افغانستان کے سفر کا بدترین اختتام، انگلستان فتحیاب
بھارت کے خلاف زبردست معرکہ آرائی کے بعد افغانستان نے انگلستان کے خلاف بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے دنیا کو بتا دیا ہے کہ اسے عالمی منظرنامے پر ایک قوت بننے میں ابھی کافی عرصہ لگے گا۔ گو کہ ایک طرح سے افغانستان کی اب تک کی کارکردگی بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسے پرانے اراکین سے بہتر رہی، لیکن پھر بھی انگلستان کے خلاف جس طرح کی بلے بازی کا مظاہرہ کیا گیا وہ بین الاقوامی سطح پر ایک شرمناک کارکردگی تھی، جس کے ساتھ افغانستان کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سفر بھی تمام ہوا۔ افغانستان زمبابوے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی دوسری ٹیم بنا۔ انگلستان کے 196 رنز کے جواب میں پوری افغان ٹیم 80 رنز پر ڈھیر ہوئی اور دفاعی چیمپئن انگلستان کی مہم کا آغاز 116 رنز کی بھاری فتح کے ساتھ ہوا۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں یکطرفہ مقابلوں کے جاری سلسلے میں انگلستان-افغان مقابلہ اک نیا اضافہ ثابت ہوا جہاں افغانستان نے ٹاس جیت کر انگلستان کو بلے بازی کی دعوت دی، جس نے ابتدائی اوور میں کریگ کیزویٹر کی وکٹ گنوانے کے باوجود لیوک رائٹ کی شاندار اننگز کی بدولت افغان باؤلرز کو ان کی اوقات یاد دلا دی۔ محض 55 گیندوں پر 6 چھکوں اور 8 چوکوں سے مزین اننگز بدقسمتی سے تہرے ہندسے میں داخل نہ ہو سکی اور رائٹ 99 رنزکے ساتھ ناقابل شکست ہی میدان سے واپس لوٹے۔ وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انگلستان کی جانب سے پہلی سنچری نہ بنا سکے، رواں سال جون کے مہینے میں ان کے ساتھ ایلکس ہیلز بھی محض ایک رن سے سنچری بنانے میں ناکام رہے تھے۔ بہرحال، لیوک رائٹ نے دوسری وکٹ پر ایلکس ہیلز کے ساتھ 69 اور تیسری وکٹ پر ایون مورگن کے ساتھ 72 رنز کی شراکت داریاں قائم کر کے پہلی وکٹ کے نقصان کے بعد انگلش اننگز کو مضبوط بنایا۔
رائٹ نے افغان باؤلرز کی ناتجربہ کاری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پہلے اوور کے وکٹ میڈن ہونے پر قائم ہونے والا دباؤ ہٹانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے پہلے ہی اوور میں وکٹ لینے والے شاپور زدران کو تیسرے اوورمیں مسلسل دو گیندوں پر ایک چھکا اور چوکا رسید کیا جبکہ دوسرےاینڈ سے ہیلز پہلے ہی انہیں دو چوکے رسید کر چکے تھے۔ یوں اننگز کے پانچویں اوور میں 23 رنز لوٹنے سے میچ کا جھکاؤ انگلستان کی جانب ہونا شروع ہو گیا۔ رائٹ اور ہیلز نے اگلے اوور میں، جو پاور پلے کا آخری اوور تھا، بھی تین چوکے لگائے۔ بدقسمتی سے ہیلز ساتھی کھلاڑی رائٹ کے سیدھے شاٹ کے بعد گیند باز کریم صادق کے ہاتھ سے لگنے والی گیند کے نان اسٹرائیکر اینڈ پر وکٹوں سے لگ جانے کے باعث رن آؤٹ ہو گئے۔ انہوں نے 27 گیندوں پر 31 رنز بنائے۔
اب رائٹ نے مورگن کے ساتھ مل کر اننگز کو دوبارہ سنبھالا اور 13 ویں اوور میں سمیع اللہ شنواری کو ایک چھکا اور چوکا رسید کیا اور رنز بنانے کی رفتار کو تیز تر کرنے کے سلسلے کو جاری رکھا۔ ان حالات میں محمد نبی اور دولت زدران کے دو عمدہ اوورز نے کوشش کی کہ انگلستان توقع سے زیادہ رنز نہ بنائے لیکن جیسے ہی 15 اوورز تمام ہوئے، مورگن خصوصاً لیوک رائٹ کو روکنا ناممکن ہو گیا۔ مورگن نے اننگز کے سولہویں اوور میں پہلی گیند کو مڈوکٹ کی جانب چھکے کی راہ دکھائی اور پھر اسی اوور میں رائٹ نے دو چوکے اور ایک چھکا حاصل کرتے ہوئے انگلستان کے بڑے اسکور کی جانب پیشقدمی کو جاری رکھا۔
