[آج کا دن] پاکستان کا ’جنگجو‘ اوپنر، ”مانچسٹر سے بنگلور تک“
ابتدائی بلے بازوں یعنی اوپنرز پاکستان کا دیرینہ مسئلہ ہیں۔ ابتداء میں حنیف محمد کی صورت میں ایک عظیم بلے باز کی خدمات پاکستان کو حاصل رہی لیکن انفرادی حیثیت کے علاوہ ایک اچھی اوپننگ جوڑی پاکستان کے لیے بسا اوقات ایک خواہش ہی رہی یہاں تک کہ 90ء کی دہائی سعید انور اور عامر سہیل کی صورت میں پاکستان کو قابل اعتماد اوپنرز ملے۔ ان دونوں بلے بازوں نے طویل عرصے سے تصفیہ طلب مسئلے کو حل کیا اور پاکستان کی کئی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک عامر سہیل کا آج 46 واں یوم پیدائش ہے۔
1992ء کے عالمی کپ کے فاتح دستے کے رکن عامر سہیل نے 90ء کی دہائی میں پاکستان کی جانب سے کئی یادگار اننگز کھیلیں اور قیادت کے فرائض بھی انجام دیے۔ ان کی سب سے یادگار اننگز بلاشبہ 1992ء میں پہلی ٹیسٹ سنچری تھی جسے انہوں نے ڈبل سنچری میں بدلا۔ عالمی کپ جیتنے کے فوراً بعد پاکستان کی صلاحیتوں کا پہلا امتحان انگلش سرزمین پر ہونا تھا۔یہ مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کے درمیان تاریخی جھگڑے اور عالمی کپ 1992ء کے فائنل میں شکست کے بعد پہلی پاک-انگلستان سیریز تھی۔ انگلستان امپائروں اور ذرائع ابلاغ کے ہتھیاروں سے لیس تھا جبکہ عالمی کپ جیتنے کے بعد پاکستان کے حوصلے بلند تھے۔ عامر سہیل نے برمنگھم میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یہ عامر کے علاوہ انضمام الحق کا بھی پہلا ٹیسٹ تھا جو بارش کی وجہ سے بے نتیجہ اختتام کو پہنچا۔ واحد اننگز میں عامر سہیل صرف 18 رنز بنا پائے البتہ لارڈز میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں پہلی اننگز میں 73 اور دوسری میں 39 رنز بنا کر روشن مستقبل کا اعلان کیا۔ پاکستان اس تاریخی ٹیسٹ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد محض دو وکٹوں سے کامیاب ہوا اور سیریز میں برتری حاصل کر لی۔
سیریز میں برتری ملنے کے بعد اولڈ ٹریفرڈ میں تیسرا ٹیسٹ بلاشبہ عامر سہیل کے کیریئر کا سب سے یادگار ٹیسٹ ہوگا جہاں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور عامر سہیل کے بلے سے رنز کا سیلاب امنڈ پڑا۔یہ ٹیسٹ عامر کی ڈبل سنچری کے علاوہ بھی دیگر کئی وجوہات کی بنیاد پر یاد رکھا جائے گا۔ وسیم اکرم کی خوبصورت گیند بازی اور امپائر روئے پامر کے پاکستانی باؤلر عاقب جاوید اور کپتان جاوید میانداد کے ساتھ جھگڑے کے باعث۔ خیر، یہ آج کا موضوع نہیں ہے۔ ہم صرف عامر سہیل کی ڈبل سنچری کی بات کریں گے۔ جاوید میانداد نے وکٹ کو دیکھتے ہوئے بلے بازوں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور پہلے سیشن میں دونوں اینڈز سے عمدہ بلے بازی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ ایک طرف عامر سہیل کے خوبصورت اسٹروکس تھے تو دوسری جانب سے رمیز راجہ کے۔ لیکن کھانےکے وقفے سے قبل پاکستان کو رمیز راجہ کی وکٹ گنوانا پڑی جو امپائر کے ایک ناقص فیصلے کا نشانہ بن گئے جنہوں نے وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ قرار دیا۔
