سنسنی خیز معرکہ آرائی، بھارت صرف ایک رن سے شکست کھا گیا
یووراج سنگھ کی واپسی کے باعث اہمیت کا حامل مقابلہ سنسنی خیز معرکہ آرائی کے بعد بھارت کی محض ایک رن سے شکست پر منتج ہوا۔ 168 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بھارت اس وقت تک بخوبی رواں دواں تھا جب تک ویراٹ کوہلی کریز پر موجود تھے لیکن ان کے ساتھ ہی رنز بنانے کی رفتار بھی میدان بدر ہو گئی اور یووراج سنگھ کی بھرپور کوشش بھی بھارت کو میچ میں واپس نہ لا سکی۔ بھارت کو آخری گیند پر چار رنز درکار تھے اور اس پر صرف دو رنز بنائے جا سکے۔ یوں درمیانی اوورز میں مہمان گیند بازوں کی محنت رنگ لائی اور نیوزی لینڈ ایک مایوس کن دورے کا اختتام فتح کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوا۔
نیوزی لینڈ کی جیت میں کلیدی کردار برینڈن میک کولم کی 91 رنز کی شاندار اننگز اور بعد ازاں حتمی اوورز میں جیمز فرینکلن کی نپی تلی گیند بازی کا تھا۔ انہوں نے جیکب اورم کے ساتھ مل کر وکٹ کی نوعیت کو درست وقت پر سمجھا اور دھیمی گیندوں کا بخوبی استعمال کیا۔
بھارت کو آخری دو اوورز میں جیت کے لیے 25 رنز درکار تھے۔ ٹی ٹوئنٹی طرز کی کرکٹ میں ویسے بھی 19 واں اوور اہم ترین سمجھا جاتا ہے جس میں ابتدائی چاروں گیندوں پر باؤنڈری لگانے میں ناکامی کے بعد یووراج سنگھ نے جیکب اورم کو ڈیپ مڈ وکٹ پر ایک زبردست چھکا رسید کر کے مقابلے کو دلچسپ مرحلے میں داخل کر دیا۔ آخری اوور میں مقابلہ اُس وقت بھارت کی مزید گرفت میں آ گیا جب فرینکلن کی دوسری گیند، جو غلطی سے شارٹ پھینکی گئی تھی، کو دھونی نے اسکوائر لیگ باؤنڈری کی جانب چوکے کے لیے موڑ دیا۔ پھر ’مرے ہوئے پر سو دُرے‘ اگلی گیند فرینکلن نے وائیڈ پھینک دی۔ بھارت حاوی دکھائی دیتا تھا لیکن اس صورتحال میں بھی فرینکلن نے حواس کو قابو میں رکھا اور چوتھی گیند پر یووراج کو ایک دھیمی گیند پر کلین بولڈ کر کے فیصلہ کن ضرب لگا دی۔
بچ جانے والی دو گیندوں پر، جس میں بھارت کو 6 رنز درکار تھے، کپتان دھونی کو حریف باؤلرز کا سامنا کرنے کا موقع ہی نہ ملا اور دونوں گیندوں پر روہیت شرما دو، دو رنز ہی دوڑ پائے۔ اس فتح کی بدولت نیوزی لینڈ نے ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی 1-0 سے جیت لی کیونکہ وشاکھاپٹنم میں طے شدہ سیریز کا پہلا مقابلہ بارش کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ بھارت کے خلاف نیوزی لینڈ مسلسل چوتھی ٹی ٹوئنٹی فتح بھی تھی۔
چنئی کے ایم چدمبرم اسٹیڈیم میں ہزاروں تماشائی یووراج سنگھ کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی وجہ سے بہت پرجوش تھے اور بھارت کے لیے اس کے علاوہ یہ میچ یوں بھی اہم تھا کہ یہ 18 ستمبر سے سری لنکا میں شروع ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل اس کا آخری بین الاقوامی مقابلہ تھا۔ مقابلے پر گرفت مضبوط ہو جانے کے باوجود نیوزی لینڈ جیسے کمزور حریف کے خلاف شکست بلاشبہ بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، حالانکہ نیوزی لینڈ نے تین کیچ چھوڑ کر بھارت کو میچ میں واپس آنے کے بھرپور مواقع دیے لیکن آخر میں بھارت ان کا فائدہ نہ اٹھا پایا۔
