ بلے باز اپنی طبیعت بہتر بھی محسوس نہ کر رہا ہو، کو ایک معجزاتی اننگز کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہ آزادی کپ 1997ء کے سلسلے کا ایک میچ تھا جس میں روایتی حریف پاکستان و بھارت ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور سعید انور نے گزشتہ سال عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں ملنے والی شکست کا بدلہ تمام بھارتی باؤلرز سے جی بھر کر لیا۔ وہ بدقسمتی سے عین اس وقت سچن تنڈولکر کی گیند پر سارو گانگلی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہو گئے جب وہ تاریخ کی پہلی ڈبل سنچری اننگز سے محض 6 قدم کے فاصلے پر تھے۔ بہرحال، اس اننگز کی بدولت پاکستان بعد ازاں 35 رنز سے یہ مقابلہ جیت گیا۔ اس اننگز کی بدولت سعید انور نے انگلستان کے خلاف 1984ء میں بنایا گیا ویوین رچرڈز کا 189 رنز کی ناقابل شکست اننگز کا ریکارڈ توڑا۔

سعید انور اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ کئی بلے باز ان کے ریکارڈز کے قریب پہنچ کر ہمت ہار گئے، یہاں تک کہ زمبابوے کے چارلس کوونٹری 194 رنز تک پہنچ گئے لیکن اس سے آگے نہ بڑھ پائے اور ناٹ آؤٹ اور شکستہ دل میدان سے لوٹے۔ بالآخر فروری 2010ء میں 13 سال بعد سچن نے ڈبل سنچری اننگز میں اس ریکارڈ کو توڑ ڈالا۔

اس کے علاوہ ویوین رچرڈز کی 189 رنز کی اننگز کا بھی ذکر کرتے چلیں کیونکہ یہ وہ ریکارڈ تھا جو 13 سال تک برقرار رہا۔ بلاشبہ ایک بڑی ٹیم کے خلاف اس کے ہوم گراؤنڈ میں اتنی شاندار اننگز کھیلنا ویوین کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔ اس اننگز میں سر ویوین نے 170 گیندوں پر 21 چوکوں اور 5 چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 189 رنز بنائے۔

اس کے علاوہ ایک اننگز جس میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا، وہ بلامبالغہ "ایک روزہ کرکٹ تاریخ کا بہترین میچ" کہلانے کے لائق مقابلے میں کھیلی گئی۔ جی ہاں، وینڈررز، جوہانسبرگ میں ہونے والے اس تاریخی میچ میں جس میں جنوبی افریقہ نے ریکارڈ 435 رنز کے ہدف کو عبور کیا، ہرشل گبز کی اس تاریخی اننگز کے بل بوتے پر جس میں وہ کئی ریکارڈز اپنے نام کرنے جا رہے تھے لیکن 175 رنز پر جا کر رک گئے۔ بہرحال ان کی یہ باری جنوبی افریقہ کو ایک عظیم فتح تک لے گئی۔ اس اننگز میں گبز نے محض 111 گیندیں استعمال کیں اور 21 چوکوں اور 7 چھکوں کی مدد سے آسٹریلین باؤلنگ لائن اپ کا بھرکس نکال دیا۔

اس فہرست میں دیگر کئی اننگز کو تاریخ کی بہترین باریوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایک ویراٹ کوہلی کی حال ہی میں ایشیا کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلی گئی 183 رنز اور سچن کی آسٹریلیا کے خلاف نومبر 2009ء میں حیدرآباد میں 175 رنز کی باری۔ لیکن ذکر طویل ہو جائے گا، اس لیے صرف حوالہ دینا ہی کافی ہے۔

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک روزہ تاریخ میں 45 بلے بازوں نے 69 مرتبہ بلے بازوں نے 150 کا ہندسہ عبور کیا ہے۔ سب سے زیادہ مرتبہ عظیم بلے باز سچن تنڈولکر نے یہ کارنامہ انجام دیا یعنی 5 مرتبہ۔ 4 مرتبہ سری لنکا کے جے سوریا نے، 3 مرتبہ عظیم ویوین رچرڈز، اینڈریو اسٹراس، برائن لارا اور کرس گیل نے اور 2، 2 مرتبہ اینڈریو سائمنڈز، ایڈم گلکرسٹ ، گوتم گمبھیر، ہملٹن ماساکازا، ہرشل گبز، میتھیو ہیڈن، سارو گانگلی، شین واٹسن، تلکارتنے دلشان اور وریندر سہواگ نے۔ باقی تمام کھلاڑیوں نے کیریئر میں صرف ایک مرتبہ ہی اس سنگ میل کو چھوا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہاشم آملہ کی اننگز مذکورہ بالا باریوں کی طرح فتح گر ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