اگلے اوور میں مورگن عزت اللہ دولت زئی کی گیند پر مڈوکٹ پر کیچ دے بیٹھے ۔ انہوں نے 23 گیندوں پر ایک چھکے اور ایک چوکے کی مدد سے 27 رنز بنائے۔ لیکن انگلستان کو سب سے عمدہ موقع اننگز کے 18 ویں اوور میں ملا جب محمد نبی کی گیند پر شارٹ تھرڈمین پر دولت زئی نے لیوک رائٹ کا کیچ چھوڑا جو اس وقت 75 رنز پر کھیل رہے تھے۔ دوسرے اینڈ سے جوس بٹلر تین چوکے لگانے کے بعد 15 رنز بنا کر دولت زئی کی دوسری وکٹ بن گئے۔ لیکن دولت زئی کے لیے یہ وکٹ لینے کے باوجود اوور اچھا ثابت نہ ہو سکا کیونکہ پہلی گیند پر تو وہ چوکا کھا ہی چکے تھے، لیکن اس کے بعد نو بال پر بیئرسٹو نے انہیں چھکا رسید کیا اور پھر لیوک رائٹ نے میچ کا سب سے خوبصورت لمحہ دکھایا جب انہوں نے اوور کی تیسری، چوتھی اور پانچویں گیند پر لگاتار تین چھکے لگائے۔ یوں دولت زئی کے ایک اوور میں 32 رنز لوٹے گئے اور آخری اوور میں بیئرسٹو ایک چوکا حاصل کرنے کے بعد 12 رنز بنا کر لانگ آن پر کیچ آؤٹ ہو گئے۔ آخری گیند پر رائٹ کو سنچری کے لیے تین رنز کی ضرورت تھی لیکن وہ محض 2 رنز بنا پائے۔ یوں وہ 99 رنز ناٹ آؤٹ کے ساتھ میدان سے لوٹے۔ لیکن اسکور بورڈ پر 196 رنز کا مجموعہ ان کی محنت کو ظاہر کر رہا تھا اور بلاشبہ مقابلہ مکمل طور پر انگلستان کی گرفت میں تھا۔
افغانستان کی جانب سے دولت زدران نے صرف 3 اوورز میں 56 رنز کھائے لیکن سب سے زیادہ یعنی دو وکٹیں بھی انہوں نے ہی لیں۔ ایک، ایک وکٹ شاپور زدران اور دولت زدران کو ملی۔
197 رنز کے تعاقب میں افغانستان کا آغاز 'بد سے بدترین' تھا۔ پہلے اوور ہی سے وکٹیں گرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو پاور پلے کے اندر اندر افغانستان آدھی ٹیم سے محروم ہو چکا تھا۔ محمد شہزاد 1، شفیق اللہ صفر، نوروز منگل 8، کریم صادق 5 اور اصغر ستانکزئی 4 رنز بنا کر پویلین لوٹے لیکن اس صورتحال میں بھی وکٹیں گرنا بند نہ ہوئیں۔ محمد نبی، دولت زدران اور شاپور زدران بے وقوفانہ انداز میں اپنی وکٹیں انگلستان کو دے گئے اور محض 26 رنز پر افغانستان کے 8 کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور وہ تاریخ کے کم ترین ٹی ٹوئنٹی اسکور پر آؤٹ ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ اگر گلبدین نائب 32 گیندوں پر 44 رنز کی اننگز نہ کھیلتے تو افغانستان اس ہزیمت سے بھی دوچار ہو جاتا۔ گلبدین نے اپنی اننگز میں 3 چھکے اور 5 چوکے لگائے اور ان کے آؤٹ ہونے کے ساتھ 18 ویں اوور میں محض 80 رنز پر افغان اننگز تمام ہوئی اور انگلستان کو ایک بھاری فتح نصیب ہوئی۔
انگلستان کی جانب سے جیڈ ڈرنباخ، اسٹورٹ براڈ، سمیت پٹیل اور گریم سوان نے 2،2 جبکہ اسٹیون فن نے ایک وکٹ حاصل کی۔
لیوک رائٹ کو شاندار اننگز پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں افغانستان کا سفر تو تمام ہوا لیکن اب انگلستان کو ٹورنامنٹ کے ممکنہ طور پر عمدہ ترین میچ میں ایک روزہ عالمی چیمپئن بھارت کا سامنا کرنا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے چیمپئن ٹیموں کا یہ معرکہ اتوار 23 ستمبر کو کولمبو میں ہوگا، جس کے نتیجے میں گروپ 'اے' کے فاتح کا فیصلہ ہوگا۔