عامر سہیل برق رفتاری سے انفرادی و اجتماعی اسکور کو آگے بڑھاتے رہے۔ انہوں نے اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری محض 127 گیندوں پر مکمل کی۔ دن کے آخری سیشن میں انہوں نے کیریئر کی پہلی سنچری کو ڈبل سنچری میں بدل ڈالا یعنی ایک دن ڈبل سنچری بنانے والے چند بلے بازوں میں اپنا نام لکھوا لیا۔ مانچسٹر کے کرکٹ کے شیدائیوں نے نشستوں سے کھڑے ہو کر اس خوبصورت اننگز پر عامر سہیل کو داد دی۔ کچھ ہی دیر بعد عامر کرس لوئس کی گیند پر بولڈ ہو کر تالیوں کی گونج میں پویلین لوٹے۔ انہوں نے 284 گیندوں پر 32 چوکوں کی مدد سے 205 رنز بنائے اور 343 منٹ تک کریز پر موجود رہے۔
میچ تو بے نتیجہ ختم ہوا لیکن عامر سہیل کو شاندار بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی ضرور قرار دیا گیا۔
ہیڈنگلے، لیڈز میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میں عامر سہیل سمیت پوری پاکستانی ٹیم ناکام رہی اور انگلستان 6 وکٹوں سے مقابلہ جیت کر سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
اب پاکستان کے پاس اوول میں آخری موقع تھا کہ وہ سیریز اپنے نام کرے اور پاکستان نے باؤلرز کی شاندار کارکردگی کی بدولت اوول میں 10 وکٹوں کی شاندار فتح کے ساتھ سیریز میں 2-1 سے جیت لی۔ یوں عامر سہیل کے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سیریز ہی اک یادگار روپ دھار گئی۔ انگلستان نے امپائروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری کوشش کی کہ پاکستان کو زیر کر لے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ پاکستانی گیند بازوں پر گیند سے چھیڑ چھاڑ (بال ٹمپرنگ) کا الزام لگایا گیا۔ دوسری جانب امپائرز بھی پاکستانی بلے بازوں کے خلاف معمولی اپیلو ں پر بھی انگلیاں اٹھاتے رہے اور انگلش بلے بازوں کے گز بھر کے فاصلے سے ہونے والے رن آؤٹ بھی انہیں نظر نہ آتے۔ اس کڑی صورتحال میں پاکستان نے وسیم اکرم کی عمدہ گیند بازی کی بدولت اوول میں کھیلا گیا آخری ٹیسٹ جیتا اور عامر سہیل نے پہلی اننگز میں 49 رنز بنائے اور فتح میں اپنا حصہ ڈالا۔
انگلش سرزمین پر یادگار آغاز کے بعد عامر سہیل نے کیریئر میں مزید چار سنچریاں بنائیں دو 1997ء کے اواخر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں دو مرتبہ 160، 160 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ بقیہ دو سنچریاں انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف بنائیں۔ اکتوبر 1998ء میں کراچی ٹیسٹ میں 133 اور اس سے قبل نومبر 1994ء میں 105 رنز کی اننگز آسٹریلیا ہی کے خلاف کھیلی گئیں۔ اس کےعلاوہ نومبر 1995ء میں آسٹریلیا کے خلاف برسبین ٹیسٹ میں وہ 99 پر بھی آؤٹ ہوئے تھے۔
بحیثیت مجموعی انہوں نے 47 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 35.28 کی اوسط سے 2823 رنز بنائے۔ جس میں پانچ مذکورہ بالا سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں شامل رہیں۔
ٹیسٹ کے علاوہ ایک روزہ میں بھی آپ ایک یادگار کیریئر کے حامل رہے۔ اور آخر یادگار کیوں نہ ہو؟ ابتداء ہی میں ان کی موجودگی میں پاکستان نے 1992ء کا عالمی کپ جیتا۔ جس میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب انہوں نے عالمی کپ میں پہلا میچ کھیلا تو یہ ان کے کیریئر کا محض چھٹا ایک روزہ تھا۔ پاکستان کو پہلے میچ میں تو شکست ہوئی لیکن عامر نے زمبابوے کے خلاف 114، بھارت کے خلاف 62 اور آسٹریلیا کے خلاف 76کی کارآمد اننگز کھیلیں ۔