خیر، بھارتی اننگز کو فتح کے اس قدر قریب پہنچانے میں اہم کردار ویراٹ کوہلی کی 70 اور یووراج سنگھ کی 34 رنز کی اننگز کا تھا۔
گمبھیر کی جلد پویلین واپسی اور بھر کوہلی اور سریش رینا کے درمیان 60 رنز کی شراکت کے خاتمے پر بھارت کو یووراج سنگھ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور سرطان جیسے خطرناک مرض کو شکست دینے کے بعد ان کی بین الاقوامی کرکٹ میں پہلی واپسی کوئی اتنی بری بھی نہ تھی۔ انہوں نے دو مرتبہ گیند کو چھکے کی راہ دکھائی، اور محض 26 گیندوں پر 34 رنز بنائے۔ لیکن حتمی اوور میں انہیں آؤٹ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہی میچ کے پانسہ پلٹنے کا موقع ثابت ہوا۔ انہیں بلے بازی کے دوران ایک زندگی بھی ملی جب محض 9 رنز پر اُن کے ایک اٹھتے ہوئے شاٹ کو پکڑنے کی کوشش میں وکٹ کیپر برینڈن میک کولم اور کائل ملز آپس میں بری طرح ٹکرا گئے اور کیچ میک کولم کے ہاتھوں سے گر گیا۔ اس چوٹ کے نتیجے میں ملز کو میدان سے باہر جانا پڑا کیونکہ کیپر کا دستانوں والا ہاتھ بہت زور سے ان کی بائیں آنکھ کے نچلے حصے پر لگا تھا جس سے ان کا چہرہ سوج گیا تھا۔
اس زندگی سے یووراج نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اگلے اوور میں ویٹوری کی ایک گیند پر 90 میٹر طویل ایک شاندار چھکا رسید کیا۔ تماشائیوں کو پرانے یووراج کی جھلک بخوبی دکھائی دی۔ اسی اوور میں کوہلی نے بھی ویٹوری کو چھکا رسید کیا۔ لیکن اگلے اوور میں کیا ہوا؟ اس سے قبل کوہلی کی اننگز کا ذکر ہوتا جائے۔ جنہوں نے ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں بھارت کی رفتار کو برقرار رکھا۔ یہاں تک کہ بھارت کو 40 گیندوں پر محض 49 رنز درکار تھے اور اس کی 7 وکٹیں باقی تھیں لیکن کوہلی کی روانگی کے ساتھ ’فتح کی دیوی‘ بھی بھارت سے روٹھ گئی۔ انہوں نے صرف 41 گیندیں کھیلیں اور 10 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 70 رنز بنا چکے تھے اور مقابلہ تقریباً نیوزی لینڈ کی گرفت سے نکال چکے تھے لیکن 14 ویں اوور میں ان کے آؤٹ ہونے کے بعد دیگر بلے باز توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ جیمز فرینکلن کی خاص بات یہ رہی کہ انہوں نے مقابلے کی دو قیمتی ترین وکٹیں حاصل کیں، جو دونوں دھیمی گیندیں تھی جن پر پہلے کوہلی ٹم ساؤتھی کے ایک زبردست کیچ کا شکار بنے اور پھر آخری اوور میں یووراج بولڈ ہوئے۔