1996ء کے عالمی کپ میں، جو پاکستان، بھارت اور سری لنکا میں مشترکہ طور پر کھیلا گیا، پاکستان گروپ مقابلوں میں بہتر کارکردگی کے بعد ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچا جہاں اس کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف بھارت کے ساتھ قرار پایا۔ عامر سہیل اور سعید انور کی عمدہ بلے بازی نے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کر دیا لیکن عامر سہیل کی روایتی غصیلی طبیعت نے نہ صرف انہیں خود اپنی وکٹ سے محروم کیا بلکہ آگے آنے والے بلے باز بھی دباؤ کو نہ جھیل پائے اور پاکستان بنگلور میں مقابلہ ہار کر عالمی کپ سے باہر ہو گیا۔
پاکستان نے 49 اوورز میں 288 رنز کے بڑے ہدف کا تعاقب بہت ہی برق رفتاری سے شروع کیا۔ پاکستان کی تاریخ بہترین اوپننگ جوڑی سعید انور اور عامر سہیل میدان میں موجود تھے، جنہوں نے جواگل سری ناتھ، وینکٹش پرساد اور دیگر بھارتی باؤلرز کو آڑے ہاتھوں لیا اور بنگلور بلکہ پورے بھارت کو سناٹے میں ڈال دیا۔
10 اوورز میں پاکستان کے 84 رنز بن چکے تھے اور وہ فتح کی جانب تیزی سے پیشقدمی کرتا دکھائی دے رہا تھا کہ سعید انور 32 گیندوں پر 48 رنز بنانے کے بعد سری ناتھ کا واحد شکار بن گئے۔
میچ ابھی بھی پاکستان کی گرفت میں تھا، اور شاید رہتا بھی اگر عامر سہیل اپنی توجہ صرف بلے بازی پر مرکوز رکھتے۔ انہوں نے پرساد کے ایک اوور میں جارحانہ شاٹ کھیلتے ہوئے گیند کو ایکسٹرا کور باؤنڈری سے باہر پہنچایا اور باؤلر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہنے لگے۔ اور اگلی گیند پر وہ جادوئی لمحہ تھا جس نے میچ کا فیصلہ کر دیا۔ عامر سہیل نے گیند کو ایک مرتبہ پھر کور باؤنڈری کی راہ دکھانا چاہی لیکن وہ اندر آئی اور ان کی وکٹیں اڑاتی ہوئی نکل گئی۔ اب پرساد کی باری تھی، جنہوں نے عامر سہیل کو ’بہت اچھے الفاظ‘ میں یاد کیا اور یوں خاموش میدان میں گویا زندگی کی لہر دوڑ گئی۔
بہرحال، عامر سہیل نے مجموعی طور پر 156 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 31.86 کے اوسط سے 4780 رنز بنائے۔ جس میں آپ کا بہترین اسکور 134 رنز تھا۔
آپ بائیں ہاتھ سے ایک کارآمد دھیمے باؤلر بھی تھے۔ ٹیسٹ میں 25 اور ایک روزہ میں 85 وکٹیں اپنے نام کیں۔ میچ فکسنگ تنازع میں ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں کے ملوث ہونے کے بعد آپ نے کئی اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا جس کے نتیجے میں خود آپ کا بین الاقوامی کیریئر بھی متاثر ہوا۔ نتیجتاً 2000ء میں سری لنکا کے دورۂ پاکستان کے بعد آپ نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا اور رواں تبصرہ کار(کمنٹیٹر) کی حیثیت سے ذرائع ابلاغ سے ناطہ جوڑ لیا۔
عامر سہیل پاکستان کرکٹ بورڈ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے ہیں اور کمنٹری کے علاوہ آجکل پاکستان میں کھیلوں کے قومی ٹیلی وژن چینل "پی ٹی وی اسپورٹس" سے بھی وابستہ ہیں۔