مہندر سنگھ دھونی، جنہوں نے حالات کی نزاکت کے باعث خود پہلے آنے کا فیصلہ کیا، 23 گیندوں پر 2 چوکوں کی مدد سے صرف 22 رنز بنا سکے اور ممکنہ طور پر اپنی سست روی کے باعث شکست کے ذمہ دار کہلائے جا سکتے ہیں۔ بھارت نے اگلے 4 اوورز میں صرف 17 رنز بنائے اور ایسے موقع پر جب بھارت کو ایک، دو کی نہیں بلکہ چار اور چھ رنز مارنے کی ضرورت تھی، گیند ان کے بلے پر نہیں آ رہی تھی اور وہ صرف دو چوکے ہی لگا سکے اور آخری لمحات میں نان-اسٹرائیکر اینڈ پر کھڑے ٹیم کو شکست سے دوچار ہوتے دیکھتے رہے۔
فرینکلن کے علاوہ کائل ملز اور جیکب اورم نے بھی بہت عمدہ باؤلنگ کروائی۔ ملز نے 3 اوورز میں محض 17 رنز دیے اور دو وکٹیں حاصل کیں جبکہ جیکب اورم نے مقررہ 4 اوورز میں 27 رنز دیے، البتہ وکٹ لینے میں ناکام رہے۔ ان کے علاوہ ایڈم ملنے کے 3 اوورز میں بھارت نے 36، ڈینیل ویٹوری کے 4 اوورز میں 37 اور رونی ہیرا کے 2 اوورز میں 20 رنز لوٹے۔
قبل ازیں بھارت نے ٹاس جیت کر وکٹ پر موجود گھاس کے باعث پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا تو ابتدائی دونوں اوورز میں ظہیر خان اور عرفان پٹھان کے ہاتھوں اوپنرز کی روانگی سے اس فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔ لیکن طویل عرصے سے بجھے بجھے برینڈن میک کولم نے بالآخر اپنی اہمیت ثابت کر ہی ڈالی۔ اس اننگز کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے تن تنہا نیوزی لینڈ کی گرتی ہوئی اننگز کو اٹھایا اور ایسے مجموعے تک پہنچایا جہاں تک پہنچنے کے لیے میزبان ٹیم کو سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ میک کولم کو ایک زندگی ملی، کیونکہ جب وہ 38 پر تھے تو روی چندر آشون کو ریورس سوئپ کھیلنے کی ناکام کوشش میں ایل بی ڈبلیو کی زبردست اپیل کا سامناکر بیٹھے۔ امپائر کا کہنا تھا کہ گیند اُن کے بلے سے لگی ہے جبکہ بعد میں ری پلے سے ظاہر ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، بہرحال ایل بی ڈبلیو اپیل پر بچ جانا کرکٹ معمولات کے حصہ ہے لیکن امپائر کے اس فیصلے نے انہیں میچ کی فیصلہ کن اننگز کھیلنے کا موقع ضرور دیا۔ اس اپیل کا بدلہ انہوں نے آشون سے خوب لیا اور انہیں خوب چھکے، چوکے رسید کیے اور ان کے تین اوورز میں نیوزی لینڈ نے 34 رنز لوٹے۔
میک کولم اپنے ٹی ٹوئنٹی کیریئر کی دوسری سنچری کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے 91 رنز پر عرفان پٹھان کی ایک دھیمی گیند پر سوئپ کھیلنے کی کوشش انہیں مہنگی پڑ گئی اور وہ کلین بولڈ ہوکر پویلین لوٹ آئے۔ البتہ یہ اننگز انہیں میچ اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز دلوانے کے لیے کافی تھی۔
اب دونوں ٹیمیں سری لنکا روانہ ہوں گی جہاں ایک ہفتے بعد ٹی ٹوئنٹی کی عالمی جنگ کا آغاز ہوگا۔ اس اہم ٹورنامنٹ سے قبل ایک سخت معرکے کے بعد حاصل ہونے والی فتح نیوزی لینڈ کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنی ہوگی جبکہ شکست نے بھارت کو کئی کمزور پہلوؤں پر توجہ ڈالنے کی ضرورت کا احساس کروایا ہے۔